129

رہبر انقلاب کا اہم سالانہ خطاب ملکی حالات، دشمن کی ریشہ دوانیوں،

رہبر انقلاب کا اہم سالانہ خطاب ملکی حالات، دشمن کی ریشہ دوانیوں، نئے عالمی مسائل جیسے موضوعات کا جائزہ

ایران// رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال کے پہلے دن مشہد مقدس میں امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اقدس میں زائرین اور مقامی لوگوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مضبوط پہلوؤں کی تقویت اور کمزور پہلوؤں اور خامیوں کے خاتمے جیسی تبدیلی کو ملک کی بنیادی ضرورت بتایا۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال کے پہلے دن مشہد مقدس میں امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اقدس میں زائرین اور مقامی لوگوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مضبوط پہلوؤں کی تقویت اور کمزور پہلوؤں اور خامیوں کے خاتمے جیسی تبدیلی کو ملک کی بنیادی ضرورت بتایا۔

انھوں نے دشمنوں کے پوری طرح سے تبدیلی مخالف اہداف اور خواہشات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ٹھوس ارادے، قومی خود اعتمادی پر بھروسے، امید اور بصیرت کے ساتھ تبدیلی کا بھاری اور دشوار کام شروع کرنا اور کمزور پہلوؤں کو، جو زیادہ تر معیشت سے متعلق ہیں، نمایاں اور درخشاں پہلوؤں میں تبدیل کر دینا چاہیے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے نئے سال کے آغاز کے موقع پر اپنے حالات کو بہترین حالات میں تبدیل کرنے کی ایرانی قوم کی عمومی دعا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر تبدیلی کے لیے اللہ سے توسل اور طلب کے ساتھ ہی سعی و کوشش اور استقامت کا بھی مظاہرہ کرنا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دشمنوں کی جانب سے پیش کردہ تغیر اور تبدیلی کی تعریف اور حقیقی تبدیلی اور تغیر کے درمیان فرق بتاتے ہوئے کہا کہ دشمن، تبدیلی کا موضوع پیش کر کے، پوری طرح سے تبدیلی مخالف خواہشات اور نظام کے اہداف کے خلاف ارادے رکھتے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ ملک کے اندر بھی بعض لوگ ان کی پیروی یا نقل کر کے یا پھر دوسرے محرکات کے ساتھ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ وہی باتیں دوہراتے ہیں اور آئين یا نظام کے ڈھانچے میں تبدیلی، انھیں باتوں میں شامل ہے۔

انھوں نے دشمنوں کی جانب سے بنیادی تبدیلی، انقلاب اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ پیش کرنے کا اصل ہدف، اسلامی جمہوریہ کے تشخص کو تبدیل کرنا بتایا اور کہا کہ دشمن کا ہدف، ملک اور نظام کے مضبوط پہلوؤں کو ختم کرنا، ان اصلی مسائل کو بھلانا، جو لوگوں کو انقلاب اور اصلی حقیقت اور انقلابی اسلام کی یاد دلاتے ہیں جن میں امام خمینی کا نام دوہرایا جانا، ان کی تعلیمات کو پیش کیا جانا، ولایت فقیہ کا مسئلہ، بائيس بہمن (گيارہ فروری، اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تاریخ) اور انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت جیسی باتیں شامل ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوری نظام کو ایک آمرانہ اور پٹھو حکومت میں یا پھر بظاہر جمہوری لیکن بباطن مغرب والوں کی فرمانبردار حکومت میں تبدیل کرنا، سامراجیوں کی بظاہر تبدیلیوں پر مبنی باتوں کا اصلی ہد ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ کسی بھی طرح سے ایران پر سیاسی اور معاشی تسلط حاصل کرنا اور اسے لوٹنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے ایرانی قوم کی اندرونی مضبوطی کی نمایاں نشانیوں کی تشریح کرتے ہوئے، عالمی سامراجیوں کی دسیوں برس کی لگاتار دشمنی پر غلبے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ کون سا ملک اور کون سا انقلاب ہے جو عشروں تک دنیا کے سب سے طاقتور ملکوں کے لگاتار حملوں کے سامنے ڈٹا رہ پایا اور اس نے گھٹنے نہیں ٹیکے؟

رہبر انقلاب اسلامی نے بغاوت، پابندیوں، سیاسی دباؤ، عدیم المثال تشہیراتی حملوں، سیکورٹی کے خلاف سازشوں اور عدیم المثال معاشی پابندیوں کو دشمنوں کی مسلسل سازشوں کے کچھ پہلو بتایا اور کہا کہ ان دشمنیوں کے حالیہ مرحلے میں امریکا اور بعض یورپی ملکوں کے سربراہان نے ان ہنگاموں کی، جنھیں بہت ہی معمولی تعداد میں کچھ لوگوں نے شروع کیا تھا، کھل کر پشت پناہی کی اور اسلحہ جاتی، سیاسی، مالی، سیکورٹی اور میڈیا سمیت طرح طرح کی حمایت اور مدد کی تاکہ اسلامی جمہوریہ کو کم از کم، کمزور ہی کر سکیں لیکن عملی میدان میں اس ہدف کے بالکل برخلاف بات سامنے آئي اور اسلامی جمہوریہ نے اس عالمی سازش پر فتح حاصل کی اور دکھا دیا کہ وہ ٹھوس اور مضبوط ہے۔

انھوں نے گيارہ فروری سنہ 2023 (کے جلوس) کو نظام کی ٹھوس اندرونی بنیاد کا مظہر، گزشتہ برسوں کے جلوسوں سے کہیں زیادہ پرجوش اور زیادہ تعداد والا بتایا اور کہا کہ مختلف میدانوں میں ایران کی زبردست ترقی و پیشرف، اس اندرونی مضبوطی کی کچھ اور علامتیں ہیں۔
انھوں نے معاشی محاصرے اور ممکنہ حد تک شدید ترین دباؤ کے حالات میں پیشرفت کو، قوم کی درخشاں کارکردگي بتایا اور کہا کہ امریکیوں نے اپنی تمام تر دروغگوئي کے ساتھ یہ بات سچ کہی کہ ایرانی قوم پر ان کے معاشی دباؤ، پوری تاریخ میں عدیم المثال رہے ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیشرفت، نینو اور بایو ٹیکنالوجی جیسے میدانوں میں دنیا کے برتر ملکوں میں شمولیت اور حفظان صحت، ایرواسپیس، ایٹمی، دفاعی، انفراسٹرکچرل، طبی و معالجاتی مراکز، ریفائنریز اور دیگر میدانوں میں پیشرفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: خارجہ تعلقات کے میدان میں بھی ایران کو الگ تھلگ کرنے کی دشمن کی کوششیں ناکام رہیں اور اسلامی جمہوریہ ایشیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو سو فیصد مضبوط بنانے کے ساتھ ہی اب اس علاقے کے اہم ملکوں کے ساتھ سیاسی، معاشی، سائنسی اور تکنیکی رابطوں کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھے گي۔

انھوں نے کہا کہ بعض اہم علاقائي معاہدوں میں رکنیت اور افریقا اور لاطینی امریکا سے تعلقات کی مضبوطی بھی خارجہ تعلقات کے میدان میں ایک پیشرفت ہے اور اسی کے ساتھ یہ یاد رہے کہ ہم یورپ والوں سے خفا نہیں ہیں اور اگر وہ امریکا کی اندھی تقلید چھوڑ دیں تو ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایمان، قومی عزت کے احساس اور ملکی توانائي پر بھروسے کو ایرانی قوم کی پیشرفت کے عناصر اور راہوں سے تعبیر کیا اور کہا کہ جمہوریت اور اسلامیت جیسے نظام کے دوسرے مضبوط پہلوؤں کی بھی مزید تقویت ہونی چاہیے۔

انھوں نے ملک کے مضبوط پہلوؤں کا ذکر کرنے کے بعد کمزور اور تبدیلی کے لائق پہلوؤں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ سارے کمزور پہلوؤں میں سرفہرست، معیشت اور معاشی پالیسیوں کا مسئلہ ہے جن میں سے بہت سی پالیسیاں انقلاب سے پہلے کا ورثہ ہیں جبکہ ان میں سے بعض کا تعلق انقلاب کے بعد کے عرصے سے ہے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کی معیشت کی ایک اور خامی، کچے تیل پر انحصار بتایا اور کہا کہ ہمیں معیشت کو کچے تیل کے ایکسپورٹ پر انحصار سے الگ کر دینا چاہیے اور زیادہ آمدنی کے لیے نان پیٹرولیم کاموں پر توجہ دینی چاہیے اور بحمد اللہ رپورٹوں کے مطابق اس سلسلے میں اچھے کام شروع ہو چکے ہیں۔

ڈالر پر ملکی معیشت کا انحصار، دوسرا کمزور پہلو تھا جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا اور کہا کہ بعض ملکوں نے، جن پر مغرب کی پابندیاں عائد تھیں، ڈالر سے اپنی انحصار حتم کر کے اور مقامی کرنسی میں کام کر کے، اپنی حالت بہتر بنا لی اور ہمیں بھی یہی کام کرنا چاہیے۔

انھوں نے معاشی مسائل میں عوام کی شرکت کی راہوں کی جانب سے غفلت کو ایک اور کمزور پہلو بتایا اور عہدیداروں، ماہرین اور ملک کے مستقبل سے علاقہ رکھنے والوں کو معیشت میں عوام کی مشارکت کی راہیں تلاش کرنے کی سفارس کی اور کہا کہ جس میدان میں بھی عوام نے شرکت کی، اس میں ہم نے پیشرفت حاصل کی، جیسے مقدس دفاع اور سیاسی مسائل، بنابریں معیشت میں بھی عوام کی شمولیت کا طریقۂ کار واضح ہو جانے سے، اس میدان میں بھی ہم کامیاب ہو جائیں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ہائبرڈ جنگ اور اس سلسلے میں دشمن کے ہتھکنڈوں سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری بتایا اور کہا کہ ہائبرڈ وار میں، فوجی حملہ نہیں ہوتا بلکہ پروپیگنڈا کرنے والے غیر ملکی اور ان کے ملکی پٹھو وسوسے پیدا کر کے لوگوں کے مذہبی اور سیاسی عقائد پر حملہ کر تے ہیں تاکہ حقائق کو پوری طرح سے الٹا دکھا کر قوم کے عزم کو کمزور اور جوانوں کے دل میں امید کے شعلے کو خاموش کر دیں اور انھیں مستقبل، کام اور پیشرفت کی طرح سے مایوس کر دیں۔

انھوں نے بدخواہوں کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دشمن محاذ برسوں سے گلا پھاڑ رہا ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ کو گھٹنوں پر لانا چاہتے ہیں اور اس کے مقابلے میں قیادت کہتی ہے کہ تم کچھ بگاڑ نہیں سکتے، یہ کہنا کسی بات کو بار بار دوہرانا نہیں ہے بلکہ یہ استقامت اور پروردگار عالم کے حکم کے مطابق حق بات پر ڈٹے رہنا ہے۔
انھوں نے میدان میں عوام کی مسلسل موجودگي کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے عوام کی بیداری اور استقامت کا حالیہ نمونہ، حالیہ ہنگاموں سے مقابلہ بتایا اور کہا کہ عوام نے ان سبھی لوگوں کو جنھوں نے ہنگاموں کو ہوا دی یا ہنگامہ مچانے والوں کی حمایت کی، تھپڑ رسید کیا اور اللہ کی مدد اور قوت سے آگے بھی ایرانی قوم اپنے دشمنوں کو تھپڑ رسید کرتی رہے گي۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزاحمتی محاذ کی حمایت جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے یوکرین کی جنگ میں ایران کی شرکت کے جھوٹے دعوے کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ہم یوکرین کی جنگ میں شرکت کو پوری طرح سے مسترد کرتے ہیں اور اس کا حقیقت سے کوئي لینا دینا نہیں ہے۔ یوکرین کی جنگ امریکا نے، مشرق کی جانب نیٹو کے پھیلاؤ کے لیے شروع کی تھی اور اس وقت بھی جب یوکرین کے عوام مشکلات میں گرفتار ہیں، جنگ سے سب سے زیادہ فائدہ امریکا اور اس کی ہتھیار بنانے والی کمپنیاں حاصل کر رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے کے لیے ضروری کاموں میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں۔

انھوں نے خطے میں امریکیوں کے کنفیوژن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں نظام کی راہ اور پالیسی پوری طرح واضح ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں لیکن امریکی کنفیوزڈ ہیں کیونکہ اگر وہ خطے میں رکتے ہیں تو انھیں افغانستان کی طرح اقوام کی روز افزوں نفرت کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ خطے کو چھوڑ کر باہر نکلنے پر مجبور ہوں گے اور اگر وہ چلے جاتے ہیں تو وہ چیزیں ان کے ہاتھ سے نکل جائيں گي جن کی طمع میں وہ یہاں آئے تھے اور یہ کنفیوژن ان کی کھلی کمزوری کی نشانی ہے۔

اس پروگرام کے آغاز میں آستان قدس رضوی (امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اطہر) کے متولی حجت الاسلام والمسلمین مروی نے اپنی تقریر میں کہا کہ معرفت کے ساتھ زیارت کی ترویج، مشہد کے مضافاتی علاقوں سمیت ضرورت مندوں پر توجہ، آستان قدس رضوی کے سماجی پروگرام کا فروغ، زیارت میں آسانی، زائروں کی خدمت وغیرہ آستان قدس رضوی کے اہم اقدامات اور پروگرامووں میں شامل ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں