شہید سلیمانی کے مزار پر دہشتگردانہ حملے کا پس منظر
تحریر: محمد روح اللہ صالحی
اگرچہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کی ولادت کے بعد، کچھ عرصہ اسرائیل کے خلاف عربوں نے عرب قوم پرستی کی بنیاد پر جنگیں لڑیں، لیکن ان پر حاکم مادی تفکر نے انہیں جھکنے پر مجبور کیا۔
پھر ایران میں اسلامی انقلاب رونما ہوا۔ انقلاب اسلامی نے فکری، تربیتی اور سلاحی مدد کے ذریعے فلسطین کو قوی بنایا۔
ایران کے ٹاپ لیول کے سائنسدان، انجنیئر، فوجی کمانڈر بلکہ پوری فوجی بٹالین سپاہ قدس کے نام پر کردیا۔ جس کا ہدف ہی اسرائیل کی نابودی تھا۔
لہذا اس متمرکز فورس نے اسرائیل کے خلاف حماس کو ناقابل شکست بنایا۔
دنیا کے پانچ ممالک کے فورسز جس میں اسرائیل، امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں، سب مل کر حماس کو ختم نہیں کر سکا ہے۔
امریکا کے بڑے جنگی ماہرین، برطانیہ فرانس کے جدید ترین ہتھیار اور ہزاروں ٹن بموں کو گرانے کے باوجود حماس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس کے ہزاروں فوجی شہید کیے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جن لوگوں کو اسرائیل نے مارا ہے ان میں شاید دو سو بھی حماس کے مجاہد نہ ہوں۔
کیونکہ 23 ہزار میں سے 9 ہزار تو فقط دودھ پیتے بچے ہیں۔
باقی 7 ہزار خواتین ہیں۔
باقی جو شہید ہوئے ہیں ان میں سے اکثر بوڑھے ہیں۔
لہذا اسرائیل نے اس عدد کو جان بوجھ حماس کا ذکر کیا ہے، تاکہ دنیا کے سامنے اپنی کامیابی دکھا سکے۔
لیکن اصل حقیقت خود اسرائیل بھی جانتا ہے کہ اس نے اب تک دو سو حماس کے مجاہد شہید نہیں کئے ہیں۔
جبکہ ہزاروں اسرائیلی فوجی کے ہلاک ہونے کا اعتراف خود اسرائیلی میڈیا نے کیا ہے۔
جبکہ 20 ہزار سے زائد اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔
اب جو فوج اس قدر ذلت کا سامنا کرے اور اس قدر نقصان پہنچے، اس فوجی اور اس ملک کے سربراہان کی کیا نفسیات ہوگی؟
اسرائیل کیلئے اصل خطرہ اب بھی باقی ہے۔ بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں کیا ہے۔
دوسرا پہلو:
اسرائیل اس پورے جنگ کو ایران کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ البتہ اس سے مراد یہ نہیں کہ موجودہ جنگ کا نقشہ ایران نے کھینچا ہو۔
ایران صرف مشاورت یعنی جنگی تربیت اور جنگی ٹریننگ دیتا ہے، اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ میزائل دیتا ہے۔ لیکن جنگ کا فیصلہ ایران نہیں بلکہ حماس خود ہی کرتے ہیں۔
لہذا یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ ایران کا کوئی بھی نیابتی گروہ نہیں ہے۔
حماس ہو یا حزب اللہ، یا حشد الشعبی ان میں سے کوئی ایک گروہ بھی ایران کا پراکسی نہیں ہے۔
ایران ان کے معاون و مددگار ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ ان کا سب کچھ ایران کا دیا ہوا ہے۔
جنگی وسائل سے لیکر جنگی تربیت تک۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لوگ ایران کی جنگ لڑرہے ہیں۔ بلکہ یہ اپنی جنگ لڑرہے ہیں۔ ایران صرف ان کی جنگ میں فوجی مدد پہنچاتے ہیں۔ اصل جنگ ان خطوں کی اپنی ہے۔
یہاں پر پراکسی وار کو بھی کھولتا جاوں۔
پراکسی وار سے مراد دو متصادم گروہ اپنی جنگ کو کسی اور خطے اور تیسرے گروہ کے ذریعے لڑے۔
تیسرا گروہ فقط ایک کرایہ کے ٹٹو کی حیثیت رکھتے ہوں۔
اس تیسرے گروہ کا اس جنگ میں اپنا کوئی مقصد نہ ہوں۔
حماس حزب اللہ اور حشد الشعبی تینوں اپنی جنگ لڑ رہے تھے۔ اس عزم کو عملی کرنے مین ایران یعنی انقلاب اسلامی کا بھرپور کردار ہے۔
موجودہ جنگ کا فیصلہ، حماس کا اپنا ہے۔ لیکن صرف فیصلہ کرنے سے انسان کہیں نہیں پہنچ سکتا۔
ابھی آپ مغربی کنارے کی طرف دیکھے وہاں ہر بھی فلسطینی آباد ہیں۔
وہاں کے لوگ بھی لڑنا چاہتے ہیں۔ ان کا بھرپور جذبہ ہے۔ حال ہی مین صالح صاحب کی شہادت پر وہاں کے لوگوں نے اظہار بھی کیا ہے کہ ہم جنگ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس اسلحہ نہیں ہے۔
لہذا فقط کسی قوم کا فیصلہ کرنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔
فیصلے کے ساتھ ان مقاصد تک پہنچانے والے اوزار کی ضرورت بھی ہے۔
جو مغربی کنارے کے لوگوں کے پاس نہیں ہے۔
پہلے غزہ کی بھی یہی صورتحال تھی۔ لہذا تمام مجاہدین پہلے پتھر مارتے تھے۔ پھر نوبت کلاشنکوف کی اگئی۔ پھر اگئے بڑھ کر خودکش حملے کی نوبت اگئی۔
بس اتنی ہی توانائی رکھتے تھے۔
لیکن اس توانائی کو بڑھانے والا درحقیقت رہبر معظم سید علی خامنہ ای اور شہید سلیمانی رح ہیں۔
لہذا فقط فیصلہ کافی نہیں بلکہ فیصلہ کے ساتھ اس فیصلے کو ہدف تک پہنچانے والے اوزار و الات کی ضرورت ہے۔
فقط فیصلہ کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
مغربی کنارے کے جوانوں نے بھی اسرائیل سے لڑنے کا عزم کیا ہے۔ لیکن کیا کرے؟
صرف پتھر یا پٹرول بوتلوں میں بھر کر اسرائیل گاڑیوں کے شیشے توڑتے ہیں یا انہیں اگ لگاتے ہیں۔ بس۔
لیکن اس فیصلے کو ہدف تک پہنچانے کا اصلی کام ایران نے انجام دیا ہے۔
لہذا اسرائیل خود نے بار بار اعتراف کیا ہے کہ اگر ایران حماس کے پیچھے نہ ہوتے تو ہم بہت پہلے حماس کا خاتمہ کیا ہوتا۔
بہرحال اسرائیل اس وقت حماس کے تابڑ توڑ حملوں سے پاگل ہوگیا ہے۔ اس کی آنکھوں میں خون اگیا ہے۔
اسرائیل کے ہزاروں فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں۔ لیکن ان فوجیوں پر حملہ کرنے والا چھوٹا گروہ حماس ان کے ہاتھوں نہیں آرہا۔
لہذا اپنے غم و غصے کا اظہار symbol of resistance شہید سلیمانی کے مقبرہ کے قریب حملہ کرکے دکھا رہے ہیں۔
جبکہ اس حملے کا ہدف ایرانی عوام انقلابی ہے۔ کہ ایرانی عوام کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اگر ایرانی حکومت یعنی ولایت فقیہ اور ان کے پیروکاروں، اسرائیل کے خلاف میدان جنگ میں رہے تو اس کا جواب ہم عوام کو دیں گے۔
وہی تاثر جو اسرائیل نے غزہ کے عوام پر حملہ کرکے دیا تھا کہ اس حملے کا اصلی زمہ دار حماس ہے۔
لہذا حماس اور عوام کو جدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ابھی یہی کام ایران میں چاہتے ہیں کہ ایرانی عوام کو ڈرانا کہ اگر تم اس حکومت کے ساتھ رہے تو تمہاری کوئی خیر نہیں۔ اس حملے کا اصلی زمہ دار ایرانی حکومت ہے۔
لہذا اس حکومت سے اپنا ناتا توڑو یعنی دوبارہ اس حکومت کو گرانے کا فیصلہ کرو۔
درحقیقت اس سطح کا عوام پر حملے کا ہدف درحقیقت عوام اور انقلابی حکومت میں دوری ایجاد کرنا ہے ، کہ جس کا نتیجہ حکومت اسلامی کے خلاف عوام کو اٹھانا ہے۔
درحقیقت اسرائیل، ایرانی عوام پر حملہ کرکے یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ اپنا دفاع کرنا چاہتے ہو، اس حکومت کو گراو۔
لہذا اسرائیل اب انقلابی عوام پر حملہ کرکے انہیں انقلاب سے دور کرانا چاہتے ہیں۔
وہی اسٹریٹجی جو غزہ میں اپنایا ہوا ہے کہ حماس کا بدلہ عوام سے لینا تاکہ عوام جن میں فہم کی کمی ہوتی ہیں فورا اس جنگ کا زمہ دار حماس کو قرار دے۔
ابھی ایرانی منافقین نے سوشل میڈیا پر یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ یہ اسرائیل میں مداخلت کا نتیجہ ہے۔
یعنی ایرانی حکومت نے غزہ میں حماس کو قوی کیا ہے۔
لہذا اسرائیل اس کا بدلہ ایرانی عوام سے لے رہا ہے۔
لہذا اسرائیل فقط ایک حملے پر اکتفاء نہیں کریں گے۔ بلکہ نظریہ شوک یعنی جب بھی کسی قوم کو کسی نظریہ کو باور کرانا ہے تو اسے معمولی طریقے سے نہیں باور کرایا جاسکتا بلکہ اسے شوک دینے کی ضرورت ہے۔
شدید جھٹکا لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے سامنے ایک دو جنازے نہیں بلکہ ہزاروں جنازے پڑے ہوں۔
یہ درحقیقت نظریہ شوک کا دہشتگردانہ پہلو ہے۔
اگرچہ اقتصادی طور پر بھی اس کا انطباق ہوتا ہے۔ لیکن جنگی میدان میں یہ کام زیادہ پیمانے پر کیا جاتا ہے۔
غزہ میں اسی تناظر میں اسرائیل نے قتل عام کیا۔ اب ایران میں بھی اسی پیمانے پر یہ کام کرنا چاہتا ہے۔
آج فلاں۔ کل فلاں، اس قدر شدید حملہ ہوں کہ عوام پر ذہنی جھٹکا لگے۔ عوام کو سوچنے پر مجبور کرے۔ عوام اپنی زندگی کیلئے حکومت کے خاتمے پر سوچنے پر مجبور ہوں۔
البتہ اسرائیل کیلئے ایران میں نظریہ شوک کو اجراء کرنے میں کافی دشواری ہوسکتی ہے۔
کیونکہ جب اسرائیل ایرانی عوام کو یہ تاثر دینا چاہے تو ایرانی تھینک ٹینک بھی اس ہدف کو دریافت کریں گے اور قوی جاسوسی سسٹم کے ذریعے ناکام بنائیں گے۔
ایران نے اب تک اس کام کو ناکام بنا کر رکھا ہوا ہے۔
تجزیہ و تحلیل کا دوسرا پہلو
اس دہشتگردانہ کاروائی کا دوسرا مقصد درحقیقت، اسرائیل کی اس خفت کو مٹانا ہے، جو اس نے حماس کے ہاتھوں 8 اکتوبر کو اٹھایا تھا۔
درحقیقت پوری میں اسرائیلی خفیہ انٹیلیجنس ایجنسی موساد کی برتری کا رعب تھا۔ دنیا کا پہلا نمبر رینک کا سپر جاسوسی ادارہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن 8 اکتوبر میں اس کی یہ حیثیت ختم ہوگئی۔
دنیا پر یہ واضح ہوگئی کہ اسرائیلی جاسوسی ادارہ کچھ بھی نہیں۔
اس کا خوف و رعب و دبدبہ سارا فنا ہوگئے۔
اس کی عالمی حیثیت زیرو ہوگئی۔
کیونکہ موساد اپنے بغل میں موجود اسرائیل ہونے والے سب سے تاریخی کاروائی کے بارے میں بے خبر تھی۔
ہزاروں جوان رات بھر پانچ ہزار میزائل جابجا کرتے رہے۔
1500 جوان اسرائیل کے اندر وارد ہوئے۔ لیکن اسرائیلی موساد کو صبح حملے ہونے کے بعد پتہ چلا۔
اس قدر بے خبر کی اپنے ہی ہیلی کاپٹر سے اپنے ہی 1000 لوگوں کو مار دیا۔
یہ درحقیقت اسرائیل کی سب سے بڑی جاسوسی شکست تھی۔
دنیا کے سامنے اس کا پول کھل گیا کہ اسرائیلی موساد اور اسرائیلی فوجی کچھ بھی نہیں۔
درحقیقت اسرائیل نے ایران کے اندر کاروائی کرکے دوبارہ اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔
دنیا کو یہ پیغام دینا چاہا ہے موساد اگرچہ حماس حملے میں ناکام ہوا ہے، لیکن اب بھی دنیا کے ٹاپ لیول کے انٹیلیجنس ایجنسیوں پر جیتنے کی توانائی رکھتی ہے۔
ایرانی انٹیلیجنس ایجنسی بھی ایک قوی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔
کیونکہ ایران کے اتنے دشمن ہونے کے باوجود ایران کے اندر امنیت برقرار رکھنا، خود اس کی بڑی دلیل ہے۔
اگرچہ کبھی کبھار اس طرح کی کارروائی ہوتی ہے، لیکن بڑی سطح ہر کاروائیاں ناکام بنا دیتے ہیں، لہٰذا ایرانی انٹیلیجنس ایجنسی کو مات دینا یعنی اپنی قدرت و برتری کو دکھانا ہے۔
درحقیقت ملک کے اندر دہشتگردی کے خاتمے کا اصلی زمہ دار ملکی سیکیورٹی ایجنسیاں ہوتی ہیں۔ کیونکہ وہ آنکھ اور کان ہوتے ہیں۔
جب بھی ملک میں کوئی دہشتگردانہ کاروائی ہوتی ہے، درحقیقت عوام کی شہادتوں کے ساتھ، اس ملک کے ایجنسیوں کی ناکامی بھی ہوتی ہے۔
یاد رہے یہ دونوں فردی تجزیہ و تحلیل ہے، لہٰذا ایران یا کسی اور کا کوئی رسمی بیان نہیں۔