لہو کی پکار
تحریر: سکندر علی ناصری
اگر غزہ کے لوگ مزاحمت نہیں کرتے شھادت پیش نہیں کرتے فلسطین کے لیے خون کا نذرانہ پیش نہیں کرتے کب سے اسرائیل سارے عرب ممالک کو نگل چکا ہوتا جو کچھ آج غزہ کے ساتھ ہورہا ہے وہی سب کچھ عرب کے ان نام نہاد ممالک کے ساتھ ہورہا ہوتا آج تک غزہ نے اپنی زمہ داری نبھانے میں کوئی کم و کسر رہنے نہیں دی ہے جوانوں، بچوں ،ماووں، بہنوں، جان مال عزت ابرو سب کا نزرانہ پیش کر کے ان مسلم عرب ملکوں کے جوانون بچوں ماووں بہنوں سب کو بچایا لیا ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں بین الاقوامی سطح پر سیاسی کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں اس دور میں گنی چنی کچھ بڑی طاقتیں ہوتی تھیں جن میں برطانیہ سر فہرست تھا اس کے بعد روس اور جرمن تھے جب کہ مشرق میں سلطنت عثمانیہ اور جاپان طاقتور ملک سمجھے جاتے تھے دوسرے ممالک یا ان کے زیر تسلط جاچکے تھے یا ان کے تابع ہو گے تھے کوئی تیسری صورت نہیں تھی ایسے میں جنگ جھانی اول رونما ہوئی جس کے نتیجے میں پوری دنیا دو قطبی میں تقسیم ہوگی ایک طرف سلطنت روسیہ اور عثمانیہ تھیں جب کہ اس کے مد مقابل میں برطانیہ اور دوسرے ممالک کھڑے تھے آخر میں روس کو شکست ہوئی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا روس نے عقب نشینی کی میدان برطانیہ کے لیے خالی ہوگیا برطانیہ نے موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور اس کے اطلاعاتی افسران ادوارد لارنس اور خانم گرترود بل کے مشورے پر جو عربی علاقے سلطنت عثمانیہ کے ماتحت ہوتے تھے ان کو چھوٹے ممالک میں تقسیم کی اس وجہ سے تاریخ برطانیہ میں گرتورد بل کو عرب ممالک کی ماں سے تعبیر کرتاہے عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد عرب خطہ پر انکی نگاہ پڑی تو انہیں کئی چیزوں نے ڈریا ایک تو یہ خطہ عرب کا تھا دوسرا اس خطے میں سب مسلمان تھے تیسری بات یہ خطہ تیل کی وجہ سے ثروت مند ترین خطہ تھا ان عوامل کی وجہ سے انہیں خطر محسوس ہوا کہ کسی بھی وقت عربی ہونے یا مسلمان ہونے کے ناطے یہ لوگ متحد ہو سکتے ہیں اور مستقبل قریب و بعید میں ان کے لیے درد سر ثابت ہونگے لہذا سائیکس پیکو معاھدہ کی تحت عرب خطے کو چھوٹے ملکوں، عراق، سوریہ، لبنان، اردن، قطر، کویت، سعودی میں تقسیم کیا صرف ایک علاقہ کو مستقل ملک بنے نہیں دیا وہ فلسطین کا علاقہ تھا وہاں کے لوگ اسے اپنے لیے مستقل ملک بنانے چاہتے تھے لیکن برطانیہ نے نہیں بنے دیا جنگ جھانی اول کے بعد برطانیہ نے فلسطین کے لیے ایک گورنر انتخاب کیا جو ایک برطانوی ہونے کے ساتھ ایک یھودی تھا یھودی انساکلو پیڈیا کے مطابق تاریخ یھود میں دو ہزار سال بعد فلسطین کے سر زمین پر ایک یھودی نے قدم رکھا تھا اور اس طرح برطانیہ نے مکمل ایک بیگانہ حکومت کی وہاں تاسیس کی تا کہ اس خطے میں اس کے اھداف کی مکمل حمایت ہو سکےصیھونیوں کے روحانی پیشوا ھرتسل نے جرمن کو اس وقت ایک خط لکھا جس میں اسنے اسے کہا تھا فلسطین میں صیھونی حکومت تاسیس کرنے کی اجازت دیں تو اروپا کے تمدن کو بچانے کے لیے ایشیاء کے مد مقابل میں ایک سد باب ہونگے ھرتسل تو مر گیا اور اس کی جگہ اسرائیل کا پہلا وزیر اعظم حییم وایزمن یھودیوں کا رئیس منتخب ہو ا جسنے برطانیہ کو لکھا کہ اگر فلسطین میں صیھونی حکومت کی اجازت دیں تو تنگہ سوئز پر ہم تمہارے محافظ ہونگے۔
اسرائیل کی یونیورسٹی کا ایک استاد نے راز سیاست خارجہ اسرائیل کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے اسرائیل کے آغاز اور تکمیل کے اس دورانیے کو تیں مراحل میں پیش کرتاہے ابتدائی مرحلہ کو اسرائیل کی تاسیس کے اصلی اھداف کے عنوان سے بیان کرتاہے اور کہتا کہ 1948 تک کا دورانیہ اسرائیل کی تاسیس کا عرصہ ہے اس کے بعد تثبیت اسرائیل کا دور شروع ہوتا ہے جو 1967 کی چھ روزہ جنگ تک برقرار رہتا ہے اس جنگ میں اسرائیل نے اپنے وجود کو جھان کے سامنے ایک ملک کی حثیت سے منوایا اس کے بعد تیسرامرحلہ شروع ہوا جو توسیعہ کا مرحلہ تھا جس میں ان کا دعوی نیل سے فرات تک تھا لیکن 1973 کی جنگ میں اسرائیل کو شکست ہوئی اس نے انہیں اپنے راہ و روش کو تبدیل کرنے پر مجبور کیا ان کی ذھن میں آیا کہ صرف قدرت نظامی کے زریعے سے خاورمیانہ پر تسلط حاصل کرنا ممکن نہیں اس کے لے کوئی دوسری متبادل راہ کی تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کو اس کے جاگزین کرسکے لیکن وہ نعم البدل راستہ کیا ہوگا؟ وہ اس راہ حل کی تلاش میں تھا اس دوران شیمون پریز نے جدید خاورمیانہ کے نام سے ایک کتاب لکھی اس میں اسنے اس کے لیے مناسب راہ کی جانب اشارہ کیا اس نے یہ کہا کہ اگر اسرائیل خاورمیانہ یا خطہ میں مقتدر بنا چاہتا ہے تو وہ قدرت نظامی کے علاوہ دوسرے ابزار اور وسائل سے استفادہ کریں وہ اپنے اقتصاد کو دوسرے ممالک خصوصا عرب اور خلیج فارس کے ممالک کے ساتھ بڑھاتے ہوئے اپنی توسیعہ کے مراحل کو اخر تک پہنچاسکتا ہے لہذا اس کی یہ بات اسرائیل کو بہت پسند ائی اور جب سے بنیامین نتن یاھو وزیر اعظم بنا ہے اسنے اسی اصطلاح کا سہار لیا اور توسیعہ اقتصادی کے نام پر اس نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بڑہانے لگا اگر آپ کو یاد ہو تو صدر بارک اوباما کے دور سے اس سیاست کا آغاز ہوا جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنا تو اس میں شدت پیداء ہوئی اور اقتصادی ہمکاری اور تعاون کے نام پر سارے عرب ممالک کو اسرائیل نے اس منصوبے کے ساتھ ملایا اور اس منصوبے میں کسی حد تک کامیاب ہوا خلیج فارس کے تمام ممالک اس کی اس سازش میں پھنس گے اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے اور ازربائجان کے ساتھ اس کے تعلقات بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اس سازش سے فلسطین عرب دنیا میں تنہاء ہونے لگی 18 سال سے غزہ پٹی وہاں کے لوگوں کے لیے کھلے آسمان تلے ایک زندان تھی درآمد برآمد کی کوئی خبر نہیں تھی اسرائیل کی اس پر کڑی نگرانی تھی غذا ،دوا، خوراک کی قلت تھی اور اپر سے بےروزگاری میں بےتحاشہ اضافہ ہو رہا تھا اور ان مسائل مشکلات کا کوئی راہ حل بھی دور دور تک نظر نہیں اتاتھا اگر اس سخت مرحلہ میں حماس اس طوفان الاقصی آپریشن نہیں کرتا تو فلسطین کا مسئلہ بلکل ختم ہونا تھا اور اس پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہونا تھا اور عالمی سطح پر بھی فلسطین جیسے اہم ایشوز پر توجہ نہیں ہورہی تھی اس آپریشن نے پھر سے دنیا کے سامنے اس مسئلہ کو اجاگر کیا اگر چہ خلیجی ممالک مسئلہ فلسطین کو ان کا اپنا مسئلہ نہیں سمجھتے ہیں تو یہ گویا تجاھل عارفانہ ہے ورنہ غزہ کے غیور، شجاع، دلیر جوانان ہیں کہ جنہونے اسرائیل کے ساتھ مزاحمت کر کے تمام عرب ممالک کو اسرائیل کے قبضے سے بچایا ہوا ہے اگر غزہ کے لوگ مزاحمت نہیں کرتے شھادت پیش نہیں کرتے فلسطین کے لیے خون کا نذرانہ پیش نہیں کرتے کب سے اسرائیل سارے عرب ممالک کو نگل چکا ہوتا جو کچھ آج غزہ کے ساتھ ہورہا ہے وہی سب کچھ عرب کے ان نام نہاد ممالک کے ساتھ ہورہا ہوتا آج تک غزہ نے اپنی زمہ داری نبھانے میں کوئی کم و کسر رہنے نہیں دی ہے جوانوں، بچوں ،ماووں، بہنوں، جان مال عزت ابرو سب کا نزرانہ پیش کر کے ان مسلم عرب ملکوں کے جوانون بچوں ماووں بہنوں سب کو بچایا لیا ہے آج جو جنگ غزہ اور اسرائیل کے درمیان ہے اگر اس میں مقاومت ہار جائے تو سمجھ لیں اس کے نتائج عرب ممالک خصوصا مزاحتی تحریکوں کے لیے بہت ہی ہولناک ثابت ہونگے بلکہ تمام مسلم ممالک ممکن ہیں استکبار جھان کے تسلط میں جائیں اسی بنا پر کچھ مزاحتی تحریکوں ، یمن سے انصار اللہ، عراق سے حشد شعبی، لبنان سے حزب اللہ اس جنگ میں اتری ہیں اور انہونے غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ حمایت کا اعلان کیا ہے نہ صرف الفاظ سے بلکہ عملی میدان میں سب کو دکھایا ہے کہ ہم سب فلسطین کے ساتھ ہیں اور رہیں گے اسی وجہ سے امریکی وزیر خارجہ کا عراق کا دورہ صرف فلسطین کے مسئلہ پر گفت و شنید کرنے کے لیے نہیں تھا بلکہ غزہ پر ہونے والے وحشیانہ حملوں کے ردعمل میں عراقی سر زمیں پر امریکی اڈوں پر ہونے والے حملوں پر بھی بات کرنی تھی صدر بایدن نے پہلے دن ہی یہ کہا تھا” ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں” لیکن کھلم کھلا ساتھ دینے کے اعلان کے بعد خفیہ طور پر کام کو آگے کیوں بڑہا رہا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے انتخابات نزدیک ہے وہ یھودیوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتاہے اس کے علاوہ اس وقت امریکہ کو کئی محازوں کا سامنے ہے یوکرائن میں اگر یہ ہار جاتا ہے تو یورپ اس کے ہاتھ سے نکلنا یقینی ہے لہذا وہ پوری طاقت کے ساتھ یوکرائن کی حمایت کر رہاہے اس طرف اگر اسرائیل کو شکست ہوتی ہے اس کے ہاتھ سے مشرق وسطی نکل جائیگا اور پوری دنیا کی سیاست بدل جایگی اس خطر کو امریکہ نے محسوس کیا ہے اس لیے اس نے اپنی طاقت اور قوت کا مظاھرہ کرنے کے لیے دو اسٹڑائیک گروپس اور ایک جوہری آبدوز کو خطہ میں پہنچایے ہیں اس کے اس ایکشن کو دیکھتے ہوئے اس کے ردعمل مین ایران نے بھی جدید اسلحوں کی نمائیش کی جسکا رھبر معظم نے دورہ کیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک مہینے کے بعد او ائی سی کا ہنگامی اجلاس ریاض میں منعقد ہوا لیکن امت مسلمہ کو ناامیدی کے سوا کچھ نہیں دیا سابقہ اجلاسوں کی طرح منعقد ہوکر ختم ہوگیا۔ بیان بازی سے امت مسلمہ کے حکمران نے اپنے وظیفہ شناسی کا بھر پور اظھار کیا ہونا تو یہ چاہے تھا کہ تمام مسلم ممالک ملکر کوئی ایک جھاز کم از کم اسلحہ غزہ پنچادیتے پھر دیکھتے صورت حال کیا ہونا تھا لیکن صرف بیان بازی پر ہی اکتفاء کرنے کو ہی وظیفہ سمجھا دنیا کے حریت پسند حق پرستوں کے لیے ایک راہ ہے وہ اپنے مظاھروں کے زریعے جن ممالک مین اسرائیلی سفیر ہیں انہیں نکال باہر کریں اس طرح سئیز فائر ہوگا لیکن فی الحال اس کےلیے کچھ وقت لگےگا اور حتمی طور پر دیر یا زود سیز فائر پر اسرائیل مجبور ہونگے یہ جو حماس کے پاس قیدی ہیں ان میں تیں طرح کے لوگ ہیں کچھ غیر اسرائیلی افراد ہیں کچھ اسرائیلی غیر نظامی افراد ہیں کچھ اسرائیلی نظامی وہ بھی پایہ کے افراد ہیں حماس کا مطالبہ ہے کہ غیر اسرائیلی افراد کی رہائی کو سیز فائر کے ساتھ مشروط کیا ہے اور اسرائیلی غیر نظامی افراد کی آزادی کو محاصرہ کے خاتمہ اور امداد رسانی کے ساتھ مشروط کیا اور اسرائیلی نظامی افراد جو بڑے جرنلوں پر شامل ہیں، کو فلسطین کے تمام اسیروں کے بدلے میں آزاد کرنے کے ساتھ مشروط کیا ہوا ہے۔