1143031 (1) 63

کیا فلسطین آزاد کرا لیا؟

کیا فلسطین آزاد کرا لیا؟

تحریر: بنت فلسطین

تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے۔

الحمدللہ ۷۵ سال بعد مظلوموں کی آواز جہان تک پہنچ گئی، آج یہ آواز دنیا کے کونے کونے میں لوگوں تک پہنچ رہی ہے اور ان کا عکس العمل امید کی ایک کرن ہے، آج سے پہلے بین الاقوامی سطح پر فلسطین کی حمایت میں ایسے احتجاج دیکھنے میں نہیں آئے، مظلوم کی مظلومیت اور ظالم کی صفاکیت جس طرح اس دور میں عیاں ہوئی پہلے کبھی تاریخ نے رقم نہیں کی، دنیا بھر کے حریت پسند انسانوں تک میڈیا کے بائیکاٹ کے باوجود یہودیت سے صہیونیت کا فرق واضح ہورہا ہے صہونیت کا مکروہ چہرہ کھل کر سامنے آگیا اور وہ لوگ بھی جو یہودیت کو آسمانی دین ہونے کی بناپر تحفظ فراہم کرتے تھے اور ہولوکاسٹ کی وجہ سے یہودیوں کے لئے نرم گوشہ رکھ کر دو ریاستوں کے نظریہ کو تسلیم کررہے تھے انکے سامنے صہیونیت کے مکروہ عزائم آشکار ہوگئے، اسرائیلیوں کا ہدف فقط غزہ ،فلسطین یا دنیا بھر کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کے بعد ہر دین و مذہب انکا ہدف ہے کیونکہ اسرائیلی اپنی قوم کو سب سے برتر قوم جانتے ہیں اور باقی تمام مذاہب اور اقوام کو اپنا خادم اور پست مخلوق مانتے ہیں ، ان کے نزدیک باقی سب مخلوق مکوڑوں اور جانوروں سے بھی بدتر ہیں اور انکے نزدیک مسلمانوں کے حقوق حیوانوں کے برابر بھی نہیں ہیں تمام مخلوقات محض اسرائیلی قوم کی خدمت پر مامور ہیں۔سوشل میڈیا پر ایسے بہت سارے شواہد مل جائینگے جو انکے اس نظریہ کو خود انکے بزرگوں کی زبانی بیان کررہے ہیں۔

لیکن وہ نہیں جانتے کہ خداکی منصوبہ بندی ان کی منصوبہ بندی پر غالب ہے: وَمَكَروا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيرُ الماكِرينَ﴿آل عمران:۵۴﴾

مردہ ضمیر لوگوں کے لئے بھی چھپا ہوا ظلم آشکار ہوچکا ہے، دینا کے مختلف ممالک میں ریلیاں ،احتجاجی مارچ اور امریکا کے سفارتخانوں کے سامنے احتجاج یہ بتارہے ہیں کہ نہ صرف اسرائیل بلکہ اس پروجیکٹ کے پیچھے موجود امریکا کے چہرے سے بھی نقاب الٹ چکی ہے، الحمدللہ میرے وطن پاکستان اور برصغیر کے دیگر ممالک کے باشعور عوام بھی بلاتفریق مذہب و ملت مل کر بڑے بڑے اجتماعات کے ذریعے اپنے احتجاج کوحکومتی ایوانوں تک پہنچارہے ہیں کہ “عوام اسرائیل کے ساتھ کسی خفیہ یا آشکار تعلق کو قبول نہیں کرینگے”۔

ریلی سے واپسی پر بعض اوقات ہمیں اس طنزیہ سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے : ہوگیا فلسطین آزاد؟ ہمیں جان لینا چاہیئے کہ شیطان اور شیطانی دشمن کا ایک حربہ یہ ہوتا ہے کہ حق کے مقابل شکوک و شبہات پھیلائے اور سادہ لوح افراد اس پروپیگنڈے کا شکار ہوکر حق کے راستے سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں، تو کیا کیا جائے؟ ہمت ہار جائیں؟ پیچھے ہٹ جائیں؟ مظلوموں کی مدد سے ہاتھ ہٹا لیں؟ اور مولائے متقیان حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی وصیت پہ عمل نہ کریں جو ہمیں مذہب اہل بیت علیہم السلام کا ایک اصول سکھارہی ہے : كُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلُومِ عَوْناً : ظالم کے دشمن بنو اور مظلوم کے مددگار،بقول شہید مطہری ؒ مذہب اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والے نتیجہ کے لئے جدوجہد نہیں کرتے بلکہ اپنے وظیفہ پر عمل کرتے ہیں تمام ہادیان برحق، صحابہ کرام نے یہی نمونہ عمل پیش کیا حتی نمرودنے جب حضرت ابراہیم ؑ کے لئے آگ روشن کی تو چڑیا نے اپنی چونچ میں چند قطرے آگ بجھانے کے لئے جمع کرکے ہمیں درس دیا کہ ہمار وظیفہ یہ ہے کہ اپنا اجتماعی کردار ادا کریں چاہے ہم اکیلے کامیابی سے ہمکنار کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔

لیکن اب امت مسلمہ اپنا وظیفہ ادا کرنے پر تیار ہوگئی ہے، اپنے حلقہ احباب میں مظلوموں کی آواز پہنچا کر، سوشل میڈیا پر اپنا کردار ادا کرکے، احتجاجی جلسوں میں شرکت کرکے، جسمانی اور مادی مدد کرکے، لہٰذا شک وشبہہ کا جواب یہی ہے کہ ہم فلسطین آزاد کرانے نہیں بلکہ اپنا وظیفہ انسانی و اسلامی ادا کرنے گئے تھے اور گھر بیٹھ کر ہم مظلوم کی حمایت نہیں کرسکتے اور نہ ہی مولا کی وصیت پر عمل پیرا ہورہے ہیں ، یاد رہے مظلوم کی مدد نہ کرتے وقت ہمیں وہ منظر یاد رکھنا چاہئے جب بی بی فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا ولایت کے حق کے لئے ظلم کے خلاف ہر دروازے پر جارہی تھیں اور کوئی ڈر و خوف کی وجہ سے مدد کرنے کو تیار نہ تھا۔

تاریخ کے ورق الٹیں تو مدد نہ کرنا بہت بڑا جرم رہا ہے، مظلوم کی مدد ہوتی تو حق زہرا سلام اللہ علیہا غصب نہ ہوتا، بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا ،امام علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کی شہادت نہ ہوتی، کربلا برپا نہیں ہوتی، امام رضا اور دیگر معصومین علیہم السلام تنہا نہ رہتے اور سب سے بڑھ کر غیبت طولانہ نہ ہوتی، سلام ہو اس قوم پر جس نے علماء کی راہنمائی میں تاریخ میں سب سے زیادہ اہل بیت علیہم السلام کا ساتھ دیا اور مولا کی اس وصیت پر عمل کیا یہاں تک سیکڑوں امام زادوں کے مزارات آج بھی گواہی دے رہے ہیں کہ جب کوئی ان مظلوموں کا ساتھ نہیں دے رہا تو انہوں نے پناہ دی اور اس دور میں بھی امام خمینی ؒ اور آیت اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ کی پیرو ی کرکے اور اپنے تمام مفادات کو داؤ پر لگا کر امت مسلمہ کو مظلوم ممالک کا انسانیت کی بنیاد پر ساتھ دینے کا عملی درس دیا اور آج بھی وزیر خارجہ جمہوری اسلامی ایران ہر اس دروازے کو کھٹکٹا رہا ہے جس پر حجت تمام کرنا ضروری ہے تاکہ امت مسلمہ متحد ہو کر دجال کے خاتمہ میں اکٹھا ہوسکے۔ یہی وہ درس ہےجو ظہور کا زمینہ ساز ہے، جی ہاں ظلم کے خاتمہ کی مشترکہ جدوجہد دراصل عدل کےقیام کی زمینہ سازی ہی تو ہے، بس ہم بھی اگر آج اپنے وطن میں فلسطین اور پاراچنار کے مظلوموں لئے آواز بلند کررہے ہیں تو دراصل اپنے وظیفہ پر عمل کررہے ہیں، اور جہاں تک بات ہے کہ فلسطین آزاد ہوگا یا نہیں تو وعدہ خدا ہے : أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللّهَ عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدِیرٌ (ان لوگوں کو جہاد کی اجازت دے دی گئی ہے، جن پر جنگ ٹھونسی گئی ہے، کیونکہ وہ ظلم وستم کا نشانہ بنے ہیں اور الله سبحانہ وتعالیٰ ان کی مدد ونصرت پر قادر ہے ) جب میں نے اعتراض کرنے والے کے سامنے وظیفہ اور نتیجہ کے فرق کو واضح کیا تو انہوں نے کہا آج مجھے سمجھ میں آیا وظیفہ ہمارے ذمہ اور نتیجہ خدا کے ذمہ ہے کچھ دن بعد پھر ریلی کا اعلان ہوا میں نے حسب سابق ریلی میں شمولیت کے لئے واٹس ایپ گروپ جوائن کیا تو یہ دیکھ کہ دل شاد ہوگیا کہ ریلی پر اعتراض کرنے والے پہلے سے اس گروپ میں موجودتھے ، مجھ پر ایک بات تو ثابت ہوگئی کے رہبر جو جہاد تبیین کی بات کرتے ہیں وہ یہی تو ہے کہ شکوک و شبہات دور کرکے لوگوں تک حقائق پہنچائے جائیں۔

ساحر لدھیانوی کا کلام اس مسلمہ نظریے کی تائید کرتا نظر آتا ہے: ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں