رہبر معظم نے فلسطینی گروہوں کو مسلح کرنے میں شہید سلیمانی کے کردار کے بارے میں فرمایا: اس شخص نے فلسطینیوں کی جھولی بھر دی۔ انہوں نے ایسا کام کیا کہ غزہ کا مختصر اور معمولی شہر صہیونی حکومت کے سامنے پوری طاقت کے ساتھ کھڑا ہے۔
انٹرنیشنل ڈیسک؛ فلسطین کا دفاع عزت و وقار کا باعث ہے۔ یہ جملہ شہید سلیمانی کے اس خط کا حصہ تھا جو انہوں نے 2018 میں عزالدین القسام بریگیڈ کے کمانڈر ابو خالد کے خط کے جواب میں لکھا۔ شہید سلیمانی کے مطابق فلسطینی گروہوں کی حمایت کا مسئلہ نہ صرف ایران کے قومی مفادات کا حصہ تھا بلکہ وہ اس کو ایک مذہبی فریضہ کے طور پر دیکھتے تھے۔ حاج قاسم کے مکتب میں مغربی ایشیا کے خطے میں تمام موجودہ تحریکوں کی صرف ایک ہی منزل تھی اور وہ ہے مقبوضہ فلسطین۔ اگر ایران نے بغداد-دمشق میں مرکزی حکومتوں کی طرف سے سلفی تکفیری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد پر لبیک کہا تو اس کا مقصد مذہبی جنگ کے منصوبے کو شکست دینا اور مسئلہ فلسطین کو مسلم اقوام کے درمیان فراموش ہونے سے بچانا تھا۔ اس بنیاد پر بہت سے تجزیہ کار اور دفاعی مبصرین فلسطین کی صہیونی حکومت کے چنگل سے آزادی کو حاج قاسم کی سیاسی فکر اور مکتب کا مرکزی محور سمجھتے ہیں۔
فلسطین؛ ایران کی علاقائی سیاست کا مرکز
افغانستان اور عراق پر جارج بش انتظامیہ کی جانب سے جارحیت کے بعد بہت سے فوجی کمانڈر تہران اور واشنگٹن کے درمیان فوجی تصادم کے امکان کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ اس وقت امریکہ کے صدر نے تہران کو برائی کا محور قرار دیا تھا اور ایران کو عالمی امن کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت حاج قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کا ایک اقدام یہ تھا کہ خطے کے مسلمانوں کی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے امریکی اتحاد اور صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کا محور تشکیل دیا جائے۔ اس حکمت عملی میں فلسطین کو شام اور فلسطین کے علاقوں میں امریکی اتحاد کے خلاف اہم کردار حاصل تھا۔ مقاومتی تنظیمیں فلسطین کے حوالے سے حساس تھیں اور بحرانی دور میں غرب اردن اور غزہ میں فلسطینی مقاومت کی مدد کے لئے میدان میں کود پڑیں۔
حماس اور اسلامی جہاد سے وابستہ فورسز کے مطابق حاج قاسم سلیمانی نے بارہا جنگ کے منظر کا مشاہدہ کیا اور مزاحمتی قوتوں اور صیہونی حکومت کے درمیان لڑائی کے دوران مشاورتی مدد فراہم کی۔ چنانچہ لبنان میں فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن احمد عبدالہادی نے شہید سلیمانی جانب سے غزہ کے مسلسل دوروں کی تصدیق کی۔ اس ممتاز ایرانی کمانڈر نے غزہ کے دفاعی ڈھانچے کی تشکیل میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔
اسلامی جہاد تحریک کے رکن اسامہ حمدان نے بھی 22 روزہ جنگ میں شہید سلیمانی کے کردار کی طرف اشارہ کیا اور مزاحمتی قوتوں کے ساتھ ان کی مسلسل رفاقت اور میدان جنگ میں ان کی رہنمائی کا ذکر کیا۔ بظاہر قدس فورس کے سابق کمانڈر صیہونی حکومت اور لبنان اور فلسطین میں مزاحمتی گروہوں کے درمیان جنگ کے دوران ہمیشہ ایک فعال اور موثر موجودگی رکھتے تھے۔
غزہ میں مزاحمت کو مسلح کرنا
بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر صیہونی حکومت کے وجود کا اعلان کرنے کے بعد صیہونی ہمیشہ عرب فوجوں کے خلاف کلاسیکی لڑائیوں میں فتح یاب رہے۔ تاہم، 2005 میں ایریل شیرون کی جانب سے غزہ سے انخلاء اور اس فلسطینی علاقے میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس اور اسلامی جہاد کے عروج کے بعد طاقت کا توازن مقاومت کے حق میں بدل گیا۔
