اردن، غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام سے لے کر اسٹرٹیجک اتحاد تک کا سفر

اردن کی مسئلہ فلسطین کے ساتھ غداری اور صہیونی حکومت کی مسلسل حمایت دنیا پر عیاں ہے۔ گذشتہ دنوں اسرائیل پر فائر کئے گئے ایرانی میزائلوں کو فضا میں تباہ کرنے کی کوششوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔

سیاسی ڈیسک: صہیونی حکومت کی جانب سے شام میں ایرانی سفارت خانے پر دہشت گرد حملے اور فوجی مشیروں کی شہادت کے بعد اسلامی جمہوری ایران نے غاصب اسرائیل کو جواب دیتے ہوئے سینکڑوں ڈرون طیارے اور میزائل فائر کئے۔ ایرانی حملوں سے گذشتہ چھے مہینوں سے صہیونی مظالم کا شکار فلسطینی عوام کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ صہیونی بربریت کے نتیجے میں اب تک 33 ہزار سے زائد فلسطینی بے گناہ شہید ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی حملوں پر دنیا میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی حکمرانی کا ڈھونگ رچانے والے امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے مغربی ممالک کے کانوں پر جووں تک نہیں رینگی۔

امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے ایران کے اسرائیل پر جوابی حملوں کی مخالفت اور مذمت قابل درک ہے کیونکہ ان استعماری ممالک کا شروع سے وطیرہ رہا ہے کہ فلسطین اور دیگر مسلمان ممالک اور امت مسلمہ کے ساتھ عناد کا اظہار کریں۔ تعجب تو ان مسلم ممالک کے کردار پر ہوتا جنہوں نے اس مجرم صہیونی حکومت کی حمایت کی اور اسرائیل کی جانب فائر کئے جانے والے ایرانی ڈرون طیاروں اور میزائلوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ یہی وہ ممالک ہیں جو زبان طور پر فلسطین کی حمایت اور غز کے مظلومین کے ساتھ ہمدردی کا دم بھرتے ہیں۔

اردن کے اس ذلت آمیز رویے اور موقف کی امت مسلمہ خصوصا فلسطین کے حامیوں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی۔ شاہ عبداللہ پر سوشل میڈیا میں تنقید کی بوچھاڑ کی گئی اور ان کو پوری امت مسلمہ کے لئے باعث ننگ و عار قرار دیا گیا۔سوشل میڈیا صارفین نے شہریوں کے دفاع کا اردن کی طرف سے پیش کردہ عذر کو مسترد کرتے ہوئے اس حکمت عملی کو امریکہ اور اسرائیل کی غلامی سے تعبیر کیا۔ صارفین نے کہا کہ اردن کو کم از کم اس مسئلے پر غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا کیونکہ ایران سے اس کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔

اردن کی حکومت کے دعوے کے برعکس سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ ایرانی ڈرون اور میزائلوں کو اردن کی فضا میں نشانہ بناکر اردن کو خطرے میں ڈالا گیا کیونکہ میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے ٹکڑے اردن کے اندر گرے جو شہریوں کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے تھے۔

ایکس کے صارف رامی عبدی نے کہا کہ حالیہ موقف کے بعد آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ اردن اسرائیل کا اسٹریٹیجک اتحادی بن چکا ہے۔ فلسطینی پناہ گزین محمد حامد العائلہ نے کہا ہے کہ اردن نے عراق کے خلاف امریکہ کو اپنی سرزمین فراہم کی تھی۔ 2021 میں امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت امریکی فوج کو اردن میں زمین حاصل کرنے کا حق دیا گیا ہے۔

ایک اور صارف نے لکھا ہے کہ عبرانی اخبار کے مطابق اردن اور اسرائیل کے درمیان سنجیدہ نوعیت کا تعاون جاری ہے جس سے شاہ عبداللہ اور نتن یاہو کے درمیان دوستی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب صہیونی حکومت نے اردن کے موقف کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے میں صہیونی حکومت اور اردن کے درمیان اختلافات کے باوجود تعلقات مضبوط ہیں۔ ایرانی حملے کے دوران اپنی فضائی حدود بند کرکے اردن نے خود کو اسرائیل کا اتحادی ثابت کیا ہے۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے سینئر رکن اور صہیونی اخبار کے کالم نگار میر و زونزن نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ اردن کی ائیر فورس نے اسرائیل کی طرف فائر کئے جانے والے میزائل روکے ہیں۔ دونوں کے درمیان سفارتی معاہدوں کے استحکام کے لئے اس طرح کے اقدامات ضروری ہیں۔ ایک اور صارف نے ایکس پلیٹ فارم پر لکھا ہے کہ اردن امریکہ کا قابل اعتماد ساتھی ہے۔ اسرائیل کے دفاع میں اردن کا اقدام حیران کن ہے کیونکہ اردن کی فوج نے ہی اسرائیل کا دفاع کیا ہے۔

عبرانی اخبار یدیعوت احارونوت نے لکھا ہے کہ اردن نے ایک طرف اپنی فضائی حدود کو بند کردیا دوسری طرف اسرائیل کو استعمال کی اجازت دے رکھی جس کے بعد اسرائیلی فضائیہ نے ایرانی میزائلوں کو اردن کی فضائی حدود میں گرادیا۔ اسرائیل کی حدود میں داخل ہونے والے میزائلوں اور ڈرون طیاروں کی تعداد نصف رہ گئی۔

اردن کی بادشاہت کی خیانت سے بھری تاریخ

اردن کی جانب سے فلسطین کے ساتھ خیانت کا یہ پہلا موقع نہیں ہے اس سے پہلے بھی اردن کے حکمرانوں نے صہیونی حکومت کا ساتھ دیا ہے۔ جب برطانیہ نے اسرائیل کو وجود بخشا تو اردن نے اس کا کھل کر ساتھ دیا۔

1948 کی جنگ میں اردن کی غداری کی وجہ سے عرب یہودیوں کی شکست

عرب ویب سائٹ “الحوار المتمدن” کی رپورٹ کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ 1948 کی جنگ فلسطین پر قابض صہیونی حکومت کے خلاف مصر، اردن، عراق، شام اور لبنان کی طرف سے شروع ہوئی تھی۔ لیکن اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ نے اپنی پنی نئی مملکت کو دریائے اردن کے مشرق میں وسعت دی اور اس مقصد کے لیے اس نے فلسطین کی سرزمین کو ایک خفیہ معاہدے کے تحت بیچ دیا۔ برطانیہ اور اسرائیل دریائے اردن کے مغربی کنارے کو اردن کے مشرق میں واقع اپنی سلطنت کے ساتھ الحاق کرنے کے بجائے واپس چلے گئے ۔ کافی عرصہ گزرنے کے بعد انکشاف ہوا کہ اردن نے برطانیہ اور اسرائیل کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت علاقے کو آپس میں تقسیم کیا گیا۔

1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران عربوں کی شکست میں اردن کا کردار

آئی 24 نیوز کی ویب سائٹ کے مطابق اسرائیلی آرکائیوز میں خفیہ دستاویزات شائع کرنے پر پابندی کے قانون کی میعاد ختم ہونے کے بعد اسرائیل نے جن دستاویزات کو برملا کیا تھا، ان میں سے اکتوبر 1973 کی جنگ میں اردن کے شاہ حسین کے کردار کا انکشاف ہوا تھا کہ انہوں نے اسرائیل کو جنگ کے لیے عرب فوجوں کی تیاریوں سے آگاہ کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ صہیونی حکام شاہ حسین کو خفیہ خط و کتابت میں “یینوکا” کے نام سے پکارتے تھے جس کا عبرانی میں مطلب ہے وہ بچہ جو اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے تخت پر بیٹھ جائے۔

خفیہ دستاویزات میں شامل معلومات ایک اہم عنصر تھی جس نے اسرائیل کو شام اور مصر کے درمیان اس کے خلاف جنگ کی تیاریوں پر نظر رکھنے میں مدد کی، جیسا کہ شاہ حسین نے انتہائی حساس قرار دیے گئے ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ شامی فضائیہ اور میزائل حملے کے لیے مکمل طور پر متحرک ہونے کے مراحل میں تھے اور انہیں تربیت کے بہانے چھپایا گیا تھا۔ شاہ حسین نے یہ معلومات خاص طور پر پچیس ستمبر 1973 کو وسطی اسرائیل میں تل ابیب کے مضافات میں واقع ایک سیکیورٹی مرکز میں اس وقت کی خاتون اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مائر کے ساتھ جنگ شروع ہونے سے دو ہفتے پہلے شیئر کی تھیں دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ شاہ حسین اور گولڈا میر کے درمیان آخری خط و کتابت لڑائی شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے ہوئی تھی، جس میں اردن کے بادشاہ نے عرب فوجوں کے اسرائیل میں داخل ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔

اس تناظر میں “ڈیم پریس” ویب سائٹ میں مے حمیدوش کے لکھے گئے ایک مضمون لکھا گیا ہے کہ اردن کے بادشاہوں کی غداری صرف مملکت اردن تک محدود نہیں تھی بلکہ انہوں نے پوری عرب دنیا اور عرب عوام سے غداری کی۔ اردن نے عراق پر امریکی حملے سے پہلےکہ اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی تاکہ عراق کی جانب سے میزائل فائر ہونے کی صورت میں امریکی پیٹریاٹ کے ذریعے اسرائیل کا دفاع کیا جاسکے۔ جب غزہ میں جنگ شروع ہوئی تو اردن کے بادشاہ نے نہ صرف غزہ کا گلا گھونٹنے کے لیے کئی خفیہ دورے کیے بلکہ محمود عباس کو غزہ پر دباؤ ڈالنے اور غزہ کے عوام کو مزید تنہا کرنے میں مدد دی اور اس پٹی کے باشندوں کے لیے مزید تنہائی پیدا کرنے میں مدد بھی کی۔

نام نہاد امن معاہدہ

اردن اور اسرائیل کے درمیان 1994 میں جنوبی اردن کی وادی عربہ میں ایک تاریخی تقریب میں امریکی سرپرستی میں ایک امن معاہدہ ہوا جس میں سرحدی امن، سیکورٹی اور پناہ گزینوں کے معاملات سمیت 30 شقیں شامل تھیں۔ امن معاہدے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سلامتی کونسل کی قراردادوں 242 اور 338 کی بنیاد پر محفوظ اور تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر ایک منصفانہ اور جامع امن کا حصول ہے۔ اس کا انکشاف اردن کے سابق نائب وزیر اعظم محمد الحلائقہ نے الجزیرہ ٹی وی سے گفتگو کے دوران کیا تھا۔

وہ معاہدے جن کی وجہ سے اردن اسرائیل کا ساتھ دینے پر مجبور ہے

اردن نے صہیونی حکومت کے ساتھ کئی معاہدے کررکھے ہیں جن میں امن معاہدہ، گیس معاہدہ، توانائی کے لئے پانی کا معاہدہ، صنعتی زون کا معاہدہ قابل ذکر ہیں۔ ان معاہدوں کی وجہ سے عمان صہیونی حکومت کی خدمت پر مجبور ہے۔ ان معاہدوں کی وجہ سے اردن مسئلہ فلسطین سمیت کئی معاملات پر امت مسلمہ سے مختلف موقف اختیار کرنے پر مجبور ہے۔

طوفان الاقصی اور اردن کی صہیونی حکومت کے ساتھ ملی بھگت

مصنف جبار عبدالزہرہ نے براثا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک بحیرہ احمر میں صہیونی کشتیوں پر پابندی کو بے اثر کرنے میں مدد فراہم کررہے ہیں۔بعض عرب ممالک غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی مدد کررہے ہیں مخصوصا اردنی بادشاہ جس کے اختیار میں مسجد اقصی کے اوقاف ہیں۔اردن نے امریکہ کو اپنے ہوائی اڈے فراہم کررکھے ہیں تاکہ وہ آسانی سے اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ کے خلاف جنگ کرسکے۔ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو ہزاروں ٹن گولہ بارود اردن کے راستے ہی پہنچایا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر بین الاقوامی سطح پر ممنوع ہیں۔

علاوہ ازین اردن نے امریکہ سے درخواست کی ہے کہ عراق اور یمن سے اسرائیل پر داغے جانے والے ڈرون اور میزائلوں کو تباہ کرنے کے لئے اس کو جدید دفاعی سسٹم فراہم کرے تاکہ ان کو اسرائیل پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں تباہ کیا جاسکے۔ اردن کی بادشاہی حکومت نے ملک میں فلسطین کے حق میں مظاہروں پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ اردنی عوام نے عام ہڑتال کرکے حکومت کے اس اقدام کا موثر جواب دیا ہے۔

سیاسی طور پر اردن کے نہ حماس سے اچھے تعلقات ہیں اور نہ محمود عباس کی فتح پارٹی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ 1970 کے بعد فلسطین کے ساتھ اردن کے تعلقات کشیدہ ہیں جب اردن کی وجہ سے بڑی تعداد میں فلسطینی شہید ہوگئے اور فلسطینی آج تک اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔

سفارتی لحاظ سے بھی دونوں کے درمیان تعلقات نہیں ہیں۔ دوسری طرف اردن نے صہیونی حکومت کے ساتھ اعلی سطح پر تعلقات استوار کررکھے ہیں۔

مذکورہ بالا شواہد اور حقائق سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردن نے فلسطینی کاز کے ساتھ ہمیشہ غداری اور اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حالیہ ایرانی حملوں میں ڈرون طیاروں اور میزائلوں کو گرانا اس کا واضح ثبوت ہے۔

(مہر خبر)

اپنا تبصرہ بھیجیں