4938852 35

مغربی ایشیا میں امریکہ کی حکمت عملی کیوں اور کیسے ناکام ہوئی؟

مزاحمتی محور کی روز افزوں طاقت اور صیہونی رجیم کی سلامتی کو یقینی بنانے میں امریکہ کی ناکامی اس ملک کی اسٹریٹیجک شکست کی کی واضح علامت ہے جس کا نتیجہ افغانستان کے بعد عراق اور شام سے ذلت آمیز فوجی انخلاء کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔

بین الاقوامی ڈیسک: رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے ایرانی سال (1403) کی یکم کو تہران کے حسینیہ امام خمینی (رہ) میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے خطے کی موجودہ صورت حال پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے خطے میں امریکہ کی ناکام حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکی ایک غلط اندازے کے ساتھ اس خطے میں اپنی موجودگی کے ذریعے تمام حالات پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ چاہے وہ عراق ہو شام اور لبنان یا خطے کے دیگر ممالک۔ لیکن مزاحمتی محور کی فیصلہ کن طاقت نے امریکی اسڑیٹیجی کے تاروپود بکھیر کے رکھ دئے اور عملا ثابت کیا کہ ایسا ممکن نہیں، بلکہ امریکی اس علاقے میں نہیں رہ سکتے، لہذا انہیں ہر صورت علاقہ خالی کرنا ہوگا۔”

مزاحمت کے مقابلے میں صیہونی حکومت کو تحفظ فراہم کرنے میں امریکہ کی ناکامی کی مثالیں۔

مغربی ایشیا میں امریکیوں کی اہمیت اور موجودگی کی وجہ یہ ہے کہ یہ خطہ تیل اور گیس کے وسائل کے ساتھ ساتھ اہم آبی گزرگاہوں کی موجودگی کی وجہ سے دنیا کے سب سے زیادہ تزویراتی خطوں میں سے ایک ہے۔
اسی وجہ سے دنیا میں اپنی طاقت کو بڑھانے کی کوشش کرنے والے امریکہ نے خاص طور پر دوسری یورپی جنگ کے بعد آہستہ آہستہ مغربی ایشیا میں اپنی مداخلتیں شروع کر دیں۔

درحقیقت امریکہ اس خطے کی دولت اور توانائی کی لوٹ مار کے ساتھ ساتھ صیہونی رجیم کے تحفظ کو یقینی بنانے، مزاحمتی محور کا مقابلہ کرنے اور امریکی تسلط کو دوام دینے کے درپے تھا لیکن موجودہ علاقائی حالات بتاتے ہیں کہ مغربی ایشیا میں امریکہ کی استحصالی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

صیہونی حکومت کی ہمہ جہت سیاسی، مالی اور ہتھیاروں کی حمایت کے باوجود امریکہ اس رجیم کی حفاظت کو یقینی بنانے میں ناکام رہا ہے۔
آج غزہ کی جنگ کے دوران، امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے اہم ترین ہدف کے طور پر صیہونی حکومت کی سکیورٹی کو پہلے سے کہیں زیادہ تباہ کن چیلنجز کا سامنا ہے۔

اس جنگ کے دوران تقریباً 6 ماہ سے صیہونی حکومت پر ہر طرف سے حملہ کیا گیا۔ گویا لبنان، شام، عراق اور یمن کی مزاحمتی قوتوں نے مقبوضہ سرزمین کو غیر محفوظ بلکہ صیہونیوں کے جہنم بنا رکھا ہے۔ اس کے علاوہ حماس اور اسلامی جہاد بھی فلسطین کے اندر سے صیہونی رجیم کے خلاف برسرپیکار ہیں۔

1۔ مزاحمت کے سب سے طاقتور رکن کے طور پر “یمن” کے مقابلے میں شکست

اس عرصے کے دوران، یمنی فوج غزہ میں صہیونی رجیم کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے ردعمل میں مغربی عبرانی اتحاد کے خلاف براہ راست تصادم کے ذریعے بحیرہ احمر کو مغربی عبری اور یورپی مثلث کے لئے غیر محفوظ بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

