70برسوں سے جموںو کشمیر بجلی کی پیداوار کو 17%سے آگے لے جانے میں برُی طرح سے ناکام
بیس ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے جموںو کشمیرمیں ہزارچا رسو34میگاواٹ بجلی دستیاب
سرینگر/ / جموں وکشمیر میں بجلی بحران ہرگزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتاجارہاہے اور بجلی کی عدم دستیابی پرجہاں لوگ اپنی ناراضگی ظاہر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں وہی سیاسی پارٹیوں کے لیڈران بجلی کی کمی پر سرکار کو آڑھے ہاتھوں لینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرر ہے ہیں ۔سیاسی لیڈروں میں وہ وزراء اعلیٰ شامل ہیں جو حکومت کو تنقید کانشانہ توبناتے ہے لیکن اپنے دوراقتدار میں جموں وکشمیرمیں بجلی کی پیداوارکو بڑھانے کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے اور پچھلے 70برسوں سے جموںو کشمیر میںصرف تین ہزار 434میگاواٹ پن بجلی پیدا ہو،جبکہ جموں وکشمیر پانی سے بیس ہزارمیگاواٹ پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے ۔سابق وزیراعلیٰ سے پوچھاجاسکتاہے کہ ہائیڈل بجلی پروجیکٹوں کی تعمیرکے سلسلے میں صرف بیانات دیئے گئے اور عملی اقدامات اٹھانے میں کسی بھی طر ح کی کارروائی عمل میںنہیں لائی گئی ۔ پاورڈیولپمنٹ کے کمشنر نے پانچ سو میگاواٹ اضافی بجلی خریدنے کے لئے حکومت کی جانب سے اقدامات اٹھانے کاپھریقین دلایاکہ اور کہ جس کسی ریاست سے بجلی خریدی جائے گی انہیں پہلے رقومات اداکرنی ہے اس سلسلے میںسرکار کواقدامات اٹھانے جارہی ہیں۔ تمام دستاویزات مکمل کئے جارہے ہیں اور آ نے والے پندرہ دنوں کے اند راندر بجلی کے بحران پرقا بوپایاجائیگااور جموںو کشمیرکواضافی پانچ سومیگاواٹ بجلی فراہم کی جائے گی تاکہ چھوٹے کا رخانہ داروں تاجروں سرکاری وپرائیویٹ دفتروںاور عام صارفین کوراحت مل سکے ۔انہوںنے صارفین پرزور دیاکہ وہ باقائدگی کے ساتھ بجلی فیس اداکرے تاکہ پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کومقروض نہ ہونا پڑے ۔انہوںنے کہاکہ پچاس فیصد بجلی فیس وصول ہورہاہے جو کارپوریشن کے لئے نقصان دہ ہے ۔ تاہم جہاں تک جموںو کشمیرمیں بجلی کی پیداوارکاتعلق ہے ۔این ایچ پی سی ایچ سی سی کی جانب سے جوہائیڈل پروجیکٹ تعمیرکئے گئے ہیں ان سے 3434میگاوا ٹ بجلی پیداہوتی ہے جسمیں جموںو کشمیرکورائلٹی کے تحت بارہ فیصد بجلی فراہم کی جاتی ہے او رجموں کشمیر کو بجلی 11سو میگاواٹ فراہم ہے، جبکہ ضرورت پچیس سو میگاواٹ سے زیادہ ہے ۔پچھلے ستربرسوں کے دوران جموں وکشمیرمیں اگر تین ہزار چار سو 34میگاواٹ بجلی کی پیداہونے کے لئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں تو یہ کس قدرمایوس کن ہے کہ عوامی حکومتوں نے بجلی کی پیداوا رکی طرف توجہ نہیں دی ۔ شخصی راج سے چھٹکارا ملنے کے بعد70برس گزر گئے عوامی حکومتوں نے بار بار یہ دعوے کے کہ جموںو کشمیرمیں بجلی کے بحران پرقابوپانے کے لئے ہرممکن اقدامات اٹھائے گئے ۔مرحو م شیخ محمدعبداللہ، بخشی غلام محمد،غلام محمد،سابق سیدمیرقاسم کے علاوہ ڈاکٹرفاروق عبداللہ ان کے فرزندعمرعبداللہ غلام بنی اازاد مفتی محمدسیعد محبوبہ مفتی جموںو کشمیرکے وزیراعلیٰ رہے جووزیراعلیٰ سے دنیاسے چلے گئے ان کے بغیر جواس وقت بجلی کی عدم دستیابی کے سلسلے میںسرکار کوہدف تنقید کانشانہ بنتے ہیں کیاان کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کی وہ اپنے دعوؤں اوروعدوں کوعملی جامہ پہنانے کیلئے اقدامات اٹھائیں ۔مزکورہ وزراء اعلیٰ بار بار بجلی کی عدم دستیابی کے سلسلے میں سرکار کویہ بتاکرہدف تنقید کانشانہ بناتے ہے کہ اپنے دوراقتدارمیںگیس ٹربائن چلانے او رملک کے مختلف ریاستوں سے بجلی خریدنے کی کارروائیاں انجام م دیتے تھے ا ورآج یہی وجہ ہے کہ ریاست بجلی کے معاملے میں بیس ہزارکروڑ کی مقروض ہے ۔شمالی گرڈ جموںو کشمیرکوپاور دینے سے مکر رہاہے اگرسابق وزراء اعلیٰ نے ہائیڈل پروجیکٹوں کی طرف توجہ دی ہوتی توکیابیس ہزارکے بجائے پندرہ ہزارمیگاواٹ بجلی جموں وکشمیرکودستیاب نہیں ہوتی ۔جموں وکشمیرکے لوگوں کوبیان بازی سے یقین دلانے کی کوشش کی گئی یہ ان کے مستقبل کوتابناک بنانے کی بھرپرکوششیں ہورہی ہے جبکہ ظاہری طور پرایساکچھ نہیں دکھائی دیتاہے یہی وجہ ہے آج جموں و کشمیرکے لوگ ایک ایک یونٹ کے لئے ترس رہے ہیں ۔