رہبر معظم نے فلسطینی گروہوں کو مسلح کرنے میں شہید سلیمانی کے کردار کے بارے میں فرمایا: اس شخص نے فلسطینیوں کی جھولی بھر دی۔ انہوں نے ایسا کام کیا کہ غزہ کا مختصر اور معمولی شہر صہیونی حکومت کے سامنے پوری طاقت کے ساتھ کھڑا ہے۔ 48 گھنٹوں کے مختصر عرصے میں ان پر وہ مصیبت ڈھائی کہ خود جنگ بندی کی اپیل کرنے لگے۔ شہید سلیمانی نے ان کے ہاتھ بھر لیے۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مزاحمتی طاقت کے اہم ترین عناصر میں سے ایک فلسطینی گروہوں کو صیہونی حکومت کے خلاف مختلف ہتھیاروں سے مسلح کرنا رہا ہے۔ طوفان الاقصی کے دوران مزاحمتی گروپوں نے 80 دنوں میں مقبوضہ علاقوں کی جانب 4000 سے زائد راکٹ فائر کیے۔ اس وقت حماس اور اسلامی جہاد “قاصف”، “ابابیل” اور “شہاب” ڈرونز سے لیس ہیں۔ 2018 میں، اسلامی جہاد کے نمائندے ناصر ابو شریف نے تہران کے اپنے سفر کے دوران اعلان کیا کہ شہید سلیمانی کی قیادت میں حماس اور اسلامی جہاد کو سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس نے ہر قسم کے میزائل بنانے کی تربیت دی تھی۔ اس اسٹریٹجک امداد نے فلسطینی مجاہدین کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ غزہ میں مقامی طور پر درکار دفاعی ہتھیار تیار کریں۔
قدس کے معاملے پر شہید سلیمانی مسلسل فرقہ واریت سیاسی دھڑے بازی سے بچنے کی تاکید کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین میں اسلامی جمہوریہ ایران کو صرف سنی تحریکوں کی حمایت کرنی چاہیے اور فلسطینی گروہوں کے لیے حریف پیدا کرنے پر یقین نہیں رکھنا چاہیے۔ شہید سلیمانی مکتب میں صیہونیوں کے ہاتھوں سے مسجد اقصیٰ پر دوبارہ قبضے کو حضرت مہدی (ع) کے ظہور کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگ آخری زمانے میں ہونے والی ایک جنگ ہے جس میں اہل حق کی فتح یقینی ہوگی۔
منجی بشریت کا ظہور، عدل الہی، آخری زمانے کی جنگ اور اغیار کے تسلط سے انکار ایران کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اجزائے ترکیبی میں شامل ہیں۔ انقلاب اسلامی اور امام خمینی کے مکتب کے تربیت یافتگان مستضعفین کی حمایت اور استکبار سے جنگ کو حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ کی حکومت کی طرف ایک قدم سمجھتے ہیں۔ شہید سلیمانی کی جانب سے فلسطین میں مقاومتی تنظیموں کی مدد کی ایک وجہ حضرت ابراہیم کی سرزمین پر حضرت امام مہدی کے ظہور کے لئے ایک زمینہ فراہم کرنا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد مقاومتی جوان ان کی راہ کو باقی رکھے ہوئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ فلسطین کے دفاع کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ایرانی حکومت اپنے آئین کے مطابق خود کو مسلمانوں اور پوری دنیا کے مستضعفین کی حمایت کا پابند سمجھتی ہے۔ اسی وجہ سے فلسطین اسلامی جمہوریہ ایران کی نگاہ میں ترجیحات میں شامل ہے۔ شہید قاسم سلیمانی اسلامی جمہوریہ ایران کے اہداف و وظایف اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کے فرامین کی روشنی میں صہیونی دشمنوں کے خلاف برسرپیکار تھے۔
صہیونیوں کے مقابلے میں فلسطینی تنظیموں کو مسلح کرنے کی دن رات کوششوں کے نتیجے میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے شہید سلیمانی کی تشییع جنازہ کے دوران ان کو شہید قدس کا لقب دیا تھا۔