طوفان الاقصی کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ صہیونی حکومت کی غلطیاں زیادہ آشکار ہوتی جارہی ہیں۔
سیاسی ڈیسک؛ صہیونی حکومت حماس اور مقاومتی تنظیموں کو نابود کرنے اور اپنے یرغمالیوں کو آزاد کرنے کی نیت سے غزہ کی جنگ میں کود پڑی۔ چھے مہینے سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد نہ صرف ان اہداف کے حصول میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے بلکہ صہیونی حکومت جنگ کا دائرہ پورے خطے میں پھیلانا چاہتی ہے۔ اسی مقصد کے تک دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا۔ ایران کی طرف سے جوابی کاروائی کے بعد واضح ہوگیا کہ صہیونی حکومت کی حکمت عملی مکمل غلطی پر مبنی ہے۔
حماس کے مقابلے میں غلط حکمت عملی
سات اکتوبر کو طوفان الاقصی آپریشن کے بعد اسرائیل حماس کے سامنے کھڑا ہوگیا جب مقاومتی جوانوں نے کئی تہہ پر مبنی صہیونی سیکورٹی حصار کو توڑ کر یرغمالیوں کو اپنے ساتھ غزہ میں لایا۔ اس کے بدلے میں صہیونی حکومت نے بلافاصلہ ہوائی حملہ شروع کردیا جس میں متعدد فلسطینی شہید اور زخمی ہوگئے۔ اب تک اسرائیل اپنے اعلان کردہ اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام ہے۔
یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی
حماس نے طوفان الاقصی آپریشن میں متعدد صہیونیوں کو یرغمال بنالیا۔ اقوام متحدہ میں صہیونی نمائندے کے مطابق صہیونی یرغمالیوں کی تعداد 200 سے زائد ہے۔ 45 دنوں کے بعد 24 نومبر کو عارضی جنگ بندی ہوئی جس میں کئی یرغمالی رہا ہوگئے۔ بعض یرغمالی صہیونی بمباری میں مارے گئے ہیں جبکہ متعدد اب بھی حماس کی قید میں ہیں۔
حماس کی نابودی
نتن یاہو سمیت صہیونی حکام کا دعوی تھا کہ حماس کو ایک مہینے سے کم عرصے میں ختم کردیں گے۔ گذشتہ مہینے صہیونی فوج نے کہا تھا کہ جنگ کے آغاز سے اب تک مجموعی طور 12 ہزار سے زائد حماس کے جنگجو شہید ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ تعداد حماس کی مجموعی تعداد کا نصف ہے۔ نتن یاہو کے مطابق حماس کے 24 یونٹوں میں سے اب تک 18 ختم جبکہ باقی 6 یونٹ رفح میں سرگرم ہیں۔ صہیونی حکام ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کے پاس اب بھی ایک ہزار سے زائد راکٹ ہیں جن کو مکمل ختم کرنے کے لئے مزید ایک سے دو سال لگیں گے۔ حماس کے اکثر میزائل اور راکٹ زیرزمین ہیں۔
دی گارڈئین کے مطابق حماس کی شکست بہت دور ہے کیونکہ اب بھی غزہ کا بڑا حصہ حماس کے قبضے میں ہے۔ صہیونی فوج کی عقب نشینی کے بعد حماس نے خود کو غزہ کے دیگر علاقوں میں پھیلایا ہے۔ اعلی قیادت میں سے بہت کم کو نقصان ہوا ہے اور زیرزمین سرنگوں کی بھی بڑی تعداد اب بھی محفوظ ہیں۔
ایرانی سفارت خانے پر حملہ
صہیونی حکومت غزہ میں ہونے والی شکست سے توجہ ہٹانے کے لئے جنگ کا دائرہ پھیلانا چاہتی ہے۔ ایران کو دباو میں لانے کے لئے شام میں سفارت خانے پر حملہ کیا گیا۔ قریب ترین ملک ہونے کی وجہ سے شام میں ایرانی اعلی فوجی کمانڈروں کو شہید کردیا جن میں شہید جنرل تقی زادہ، محمد علی عطایی، حجت اللہ امیدوار، سید رضی موسوی، محمد رضا زاہدی اور محمد ہادی حاج رحیمی شامل ہیں۔ دمشق میں سفارت خانے پر حملہ کرکے صہیونی حکومت نے بڑی غلطی کی۔
ایران کے بارے میں غلط اندازے
نتن یاہو نے کئی سال پہلے کہا تھا کہ اسرائیل کا حقیقی دشمن ایران ہے۔ شام میں سفارت خانے پر حملے کے بعد رہبر معظم نے کہا تھا کہ اسرائیل کو سزا دینا ضروری ہے۔ بعض مبصرین کا خیال تھا کہ ایران حملہ کرنے سے عاجز ہے لیکن ایران نے فوجی کاروائی کی۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل پر ڈرون اور میزائلوں سے حملہ کردیا ہے۔ ایران نے کروز میزائل، شاہد ڈرون طیارے اور عماد بیلسٹک میزائل استعمال کئے جس میں نواطیم کے ہوائی اڈے کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا اس کے علاوہ مقبوضہ گولان میں ایک فوجی تنصیب کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے کے بعد ایرانی اعلی دفاعی اور سیاسی حکام نے کہا کہ ایران کشیدگی میں اضافے کا خواہاں نہیں ہے تاہم کسی قسم کی جوابی کاروائی کی صورت میں پہلے سے زیادہ شدت سے حملہ کریں گے۔
امریکہ کی عقب نشینی
شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے کے بعد امریکہ نے اسرائیل کی مذمت سے گریز کیا لیکن ایران کی جانب سے انتباہ کے بعد صدر جوبائیڈن نے کہا کہ واشنگٹن ایران کے خلاف حملوں میں شریک نہیں ہوگا۔ یہ اسرائیل کی تنہائی کی بڑی دلیل تھی۔ ایرانی سفارت خانے پر حملے سے کافی عرصہ پہلے بھی امریکہ اسرائیل کو اس طرح کا انتباہ کرچکا تھا۔
ایرانی اقدام کی خطے میں حمایت
طوفان الاقصی سے پہلے صہیونی حکومت نے خطے کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کے قیام کی کوششیں شروع کی تھیں۔ ایرانی سفارت خانے پر حملے کے بعد خطے کے بعض ممالک میں عوام نے حکومتوں پر تنقید شروع کی۔ چین اور روس جیسے بڑے ممالک نے حملے کو بدامنی کا باعث قرار دیا۔ سعودی عرب جیسے ممالک نے بھی صہیونی حملے کی مذمت کی۔ ترکی، الجزائر اور دیگر ممالک نے اقوا متحدہ اور عالمی فورمز پر صہیونی حکومت کے خلاف مذمتی بیانات دیے۔
نتیجہ
طوفان الاقصی کے چھے مہینے بعد یہ حالت ہے کہ صہیونی حکومت کی تمام تر حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے۔ حماس کی نابودی اور یرغمالیوں کی رہائی سمیت کوئی بھی وعدہ پورا نہ ہوسکا۔ ایرانی سفارت خانے پر حملہ دوسری بڑی غلطی تھی جس کے بعد صہیونی حکام کو اتنی شدت سے ردعمل کا گمان تک نہ تھا۔ انہوں نے سوچا تھا کہ شاید ایران سائبر حملے کرکے اکتفا کرے گا لیکن اچانک بڑی فوجی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایرانی حملے کے ساتھ دوسری طرف امریکہ بھی عقب نشینی کرچکا ہے اور خطے کے ممالک میں ایران کے لئے حمایت کی سطح پر بلندی پر پہنچ گئی ہے۔
(مہر )