یقینا، امریکہ اس سمندری علاقے میں “خوشحالی کے محافظ” کے نام پر ایک فوجی اتحاد بنانا چاہتا تھا، اور یہ نام امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے بحیرہ احمر میں بحری اتحاد کے لیے منتخب کیا تھا تاکہ صیہونی حکومت کو یمنی حملوں سے بچایا جا سکے۔ لیکن یہ اتحاد ابتدائی دنوں میں ہی ٹوٹ گیا۔

عبری-مغربی اتحاد کے بحری جہازوں اور ٹھکانوں پر یمنی فوج کے میزائل اور ڈرون حملوں نے اس سمندری علاقے میں امریکی حکمت عملی کی ناکامی کو مزید عیاں کردیا ہے اور وہ مزاحمتی محاذ کے ایک طاقتور رکن ملک کی اسٹریٹیجک پوزیشن اور فوجی طاقت کے مقابلے میں بے بس ہیں۔

اس بارے میں روزنامہ نیویارک ٹائمز نے لکھا: مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی حالیہ برسوں میں یمن کے فضائی دفاع، کمانڈ سینٹرز، ہتھیاروں کے اسلحہ خانوں، ڈرون اور میزائلوں کے گوداموں کے بارے میں اعداد و شمار اور معلومات کی جمع آوری پر بہت زیادہ وقت اور وسائل صرف کرنے کے باوجود ان کے لیے یمن میں مطلوبہ اہداف اور پوزیشنیں تلاش کرنا توقع سے زیادہ مشکل کام ہے۔

2. لبنان میں امریکہ کی ناکام حکمت عملی

لبنان کے حوالے سے امریکی ویب سائٹ “پروویڈنس” نے حال ہی میں لکھا ہے کہ واشنگٹن کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ لبنان کے خلاف اس کی پالیسی بری طرح ناکام رہی ہے۔

اس ویب سائٹ کے مطابق امریکیوں کا ایک گروپ اب بھی لبنانی فوج کو اپنے ملک کی خارجہ پالیسی میں حزب اللہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر خیال کرتا ہے، لیکن یہ ہدف اب تک حاصل نہیں ہوسکا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس گروہ کا خیال ہے کہ لبنان میں امریکی حکومت کے حصے میں صرف ناکامیوں کے انبار آئے، کیونکہ امریکہ کی لبنانی فوج کو “سخاوت مندانہ سکیورٹی” امداد کے باوجود بھی اسے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہوئے۔

اس امریکی اخبار نے مزید لکھا کہ غزہ پر حملوں کے جواب میں حزب اللہ کے مقبوضہ فلسطین کے شمال پر حملوں میں نہ صرف بڑی تعداد میں اسرائیلی ہلاک ہوئے، بلکہ مقبوضہ علاقوں کے شمال سے بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی بھی ہوئی۔

امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج کے مطابق حزب اللہ کے پاس دیگر ممالک کے مقابلے زیادہ صلاحیتیں ہیں اور اس کے پاس ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ میزائل ہیں جن میں سے کئی گائیڈڈ ہیں اور اس حوالے سے وہ حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد سے بہت بہتر ہے۔ اس بنا پر حزب اللہ کے ساتھ جنگ ​​صہیونی فوج کے لیے ایک مختلف سطح کی تباہ کن مہم ہوگی۔

اسرائیلی لابی “ڈیفنس آف ڈیموکریسیز” کے مطابق مقبوضہ علاقوں کی شمالی بستیوں کے تقریباً 1 لاکھ رہائشیوں کو لبنانی سرحدوں کے قریب واقع علاقوں کو خالی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ وہ بے گھر ہیں اور ان میں سے بہت سے عارضی مکانات میں رہتے ہیں اور صیہونی حکومت کے میڈیا میں ان کی خبریں کم ہی آتی ہیں۔

امریکی ویب سائٹ “پروویڈنس” نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا: امریکہ نے لبنانی فوج کو فراخدلی سے سکیورٹی امداد دی۔

ستمبر 2022 میں اس ملک کی وزارت خارجہ نے لبنان کے حوالے سے ملک کی خارجہ پالیسی میں امداد کو ایک اہم عنصر قرار دیا، جس سے لبنان کی خودمختاری کو مضبوط اور اس کی سرحدوں کو تحفظ فراہم کیا گیا اور اندرونی خطرات کے خلاف اس کی مد مدد کی۔

تاہم حقیقت یہ ہے امریکی حکام کے اس طرح کے بیہودہ تبصرے حقیقت کے بالکل برعکس ہیں۔ بلکہ امریکہ اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہی امر مغربی ایشیا میں امریکہ کی تزویراتی ناکامی کا سبب بنا ہے۔

3۔ عراق میں امریکہ کی ناکامی اور ذلت آمیز انخلاء کی تیاری

افغانستان سے امریکہ کے غیر ذمہ دارانہ انخلاء کے تقریباً 2 سال بعد واشنگٹن نے گزشتہ سال عراق سے انخلاء کا فیصلہ کیا۔ ان کا یہ فیصلہ عراقی عوام کی آزادی اور زینو فوبیا کے ساتھ ساتھ غزہ جنگ کی وجہ سے گزشتہ مہینوں کے دوران امریکی فوج اور اڈوں پر خوف اور عدم تحفظ کی فضا کی وجہ سے تھا۔

امریکہ کی حمایت میں غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کی وجہ سے عراقی مزاحمت نے گذشتہ 6 مہینوں میں 100 سے زائد مقامات پر اور 150 سے زیادہ مرتبہ امریکی ٹھکانوں کے خلاف کارروائیاں کیں۔

اس صورتحال میں عراقی وزیر اعظم کے دفتر کے تعلقات عامہ نے عراق میں اتحادی مشن کے خاتمے کے لیے بغداد اور واشنگٹن کے درمیان دو طرفہ مذاکرات کے آغاز کا اعلان کیا۔

4. شام میں امریکہ کی شکست اور فوجی انخلاء کی منصوبہ بندی

2011 میں شام کے بحران کے آغاز کے ساتھ ہی امریکہ نے اس ملک کو کمزور کرنے، اسے توڑنے اور بالآخر اس ملک میں بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی لیکن تقریباً ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی یہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے۔ “بشار الاسد” آج بھی اس ملک کے صدر ہیں جب کہ عرب ممالک اپنی شکست تسلیم کر کے دمشق کے ساتھ تعلقات بحال کرچکے ہیں۔

فروری کے شروع میں “فارن پالیسی” میگزین نے باخبر ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ امریکہ شام سے انخلاء کا منصوبہ بنا رہا ہے اور اس میگزین نے امریکی حکام کے حوالے سے خبر دی: وائٹ ہاؤس اب شام میں امریکی مشن کو اہمیت نہیں دیتا کیونکہ وہ اس مشن کو غیر ضروری سمجھتا ہے۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: شام سے امریکی افواج کے انخلاء کی تاریخ کے بارے میں واشنگٹن میں بات چیت جاری ہے۔ لیکن ابھی اس کا وقت طے نہیں ہوا ہے۔

فارن پالیسی کے علاوہ امریکی میگزین “پولیٹیکو” نے بھی واشنگٹن کے تین اعلیٰ عہدیداروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔

امریکہ کی اسٹریٹجک ناکامی کی سب سے اہم وجہ عوامی عدم اطمینان اور عدم اعتماد؛

کچھ عرصہ قبل چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا: خطے کے عوام اب امریکہ پر اعتماد نہیں کرتے اور خطے کے حکام ان کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔

“الجزیرہ” نیوز سائٹ نے بھی حال ہی میں اپنے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنی گیم بری طرح ہار چکا ہے اور اس شکست کی تمام تر ذمہ داری واشنگٹن پر عائد ہوتی ہے۔

حالیہ صورت حال پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اب یہی سوچ زور پکڑ رہی ہے کہ اس خطے سے 10 ہزار کلومیٹر سے زیادہ دور امریکہ نے پچھلی کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرکے اس خطے میں تنازعات، جنگ اور غربت کو ہوا دی ہے۔ لہٰذا خطے کے ممالک کے پاس ’’انکل سام‘‘ کی شیطانی پالیسیوں سے الگ ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

الجزیرہ کے مطابق امریکہ نے جنگ کے شعلوں کو ہوا دے کر مشرق وسطیٰ میں غیر معمولی تباہی برپا کی ہے۔ 2003 میں، من گھڑت شواہد کا سہارا لے کر اس ملک نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اجازت کے بغیر اور عالمی برادری کی شدید مخالفت کے باوجود عراق میں جنگ شروع کی۔ بین الاقوامی شماریاتی ادارے ” انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن اینڈ اسٹیٹسٹکس” کے شائع کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2003 اور 2021 کے درمیان جنگ اور پرتشدد تنازعات کے دوران تقریباً 209,000 عراقی شہری جاں بحق ہوئے اور تقریباً 9.2 ملین عراقی بے گھر یا اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
دریں اثنا، امریکہ نے ایک طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں غیر سرکاری تنظیموں اور ایجنٹوں کے اثر و رسوخ کی حمایت کی ہے اور بار بار “مخملی انقلابات” کا استعمال کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے ممالک کی ترقی کی راہیں تبدیل کی ہیں۔ اس کے علاوہ، ریاستہائے متحدہ کی نیشنل ڈیموکریسی فاؤنڈیشن کی مالی مدد جاری رکھ کر، امریکہ نے مصر، یمن، اردن، الجزائر، شام اور دیگر ممالک میں رنگین انقلابات کو ہوا دی اور ایسے افراد اور گروہوں کو مالی امداد فراہم کی کہ امریکہ کو “عرب بہار” کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔

الجزیرہ نے مزید لکھا: امریکہ نے پابندیوں کو مشرق وسطیٰ کے خطے میں ہراساں کرنے کے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔
واشنگٹن چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اسلامی جمہوریہ ایران کا تختہ الٹنے کے مقصد سے پابندیوں کا سہارا لے رہا ہے۔
جب کہ تہران امریکہ کی طرف سے عائد پابندیوں کو غیر انسانی، مجرمانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں سے تعبیر کرتا ہے۔

نتیجہ

مغربی ایشیا میں امریکہ کے رویے کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ خطے میں بھاری قیمت چکانے کے باوجود اس ملک کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی اور دوسری جنگ عظیم سے لے کر اب تک کی اسٹریٹجک ناکامی، مغربی ایشیا میں امریکہ کے طرز عمل کا نتیجہ ہے۔

امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کخ حمایت، علاقے میں تنازعات کے مراکز کا فعال ہونا، داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی تخلیق اور عراق، افغانستان وغیرہ پر حملے وائٹ ہاؤس کو نہ صرف اپنے اہداف کے قریب نہیں پہنچا سکے بلکہ اس کے برعکس اس خطے سے دستبردار ہونا پڑا ہے۔

جب کہ دوسری طرف، اسلامی جمہوریہ ایران نے سب سے زیادہ طاقت حاصل کی ہے؛ امریکہ اور صیہونی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمتی محور پوری قوت سے کھڑا ہے اور شاندار کامیابیاں حاصل کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ خطے کی رائے عامہ کی امریکہ اور صیہونی رجیم سے نفرت بھی آسماں چھونے لگی ہے۔

البتہ قابل ذکر ہے کہ امریکی تھنک ٹینکس اور سیاسی حلقے گزشتہ برسوں کے دوران اس رسواکن ناکامی کو تسلیم کر چکے ہیں، جیسا کہ خارجہ امور میں “باراک اوباما” کے قومی سلامتی کے مشیر “بین روڈز” نے اعتراف کیا کہ امریکہ افغانستان، لیبیا، عراق اور شام میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے اور صومالیہ امریکہ کی مداخلت کے بغیر بہتر صورتحال میں ہوتا”
یا ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیفن والٹ نے کہا: “گزشتہ 15 سالوں میں ہم نے کم سے کم یہ سیکھا ہے کہ امریکہ کبھی بھی مشرق وسطی کے کسی ملک پر کنٹرول حاصل نہیں کر سکے گا۔

(مہر خبر)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں