تحریر: امانت علی حسینی
سید حسن نصر اللہ، حزب اللہ کے عظیم رہنما، تاریخ کی ان شخصیات میں شامل ہیں، جنہوں نے حق و باطل کی جنگ میں اپنے کردار سے ایک ایسی مثال قائم کی جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ ان کی شخصیت جرأت، حکمت، اور ایمان کا مجسمہ ہے۔ ان کا نام ہر اس جگہ گونجتا ہے اور تا قیامت گونجتا رہے گا جہاں مظلوموں کی آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ظالم اپنی طاقت کے نشے میں چور ہو کر معصوموں کے خون سے کھیلتے ہیں۔
شہید کی ابتدائی زندگی اور روحانی بنیادیں
31 اگست 1960 کو لبنان کے ایک غریب مگر دیندار گھرانے میں پیدا ہونے والے سید حسن نصر اللہ نے اپنی ابتدائی زندگی میں ہی علم و تقویٰ کی طرف رجحان ظاہر کیا۔ عراق کے مقدس شہر نجف اشرف میں ان کے دینی علوم کا آغاز ہوا، جہاں انہوں نے اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھا اور ایک انقلابی رہنما کی حیثیت سے اپنی بنیاد رکھی۔ آیت اللہ باقر الصدر جیسے بلند پایہ علماء کی صحبت نے ان کی شخصیت میں وہ بصیرت پیدا کی جو وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔
حزب اللہ کی بنیاد اور قیادت
1982 میں اسرائیل کے لبنان پر حملے کے بعد حزب اللہ وجود میں آئی۔ یہ ایک ایسی تنظیم تھی جو ظالم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہونے کے لیے تیار کی گئی تھی۔ سید حسن نصر اللہ، جنہوں نے ابتدا سے اس تنظیم کے نظریے کو اپنی روح کا حصہ بنایا، جلد ہی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اور بصیرت کے باعث قیادت کے لیے چنے گئے۔ 1992 میں سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد ان کی ذمہ داری میں مزید اضافہ ہوا، اور انہوں نے حزب اللہ کو ایک عالمی مزاحمتی قوت میں تبدیل کر دیا۔
جرأت و شجاعت کے عملی مظاہر
سید حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے بارہا دنیا کے سب سے طاقتور شیطانی نظاموں کو جھکنے پر مجبور کیا۔ ان کی شجاعت کے چند نمایاں واقعات درج ذیل ہیں:
1. 2000 کی فتح: اسرائیل کی شکست
2000 میں سید حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کو جنوبی لبنان سے نکلنے پر مجبور کیا اسرائیلی فوج دم دباکر بھاگ نکلی۔ یہ وہ وقت تھا جب اسرائیل کی فوج کو دنیا کی ناقابل تسخیر فوج سمجھا جاتا تھا، لیکن سید حسن نصر اللہ کی حکمت اور لبنانی عوام کے اتحاد نے دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا اور دنیا نے دیکھا کے خدا کے بندوں نے کیسے شیطانی فوج کو شکست فاش سے دو چار کیا۔
2. 2006 کی جنگ: ناقابلِ شکست مزاحمت
34 دن کی یہ جنگ نہ صرف لبنان بلکہ دنیا بھر میں مزاحمت کی تاریخ میں ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسرائیل، جو اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی اور طاقت کے غرور میں تھا، حزب اللہ کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوا۔ یہ جنگ سید حسن نصر اللہ کی قیادت، عوامی حمایت، اور میدان جنگ میں ان کی حکمت عملی کا شاندار مظاہرہ تھی۔
جرأت کا فلسفہ: ایمان کی طاقت
سید حسن نصر اللہ کی جرأت ان کے ایمان کی گہرائی سے آتی ہے۔ ان کا یقین ہے کہ حق کی فتح مقدر ہے، اور مظلوموں کی حمایت میں کھڑا ہونا ہر مومن کی ذمہ داری ہے۔ ان کے یہ الفاظ دنیا بھر میں مزاحمت کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہیں:”ہم نہ جھکیں گے، نہ ڈریں گے، اور نہ ہی اپنے مقصد سے پیچھے ہٹیں گے۔ کیونکہ ہم اللہ کے سپاہی ہیں۔”
شہادت: ایک لازوال قربانی
سید حسن نصر اللہ نے اپنی زندگی حق کے لیے وقف کر دی۔ ان کی شہادت نے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف الفاظ کے رہنما تھے بلکہ میدان عمل کے سپاہی بھی تھے۔ ان کی شہادت نے حزب اللہ اور ان کے مشن کو مزید تقویت بخشی اور دنیا بھر میں ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت و احترام کو دوگنا کر دیا جب تک دنیا رہیگی انکا نام رہیگا سید حسن نصر شیعان علی ع کا سر کا جھومر رہیگا ہر مومن انکی شجاعت پر رشک کھائے گا۔
عالمی اثرات اور خراجِ تحسین
سید حسن نصر اللہ کا کردار اور ان کی بہادری صرف لبنان تک محدود نہیں انکے چاہنے والے پوری عالم اسلام میں پائے جاتے ہیں۔ وہ دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے امید کا چراغ اور ظالموں کے لیے ایک خوفناک خواب بنے۔ ان کی شخصیت نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اگر ایمان مضبوط ہو، تو کوئی طاقت مظلوم کو شکست نہیں دے سکتی۔
خاتمہ:
سید حسن نصر اللہ کی زندگی اور شہادت ہمیں سکھاتی ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں خاموش رہنا ظلم کی حمایت کے مترادف ہے۔ ان کی بہادری اور قربانی کو الفاظ میں مکمل بیان کرنا ممکن نہیں، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ تاریخ کے ان عظیم سپوتوں میں شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے زمانے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ظلم کے خلاف ڈٹنے کا درس دیا۔
سید حسن نصر اللہ کے لیے یہ خراج تحسین دنیا کے ہر مظلوم کی طرف سے ایک دعا اور ہر ظالم کے لیے ایک انتباہ ہے کہ جرات و مزاحمت کی یہ شمع کبھی نہیں بجھے گی۔