وادی کشمیر میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سڑک حادثات میں ریکارڈ توڑ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ شہری و دیہی علاقوں سے آئے روز سڑک حادثات کی رپورٹیں موصول ہوتی رہتی ہیں جن میں بیشتر افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان حادثات میں ہلاک ہونیوالوں کا ایک بڑا حصہ اُن افراد کا ہوتا ہے جو ابھی کمسنی کی عمر میں ہوتے ہیں، جنہوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم بھی نہیں رکھا ہوتا ہے۔ ایسے افراد آئے روز اپنی زندگیوں کیساتھ کھلواڑ کرتے نظر آجاتے ہیں۔ اخبارات کی سرخیوں پر چیدہ چیدہ الفاظ کے ذریعہ اگرچہ میڈیا اپنی حد استطاعت کے مطابق اس مسئلہ کو عوام کے سامنے رکھ کر اس پر گہرائی اور سنجیدگی کیساتھ غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے لیکن ان چیدہ چیدہ الفاظ کا اثر شاید ہی کوئی فرد بشر اپنے اُوپر لیتا ہے۔بہ الفاظ دیگر ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے باہر نکالنا اب اس قوم کا معمول بن چکا ہے۔ لیکن یہ المیہ اپنی جگہ پر ہے کیوں کہ سماج کی نئی نسل سڑک کے بے ہنگم حادثات میں آئے روز شکار ہوکر نہ صرف خود اپنی زندگی سے کھیلتے ہیں بلکہ اپنے پیچھے اپنے والدین اور دیگر عزیز وں اور رشتہ داروں کیلئے زندگی بھر ایک صدمہ چھوڑ کر جاتے ہیں۔ اس مسئلہ کے فوری تدارک کیلئے جتنا جلد سوچا جائے، اُتنا ہی سماج کیلئے بہتر ہوگا۔ ادھر محکمہ ٹریفک کی جانب سے آئے روز مختلف مہمات چلائی جاتی ہیں جس کا مقصد تیز رفتار گاڑی یا سکوٹر چلانے والوں کو اس کے ضرر رساں اثرات سے بھروقت خبردار کرنا ہے۔ محکمہ ٹریفک کے اعلیٰ حکام شہر سرینگر اور مضافات کے علاقوں میں ہر روز دیکھے جاسکتے ہیں جہاں وہ سڑکوں پر گاڑیوں یا اسکوٹر کے ذریعہ کرتب بازی کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس طرح کا اقدام بہت ہی احسن ہے کیوں کہ محکمہ کے اعلیٰ حکام اپنی بساط کے مطابق ایسے کم عمر نوجوانوں کو خبردار کرتے ہیں جو شاید گرم خون ہونے کی وجہ سے آنیوالے خطرات کا ادراک نہیں کرسکتے۔ متعدد مرتبہ یہ بھی دیکھا گیا کہ محکمہ ٹریفک کے اعلیٰ حکام کی جانب سے ایسے کم عمر لڑکوں کو کونسلنگ کی گئی، اُن کے والدین کو ٹریفک دفتر پر طلب کرکے اُن کیساتھ بات کی گئی اور انہیں سمجھایا گیا کہ وہ چھوٹے بچوں گاڑیوں کی ڈرائیونگ کی اجازت نہ دیں۔ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ والدین کا بچوں کی تربیت میں اہم رول بنتا ہے۔ والدین کی بھروقت تربیت سے بچوں کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی آجاتی ہے جس کے نتیجہ میں ایسے تربیت یافتہ بچے آگے جاکر قوم کا بہترین مستقبل قرار پاتے ہیں۔ لیکن اگر والدین کی جانب سے ہی کوئی کوتاہی ہو، تو بچوں کے مستقبل کو کوئی بھی ضائع ہونے سے بچا نہیں سکتا۔ سڑک کے المناک حادثات میں جانیں گنوانے والے بچوں کی اس غلطی کے پیچھے اگر باریکی کیساتھ جائزہ لیا جائے تو اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں رہتی کہ ایسے بچوں کے بگڑنے میں اُن کے والدین کا ایک بڑا رول رہا ہے۔ والدین جس طرح اپنے بچوں کے مستقبل کے تئیں فکر مند دکھائی دیتے ہیں، اُن کیلئے اعلیٰ معیار کی تعلیم اور کوچنگ سنٹرز کا انتخاب کرتے ہیں، اُنہیں زندگی انجوائے کرنے کیلئے لاکھوں روپے کی گاڑی یا اسکوٹر فراہم کرتے ہیں ، تو اس ضمن میں اُن سے پوچھا جاسکتا ہے کہ جہاں وہ لاکھوں کی رقم خرچ کرکے اپنے بچوں کو گاڑی یا اسکوٹر دلوادیتے ہیں ، وہاں وہ چند سو روپیوں کا ہیڈ گیر (ہلمٹ) خرید کر اپنے بچوں کو کیوں نہیں دیتے؟ یہ سوال تب تک جواب طلب رہے گا جب تک نہ والدین اپنی لاپرواہی سے باز نہیں آئیں گے۔ آج کا کم عمر کل کا نوجوان اور بعد میں جوان ہوگا، جس پر قوم کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا اپنے کم عمر طبقے کی زندگیوںکو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ نیز والدین اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو بھی پورا کریں۔
72