6d568dcd 72f2 4954 Bb0a 7de4a9c098eb 132

اتحاد بین المسلمین

اتحاد بین المسلمین

توصیف احمدوانی
ڈائریکٹر سید حسن منطقی اکیڈمی اونتی پورہ کشمیر انڈیا

اتحاد بین المسلمین کیوں ضروری ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کے جواب کے لیے نہ کسی دانشور کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور نہ ہی کسی کتب خانے میں جا کر کتابوں کی چھان بین کرنی ہوگی، بلکہ اج کا بےچارہ مسلمان اگر اپنے ارد گرد ایک نظر ڈالے تو اسے خود بخود اس اہم سوال کا جواب باسانی حاصل ہو جائے گا۔
مملکت کفر تو دو بہت دور کی بات ہے حتی اسلامی مملکت کہے جانے والے ملکوں میں مسلمان بے بس نظر ارہا ہے۔
لیکن ایسا کیوں،
کیونکہ ایک مسلمان اپنی ہی اسلامی مملکت میں لاچار ہے،کیونکہ ایک مسلمان اپنی ہی اسلامی مملکت میں تحقیر اور استصال کا شکار ہے، کیونکہ ایک مسلمان اپنی ہی اسلامی مملکت میں فقیر و نادار ہے جبکہ دوسرے ادیان کے پیروکاروں کا اقتصاد کافی مضبوط ہے۔
ان تمام سوالوں کا جواب وہ استکباری نظام ہے جس کے شیطانی شعلوں سے پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام جلس رہا ہے۔
یہ نظام ایسا ہی ہے جس کا لازمہ مسلمانوں کی تباہی ہے۔
اسلام مخالف عناصر کی مطلق العنان ریشہ دوانیاں دور حاضر میں زندگی بسر کرنے والے کسی شخص سے پوشیدہ نہیں ہے۔
استکباری طاقتوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے پیکر اسلام کمزور نوتوان ہوتا چلا جا رہا ہے۔
یہ استکباری نظام جب چاہتا ہے کسی بھی اسلامی ملک پر اقتصادی پابندی عائد کر دیتا ہے ۔
جب چاہتا ہے اسے جنگ کی دھمکی دے دیتا ہے اور دوسری طرف سے اسلامی ممالک پر اس کی ثقافتی یلغاروں کا سلسلہ بھی اپنی آپ و تاب کے ساتھ جاری ہے جس کی طرف نہ صرف یہ کہ بیشتر اسلامی ممالک کی کوئی توجہ نہیں ہے بلکہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ خود یہی ممالک اس زہریلی یلغار میں دشمنان اسلام کے برابر کے سمیم نظر اتے ہیں۔
لیکن یقین کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دشمنان اسلام کے مذکورہ تمام اسلام مخالف حربے ان کے اس حربے کے سامنے پھیکے دکھائی دیتے ہیں جس کے ذریعے انہوں نے سالہا سال مختلف ملکوں کو اپنا غلام بنائے رکھا ہے اور وہ حربہ یہ نعرہ ہے پھوٹ ڈالو حکومت کرو۔
اس نعرہ اور حربہ پر عمل کرنے کی وجہ سے ہی ان کا استکباری نظام دنیا پر اج تک قائم و دائم ہے ۔
اسی نعرہ کے رائج اور نافذ ہونے کی وجہ سے اج کا مسلمان علمی ،ثقافتی، اقتصادی، اور اجتماعی میدانوں میں کافی پیچھے رہ گیا ہے۔
لہذا اگر مسلمانوں کی پسماندگی کی سب سے اہم وجہ ان کے درمیان پائا جانے والا اختلاف ہہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پسماندگی کو قبر تاریخ میں دفن کر کے ہمہ جہتی ترقیاتی منزلوں تک پہنچانے کا سب سے بہترین اور پرامید راستہ اتحاد ہے۔
عصر حاضر میں اتحاد بین المسلمین کے اہمیت و ضرورت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان خطرات پر مزید نظر ڈالی جائے جو عالم اسلام کو عالمی استکبار سے لاحق ہے
(ہماری ذمہ داریاں)
1۔۔ مسلمانوں کے امور کی طرف توجہ دینا اور اس سلسلہ میں چارہ اندیشی کرنا،
پیغمبر اسلام فرماتے ہیں، جو مسلمان اس حالت میں رات گزار دے کہ مسلمانوں کے امور کے سلسلہ میں چارہ اندیشی نہ کرے تو وہ مجھ سے نہیں ہے۔
لہذا ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ دوسرے مسلمان کے ہر طرح کے اقتصادی، علمی، ثقافتی، اور سیاسی امور میں اپنی توانائی کے مطابق امداد کرے ۔
اس سلسلے میں علماء اور دانشوران اسلام کی ذمہ داری عام مسلمانوں کی بہ نسبت کہی زیادہ ہے۔
2۔۔ ہر طرح کے نسلی و قومی تعصبات سے پرہیز کرے۔
3۔ اسلام دشمن عناصر کے خلاف تمام علمائے اسلام کا متحد منشور اور متفقہ حکمت عملی اختیار کرنا۔
4۔۔ حج ،نماز، جمعہ، محفل و مجالس اور مختلف اجتماعات کے موقع پر امت مسلمہ کو اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں سے اگاہ کرنا اور باہمی اتحاد و ہمدردی کی مسلسل تلقین کرتے رہنا۔
5۔۔ مسلمانوں کو اختلافات پر اکسانے کے بجائے ان کے درمیان محبت و دوستی اور اتحاد کا بیج بونے کی مسلسل کوشش کرتے رہے اس لیے اتحاد ہی ایسی دوا ہے جس کے ذریعے مسلمانوں کے ہر طرح کے درد وغم کا مداوا ہو سکتا ہے اور وہ اپنی کھوئی ہوئی عزت اور اقتدار کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔
6۔ قومی سطح پر تقریب مذاہب کانفرنس، کے تحت تمام اسلامی ممالک میں اتحاد بین المسلمین اور تقریب مذاہب کے عنوان سے مخصوص عظیم الشان نشستوں کا مسلسل انعقاد ، تاکہ نظریہ اتحاد بین المسلمین ایک اسلامی ثقافت کی شکل اختیار کر لے۔
اج ہم انتہائی پرفتن دور میں زندہ ہیں اور تمام تر فتنوں اور افات سے محفوظ و مامون رہنے کا بس ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ خالص کتاب و سنت سے والہانہ وابستگی,
اتحاد امت اور باہمی اخوت و محبت ہے.
تمام اہل اسلام سے درمندانہ اپیل ہےکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والو، کفار کی سازشوں کو سمجھو اور اپنے خالص دین سے تمسک اختیار کرتے ہوئے باہمی یگانیت، اتحاد و اتفاق کے ذریعے ان سازشوں کو ناکام بنا دیجئے۔
بالخصوص علماء پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشیدگی کو ہوا دینے کی بجائے تحمل اور برداشت اور رواداری کو اختیار کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں