Img 20230322 Wa0005

بینکنگ سیکٹر دباﺅ کا شکار ،کیا دنیا مالی بحران کی شکار ہے؟

بینکنگ سیکٹر دباﺅ کا شکار ،کیا دنیا مالی بحران کی شکار ہے؟
ماہرین معاشیات کا عالمی بینکنگ شعبے کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ

سرینگر//22مارچ// ٹی ای این این// دنیا کی بڑی مالیاتی کارپوریشنز مشکل میں ہیں۔ مختلف ممالک کے مرکزی بینک جو دیوالیہ ہو جانے والے چھوٹے بینکوں کو مشکل سے نکالنے کے لیے سامنے آ رہے ہیں، وہ خود گرداب میں پھنسے نظر آتے ہیں جبکہ دنیا میں سٹاک مارکیٹوں کی صورتحال بہت غیرمستحکم ہے۔۔حال ہی میں عالمی خبررساں ادارے بی بی سی نے عالمی مالیاتی بحران سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال نے بہت سے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا ہم سنہ 2008 میں آنے والے عالمی معاشی بحران جیسی صورتحال سے دوبارہ دوچار ہونے کے قریب آ رہے ہیں۔اگرچہ امریکہ اور یورپ میں سیاسی رہنما اور مرکزی بینک یہ یقین دلوا رہے ہیں کہ ا ±ن کا مالیاتی نظام مضبوط اور مستحکم ہے مگر حالیہ دنوں میں عالمی سطح پر سرمایہ کاروں میں گھبراہٹ کے آثار واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں میں بطور خاص بینکنگ سیکٹر کے حصص میں شدید قسم کے ا ±تار چڑھاو ¿ نظر آ رہا ہے۔سوئس حکومت کی حمایت کے ساتھ انوسٹمنٹ بینکنگ کمپنی ’یو بی ایس‘ نے اتوار کو کریڈٹ سوئس کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ یہ دونوں بڑی بینکنگ کارپوریشنز ہیں جو دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے کام کرتی ہیں۔سوئس بینکنگ اپنے مالی استحکام کے لیے مشہور ہے، اس لیے کریڈٹ سوئس کے خاتمے اور یو بی ایس کے ساتھ اس کے جبری انضمام نے یورپی ملک کے اندر اور باہر لوگوں کو حیران کیا ہے۔خیال رہے کہ اس سے قبل دو امریکی بینکوں، سلیکون ویلی بینک (ایس وی بی) اور کور سگنیچر بینک کے دیوالیہ ہونے کے بعد عالمی سطح پر گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہوا تھا۔ یہ دونوں امریکی بینک ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے مہارت رکھتے ہیں۔اگرچہ سنہ 2008 کے بعد سے امریکہ میں دونوں بینک کا دیوالیہ ہونا بینکنگ کے شعبے میں بڑی ناکامیاں ہیں تاہم یہ دونوں کسی بھی طرح کریڈٹ سوئس کے سائز کے قریب کہیں بھی نہیں تھے، جو کہ دنیا کے 30 بڑے بینکوں میں سے ایک ہے۔اگرچہ مذکورہ بینکوں کے علاوہ کوئی اور ادارہ دیوالیہ نہیں ہوا ہے تاہم مرکزی بینکوں میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے جس کے باعث مالیاتی لین دین کے معمول کے کام کو یقینی بنانے کے لیے اضافی لیکویڈیٹی فراہم کرنے کے نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے اور ایسا گذشتہ 23 برسوں میں صرف دو بار ایسا کیا ہے۔ پہلی بار سنہ 2008 کے مالی بحران کے دوران اور پھر وبائی امراض کووڈ کے آغاز میں۔اس کا مقصد لوگوں کا اعتماد بڑھانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ بینک اب بھی صارفین کو قرضہ دے سکیں اور ان صارفین کی ادائیگی کر سکیں جو اپنی رقم بینکوں سے نکالنا چاہتے ہیں۔تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ جس مسئلے نے سنہ 2008 میں پورے بینکنگ سسٹم کو متاثر کیا تھا وہ آج موجود نہیں ہے۔اس وقت، دنیا بھر کے بینکوں کو اچانک پتہ چلا کہ وہ امریکی ریئل سٹیٹ مارکیٹ میں ناکام سرمایہ کاری کا شکار ہیں۔اس کی وجہ سے حکومت کو بڑے بیل آو ¿ٹ کرنے پڑے، مالیاتی بحران پیدا ہوا اور عالمی معاشی بدحالی سامنے آئی۔اس کے بعد سے بینکوں کو زیادہ لیکویڈیٹی رکھنے اور اس قسم کے خطرے کو محدود کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ضوابط نافذ کیے گئے ہیں۔زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ مسائل کا محدود اثر پڑے گا۔نوبل انعام یافتہ پال کرگمین نے رواں ہفتے ایک کالم میں کہا کہ ’یہ سنہ 2023 ہے، سنہ 2008 نہیں ہے۔ ہم شاید سلسلہ وار باقاعدہ مالیاتی بحران نہیں دیکھ رہے ہیں۔‘اس کے باوجود، بینکنگ کی دنیا انتہائی پیچیدہ ہے اور نظام میں نئی کمزوریوں کی نشاندہی کرنا مشکل ہے۔ جیسا کہ موجودہ شرح سود اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اتار چڑھاو ¿ کی موجودہ صورتحال میں دیکھا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ بینکوں کی صحت کے بارے میں گھبراہٹ اکثر متعدی ہوتی ہے، اور اگر گاہک اپنی جمع پونجی کے بارے میں فکر کرنے لگیں تو وہ اپنے بینک کی ویب سائٹ یا ایپ سے صرف چند سیکنڈ میں اپنی رقم نکال سکتے ہیں۔بہر حال اعتماد کے مکمل خاتمے کے بغیر بھی جو مالیاتی بحرانوں کی عکاسی کرتا ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ریگولیٹرز قوانین کو مزید سخت کر رہے ہیں اور بینک قرض دینے کے لیے بہت زیادہ تیار نہیں ہیں۔یہ خاص طور پر اس حساس وقت میں عالمی معیشت کو سست کر سکتا ہے، جبکہ بڑھتی ہوئی قیمتیں صارفین کی جیبوں پر اضافی دباو ¿ ڈال رہی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں