ایران اور سعودی عرب کی دوستی سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان؟
ایران// ایران اور سعودی عرب نے دو ماہ کے اندر سفارتی تعلقات بحال کرنے اور سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا ہے۔
ایران اور سعودی عرب نے دو ماہ کے اندر سفارتی تعلقات بحال کرنے اور سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا ہے ، دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ جمعہ کو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں مختلف معاملات پر اختلافات پر سفارتی تعلقات ٹوٹنے کے 7 سال بعد طے پایا ہے۔
یہ معاہدہ جمعہ کو ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی اور سعودی قومی سلامتی کے مشیر مساعد العبیان کے درمیان بیجنگ میں کئی دنوں تک جاری رہنے والی شدید بات چیت کے بعد طے پایا۔ جس کے بعد ایران، سعودی عرب اور چین کی جانب سے مشترکہ بیان میں اس کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔
سعودی عرب میں بزرگ شیعہ عالم شیخ نمر باقر النمر کی پھانسی کے خلاف تہران میں سعودی سفارت خانے کے سامنے مظاہروں کے بعد جنوری 2016 میں سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے اور سفارت خانہ بند کرنے کا فیصلہ کیا۔
2015 سے 2021 تک سعودی عرب نے ایران کے خلاف جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائی تھی۔ اس دوران سعودی عرب نے نہ صرف ایران اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جارحانہ رویہ اپنایا بلکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا بھی ایک اہم حصہ تھا۔
لیکن 2021 کے بعد سے، ریاض اور تہران نے اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لیے عراقی حکومت کی ثالثی میں بغداد میں مذاکرات کے 5 مرحلوں کا انعقاد کیا۔ اسلامی دنیا کے دو اہم ممالک کی حیثیت سے دونوں نے تعلقات کی بحالی اور اختلافات کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ نتیجتاً 10 مارچ 2023 بروز جمعہ چین کی ثالثی میں بیجنگ میں دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا معاہدہ واضح طور پر امریکا اور اسرائیل کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ یہ معاہدہ بیجنگ میں چین کی ثالثی سے ہوا ہے۔ امریکہ نئے عالمی نظام میں چین کو اپنے لیے سب سے بڑا چیلنج سمجھتا ہے اور چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو بالکل برداشت نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل علاقائی ممالک کے درمیان تنازعات اور اختلافات میں ہی اپنے مفادات کو محفوظ سمجھتے ہیں اس لیے یہ معاہدہ ان کوششوں کے لیے ایک کاری ضرب ہے۔
اس دوران اسرائیل نے تہران اور ریاض کے درمیان اختلافات کو ایک موقع کے طور پر دیکھا اور امریکہ کی حمایت سے علاقائی ممالک کے ساتھ تیزی سے تعلقات استوار کرنے اور ایران کے خلاف اتحاد بنانے کی کوشش کی۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اب عالم اسلام اور خطے کے دو اہم ترین ممالک کے درمیان اختلافات کے خاتمے نے ان تل ابیب کی سازشوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