2014254 101

طوفان الاقصی نے بہت سے چہروں پر سے اسلامی نقاب کو ہٹا دیا ہے

طوفان الاقصی نے بہت سے چہروں پر سے اسلامی نقاب کو ہٹا دیا ہے

تحریر: مولانا منظور علی نقوی امروہوی

طوفان الاقصی نے وہ کام کر دیکھایا جو کئی سالوں میں نہیں ہو سکا تھا اور اسرائیل کی ناجائز اولادوں کا چہرہ دنیا کے سامنے روشن کر دیا۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پوری دنیا دہشت گردی کا شکار ہے جس کے نتیجہ میں آج کا انسان راہ نیک و صواب سے منحرف ہو کر شیاطین اور ان کی ذریت کے راستہ پر تیزی سے قدم بڑھائے چلا جا رہا ہے اور ہر طرف ضلالت و گمراہی کی وجہ سے فتنہ و فساد ظلم و جور بغض و حسد کا بازار گرم ہے عاقبت کا تصور ذہنوں سے محو ہو تا جا رہا ہے جبکہ خداوند عالم نے عقل ہر انسان کو عطا کی ہے اور عقل کے ماتحت جملہ اعضاء و جوارح کو چلنے کا حکم دے رکھا ہے آنکھیں اس نے عطا کی ہیں کہ راہ کے نشیب و فراز کو دیکھ کر چلے کان اس لئے دئے ہیں کہ اچھی اور بری صحیح اور غیر صحیح آواز میں تمیز کریں، زبان اس لئے بخشی ہے کہ با محل چلیں، ناک اس لئے دی ہیں تاکہ خوشبو اور بدبو کا احساس ہو، ہاتھ پیر اس لیے عطا کئے ہیں کہ با محل چلیں عقل ہر مقام پر اپنا حکم سناتی ہے کہ یہ اچھی بات ہے اور یہ بری یہ صحیح ہے اور یہ غلط، یہ خوشبو ہے یا بد بو ہے،

لیکن پھر بھی انسان خلاف فطرت کام کرتا ہے۔ یہ خلاف فطرت کام اس سے اس کی عقل نہیں کروا رہی بلکہ عقل ہر برائی کے موقع پر انسان کو روکتی ہے اور دھتکارتی ہے۔ لیکن پھر بھی انسان بے راہ اور گمراہ ہو جاتا ہے۔ یہیں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو بے راہ اور گمراہ کرنے والی دو چیزیں ہیں تعصبات اور نفسانیات جس کو دوسرے لفظوں میں اس طرح تحریر کروں کہ کسی کی بیجا محبت یا کسی سے بیجا عداوت یا خواہش نفسانی کی پرستش۔

ایک حاکم جب حکومت کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ میں عدل و انصاف کرنے کے لئے بھلایا گیا ہوں عدل اچھی صفت ہے اور ظلم بری صفت ہے صداقت اچھی چیز ہے اور کذب بری چیز گویا وہ اس وقت عدل کی صنعت کو بھول نہیں گیا ہے لیکن پھر بھی خلاف عدل فیصلہ سناتا ہے ۔ یہ خلاف فیصلہ اس سے اس کی عقل نہیں کر رہی بلکہ کوئی اور چیز ہے جو اس کی عقل پر غلبہ حاصل کر کے کمزور کر رہی ہے اور خلاف عدل فیصلہ کرنے پر مجبور کر رہی ہے ۔ اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات نہیں ہے تو پھر تیسری چیز ہے کہ درہم و دینار اور ڈالروں کے عوض اس نے اپنی عقل کو فروخت کر دیا ہے ۔

جب منزل اس حد تک پہونچتی ہے تو پھر انسان حق و صداقت کے مقابلہ میں ظلم و ستم کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے اور احکام الہیہ سے روگردانی کرنے لگتا ہے اور عقل نفس امارہ کے ماتحت ہو کر کام کرنے لگتی ہے جس کے لئے خداوند عالم قرآن مجید میں صاف الفاظ میں فرماتا ہے وَالْعَصَرِه اِنَّ الإِنسَانَ لَفِي حُشره الا الَّذِينَ أَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَتِ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوا بالصبر قسم ہے عصر کی عموما ہر انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان رکھتے ہیں نیک اعمال بجالاتے ہیں اور جو حق کی وصیت اور صبر کی وصیت کرتے ہیں، گو یا ایمان معمل صالح حق کی وصیت اور صبر کی وصیت کا تعلق عقل سے ہے اور خسارے کا تعلق بے عقلی لا علمی – کج فہمی اور نفس امارہ سے ہے۔

آج ایک عاقل انسان با خوبی دیکھ سکتا ہے کہ کون ظلم کے خلاف اواز اٹھانے میں ڈگمگا رہا ہے اور کون سینا تان کر اس کے مخالف آواز بلند کیئے ہوئے ہیے۔ آج کے حالات اور ہونے والے حملات آور اٹھنے والی آوازوں نے نا معلوم کتنی اسلامی چہرے رکھنے والے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کا رہنما کہلانے والوں کے چہروں سے وہ اسلامی نقاب کو ہٹا دیا ہے اور دیکھا دیا کہ وہ ڈالروں پر اپنی ذات کو بیچ چکے ہیں آور خود مسلمانوں پر ظلم کرنے کے لیے زمینہ فراہم کر رہے ہیں۔طوفان الاقصی نے وہ کام کر دیکھایا جو کئی سالوں میں نہیں ہو سکا تھا اور اسرائیل کی ناجائز اولادوں کا چہرہ دنیا کے سامنے روشن کر دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں