174

سعودی شاہی حکومت کا فیصلہ سمجھ سے بالا: مولانا ابن حسن املوی واعظ

سعودی شاہی حکومت کا فیصلہ سمجھ سے بالا: مولانا ابن حسن املوی واعظ

اتر پردیش// سعودی عرب سے متعلق سوشل میڈیا میں یہ تشویشناک خبر پڑھ کر حد درجہ افسوس ہوا کہ وہاں ماہ رمضان المبارک سے قبل مسجدوں میں لاؤڈاسپیکر کے استعمال پر سعودی شاہی حکو مت کی جانب سے پابندی عائد کردی گئی ہے۔سعودی عرب کی شاہی حکومت کا یہ تازہ فیصلہ سمجھ سے بالا ہے۔

سعودی عرب سے متعلق سوشل میڈیا میں یہ تشویشناک خبر پڑھ کر حد درجہ افسوس ہوا کہ وہاں ماہ رمضان المبارک سے قبل مسجدوں میں لاؤڈاسپیکر کے استعمال پر سعودی شاہی حکو مت کی جانب سے پابندی عائد کردی گئی ہے۔سعودی عرب کی شاہی حکومت کا یہ تازہ فیصلہ سمجھ سے بالا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مجمع علماء وواعظین پوروانچل کے ترجمان مولانا ابن حسن املوی واعظ نے اپنے ایک جاری بیانیہ میں کیا ہے۔

مولانا نے مزید کہا ہے کہ سعودی حکومت کے تازہ فرمان کے مطابق :
1۔ کوئی لاوٗڈ اسپیکراستعمال نہیں ہوگا۔
2۔ نمازوں اورتراویح کوبراہ راست ٹی وی اور ریڈیو پرنشر نہیں کیاجائےگا۔
3۔ آزاد خیال،مہذّب،تہذیب یافتہ، سلجھےہوئےاور غیراسلامی سوچ رکھنےوالوں کی نگرانی نہیں کی جائے گی۔
4۔ نمازوں اور تراویح کوکم سےکم اور مختصررکّھاجائےگا۔
5۔ چندےاور عطیات بالکل بھی نہیں دیئےجائیں گےاور نہ ہی وصول کئے جائیں گے۔
6۔ نمازاور تراویح کےلیئے بچّوں کو مسجدمیں آنےکی اجازت بالکل بھی نہیں ہو گی۔
7۔ مسجدوں میں افطارکرنےاورافطارکا اہتمام کرنےپرمکمّل پابندی ہو گی۔

مجمع علماء وواعظین پوروانچل کی جانب سے اس فیصلہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کتنے افسوس اور تعجب کی بات ہے کہ سعودی عرب میں سینیما گھروں ،شراب کی دوکانوں ، اور فحاشی پر تو کھلی آزادی ہے لیکن مذہبی امور پر کڑی پابندی ہے۔ اس نامعقول فیصلہ سے دنیا بھر کے مسلم ممالک خاصے ناخوش نظر آرہے ہیں۔اس غیر منصفانہ فیصلہ کی وجہ سے غیر مسلم ممالک میں آباد مسلمانوں کے لئے سخت تشویش لاحق ہو سکتی ہے اور بڑا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔کیونکہ ابھی قریب ایک سال پہلے ہمارے ملک ہندوستان میں مسجدوں میں لاؤڈاسپیکر کے استعمال پر زبردست اختلاف اور شدید تنازعہ پیدا ہو گیا تھا ۔حالانکہ برسوں سے اس بابت وقتاً فوقتاً مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر پراذان کا معاملہ کھڑا ہوتا رہتا ہے اور بحث و تمحیث کا موضوع بنا کرتا ہے۔ایسے میں سعودی شاہی حکومت کا حالیہ فیصلہ ایک مثال اور بہانہ بن سکتا ہے۔

یاد رہے کہ اس وقت ہندوستان کی متعدد ریاستوں میں سرکاری گائڈ لائن کے تحت ہی مذہبی مقامات ،مسجدوں،مندروں اور گرودواروں وغیرہ میں لاوڈاسپیکر استعمال کرنے کی مشروط اجازت ہے۔سب سے پہلے سپریم کورٹ آف انڈیا نے 28 اکتوبر 2005 میں صوتی آلودگی کو صحت عامہ کے لئے ایک اہم مسئلہ بتاتے ہوئے لاوڈ اسپیکر اور مائک کے استعمال پر ضوابط بنائے تھے جس کے مطابق رات 10 بجے سے صبح 6 بجے کے دوران پابندی لگادی تھی۔

واضح رہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ جی نے ایک بڑا حکم دیا ہے۔یوگی جی نے کہا ہے کہ اجازت کے ساتھ پہلے سے نصب لاؤڈ اسپیکر مائکس چل سکتے ہیں، لیکن مسجد کی اذان کی آواز کیمپس سے باہر نہ جائے۔ساتھ ہی لاؤڈ سپیکر اور مائکس بغیر اجازت کے نہیں لگائے جا سکیں گے۔وزیراعلی یوپی نے کہا تھا کہ ‘مذہبی مقامات سے لاؤڈ اسپیکر کی آواز صرف اس لیے نہیں آنی چاہیے تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔ایسی ہی صورت حال مہاراشٹرا،بہار،اتراکھنڈ ،مدھیہ پردیش اور دیگر صوبوں میں بھی ہے۔مختصر یہ کہ ہندوستان میں کچھ شرائط کے ساتھ مسجدو ں میں لاؤداسپیکر سے اذان دینے کی اجازت ہے تو سہی مگر سعودی عرب میں اب مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرنا ہی ممنوع ہو گیا ہے جس پرسعودی حکومت کو نظر ثانی کرنی چاہئیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں