108

جہاں قومی مفادات کا معاملہ ہو وہاں قومی مذہبی اختلافات بھول جائيں، امریکہ کی طاقت کم ہو چکی ہے، رہبر انقلاب اسلامی

جہاں قومی مفادات کا معاملہ ہو وہاں قومی مذہبی اختلافات بھول جائيں، امریکہ کی طاقت کم ہو چکی ہے، رہبر انقلاب اسلامی

تہران // رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ جب قومی مفادات کا معاملہ ہو تو تمام قومیں اور مذاہب، تمام سیاسی ، مذہبی، قومی و جماعتی اختلافات چھوڑ کر ایک ساتھ کھڑی ہو جائيں اور دشمن کو قومی اتحاد کو نقصان پہنچانے کا موقع نہ دیا جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صبح ایران کے سیستان و بلوچستان اور جنوبی خراسان صوبوں کے ہزاروں لوگوں سے ملاقات میں ان علاقوں کے شیعہ سنی علماء و عوام کے اتحاد کی قدردانی کرتے ہوئے خاص طور پر عالمی سطح پر بڑی تبدیلیوں کے موقع پر ملک کی مختلف قوموں اور حکام کی بیداری کی ضرورت پر زور دیا اور ایران میں حساس موضوعات سے فائدہ اٹھانے کے لئے دشمن کی سازش کا ذکر کرتے ہوئے کہا: قومی اتحاد کو ختم کرنا اور قومی سلامتی کو کمزور کرنا دشمن کا دو بنیادی اور سنجیدہ مقصد ہے لیکن ہم دشمن کے مقابلے میں سنجیدہ بھی ہيں اور ہمیں یقین بھی ہے کہ ایران کے دشمن، قوم و حکام کی طرف سے نگرانی، بیداری اور ذہانت کی وجہ سے ہمارا کچھ نہيں بگاڑ سکتے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے 18 ویں صدی میں بر صغیر ہند سمیت ایشیا کے اہم علاقوں پر برطانوی سامراج کے اور پہلی عالمی جنگ کے بعد مغربی ایشیا کے بڑے حصوں پر مغرب کے تسلط کو ان علاقوں کے عوام اور حکام کی غفلت کا نتیجہ قرار دیا اور کہا: ان علاقوں کی قوموں نے بعد میں سامراجی طاقتوں کے پنجوں سے رہائي کے لئے بہت زیادہ مشکلات برداشت کی ہیں۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ موجودہ دور میں عالمی سطح پر بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور سامراجی طاقتوں کی کمزوری اور نئي علاقائي و عالمی طاقتوں کا ظہور ان بڑی تبدیلیوں کی خصوصیتیں ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کچھ مغربی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے، معیشت سمیت مختلف میدانوں میں امریکی طاقت کو زوال پزیر بتایا اور کہا: دوسرے ملکوں میں حکومتیں بدل دینے کی امریکی طاقت میں بھی بہت واضح کمی آئی ہے۔ کسی دور میں امریکہ نے نوٹوں سے بھرے ایک بریف کیس کے ساتھ اپنا ایک افسر ایران بھیج کر، 19 اگست کی بغاوت کا منصوبہ تیار کر لیا تھا لیکن آج کسی بھی ملک میں اس میں اس طرح کی حرکت کرنے کی طاقت نہيں ہے اور اسی لئے اس نے مہنگي سمجھی جانے والی ہائبریڈ جنگ کا سہارا لیا لیکن اس میں بھی اسے ناکامی ہی حاصل ہوئي۔

رہبر انقلاب اسلامی نے شام میں ناکامی اور افغانستان سے شرمناک انخلاء کو امریکی طاقت کے زوال کے 2 واضح نمونے بتائے اور کہا: دوسرے سامراجیوں کی بھی یہی حالت ہے چنانچہ آج کل افریقہ کے مختلف ملکوں میں اس بر اعظم کی پرانی سامراجی طاقت فرانس کے خلاف قیام ہو رہا ہے اور عوام بھی اس کی حمایت کرتے ہيں۔

رہبر انقلاب نے کہا: یہ جو ہم کہتے ہيں کہ دشمن کمزور ہو رہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہيں ہے کہ وہ مکاری و سازش و نقصان پہنچانے کے معاملے میں بھی کمزور ہو گیا ہے اس لئے ہمیں یعنی تمام لوگوں اور ملک کے تمام عہدیداروں کو آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکہ صرف ایران کے خلاف ہی سازش نہيں کرتا بلکہ آج امریکہ علاقے میں ، عراق، شام، لبنان، یمن، افغانستان بلکہ اپنے پرانے اور روایتی دوستوں یعنی خلیج فارس کے ملکوں کے لئے بھی سازشیں تیار کرتا ہے۔ ہمیں موصولہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے ایران سمیت مختلف ملکوں میں بحران پیدا کرنے کے لئے ٹیمیں تیار کر رکھی ہيں جن کی ذمہ داری، ایسے معاملات کو تلاش کرنا اورانہیں ابھارنا ہے جو ان کی نظر میں بحران کا باعث بن سکتے ہيں۔ ان کی نظر میں مختلف قوموں اور مذاہب کے درمیان فرق اور مرد و عورت کا مسئلہ ایران میں بحران پیدا کرنے والے معاملات ہيں اور اسی لئے وہ ان معاملات کو اٹھا کر ہمارے ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہيں لیکن بلی کو خواب میں چھیچڑے ہی نظر آتے ہيں۔

انہوں نے کچھ امریکی حکام کے اس اعتراف کا ذکر کیا کہ ہم ایران میں شام اور یمن کی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہيں اور کہا: وہ لوگ بلا شبہ ایسا کچھ نہيں کر سکتے لیکن اس کے لئے یہ شرط ہے کہ ہم نگرانی کرتے رہیں اور آنکھیں کھلی رکھیں، غلط راستے پر نہ چل پڑيں، حق و باطل کی شناخت کی صلاحیت نہ کھو دیں، دشمنوں کے طریقوں کو پہنچانیں، کسی بھی قول یا فعل سے دشمن کی مدد نہ کریں اور خواب غفلت میں پڑے نہ رہیں کیونکہ سوتے رہے تو ایک بچہ بھی آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے پوری طرح سے مسلح اور حملہ کے لئے تیار دشمن کی بات ہی کیا۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مزید کہا: ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم جو بات منہ سے نکال رہے ہيں وہ دشمن کے مفاد میں نہ ہو اور اس کے منصوبوں کو مکمل کرنے والی بات نہ ہو کیونکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئي نادانی یا غفلت ميں اپنی باتوں یا کاموں سے دشمن کے منصوبے میں مدد کر دیتا ہے اور یہ خطرناک چیز ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ دشمن 40 سے زائد برسوں سے ناکام ہو رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایرانی قوم امام خمینی کی ہدایات پر عمل کر رہی ہے اور سب کو یہ جان لینا چاہیے کہ دشمن قومی اتحاد اور قومی سلامتی کو نشانہ بنا رہا ہے۔

انہوں نے کہا: اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ جب قومی مفادات کا معاملہ ہو تو تمام قومیں اور مذاہب تمام سیاسی ، مذہبی، قومی و جماعتی اختلافات چھوڑ کر ایک ساتھ کھڑی ہو جائيں اور دشمن کو قومی اتحاد کو نقصان پہنچانے کا موقع نہ دیا جائے اور جو لوگ قومی سلامتی کے لئے خطرہ پیدا کرتے ہيں وہ قوم کے دشمن ہيں اور دانستہ یا نادانستہ طور پر دشمن کے لئے کام کر رہے ہیں۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی تقریر کے آخر میں امام حسین علیہ السلام کے اربعین میں عوام کی بھرپور شرکت کا ذکر کیا اور اربعین کے تمام 2 کروڑ 20 لاکھ زائروں کی اپنے پورے وجود سے میزبانی پر عراقی قوم کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اسی طرح انہوں نے عراقی حکومت اور حکام، پولیس اور خاص طور پر رضاکار فورس حشد الشعبی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ہم اپنے ملک کے پولیس کے ادارے کا بھی شکریہ ادا کرتے ہيں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح اپنی تقریر کے آغاز میں ایران کے سیستان و بلوچستان صوبے اور خراسان کے جنوبی علاقوں کے عوام سے اپنی 60 سالہ آشنائي کا ذکر کیا اور کہا: طاغوتی حکومت کے خلاف میری پہلی کھلی جد و جہد محرم 1963 میں بیرجند میں شروع ہوئي تھی جس میں عوام اور علماء نے میرا ساتھ دیا تھا، اسی سال رمضان میں زاہدان میں یہ جد و جہد شیعہ و سنی علماء اور اس علاقے کے بیدار عوام کی حمایت سے آگے بڑھی۔

انہوں نے ایران شہر میں اپنی جلاء وطنی کے دور اور اس دوران اہل سنت علماء اور سیستان و بلوچستان کے پر خلوص لوگوں سے اپنے تعلقات کو یاد کیا اور کہا: اس علاقے نے منافقین و دہشت گردوں کے خلاف جنگ، مقدس دفاع، قیام امن واتحاد جیسے تمام مواقع پر بلا تفریق شیعہ و سنی، گراں قدر شہداء، اسلام کے لئے پیش کئے ہیں اور یہ حقیقت، ان علاقوں کے ماتھے پر درخشان ستارے کی طرح چمک رہی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے سیستان و بلوچستان کی موجودہ صورت حال کو انقلاب سے قبل کی صورت حال سے نا قابل موازنہ قرار دیا اور زور دیا: اس علاقے کے لئے بہت سے کام ہوئے ہيں لیکن ان کے باوجود حکام کو چاہیے کہ پوری سنجیدگي کے ساتھ ان علاقوں میں سہولتوں کو پوری طاقت سے بڑھائيں اور شمال جنوب ریلوے لائن اور پانی کے سلسلے میں مقامی لوگوں کے حق کی بازیابی ضروری کاموں میں شامل ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں