0

گرو نانک کی تعلیمات اور اسلام

تحریر : محمد جواد حبیب

گرو نانک دیو جی کی تعلیمات اور اسلام کے درمیان مشترکہ اقدار اور اخلاقی اصولوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ گرو نانک دیو جی کی تعلیمات، جو سکھ مت کی بنیاد ہیں، اور اسلام، جو امن و محبت کا پیغام دینے والا مذہب ہے، دونوں ہی انسانیت، انصاف، اور وحدتِ الٰہی کی بات کرتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں میں سماجی برابری، امن و آشتی، اور خدمتِ خلق کی اہمیت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ مقالہ دونوں نظاموں میں پائی جانے والی مماثلتوں اور ان کے معاشرتی اثرات کا تجزیہ کرتا ہے۔

تعارف
گرو نانک دیو جی (1469–1539) سکھ مت کے بانی اور پہلے گرو ہیں۔ ان کی تعلیمات انسانیت کی خدمت، اخلاقی کردار، اور الٰہی وحدت کے گرد گھومتی ہیں۔ گرو نانک کا پیغام مذہبی رواداری اور انسان دوستی کا پیغام ہے۔ دوسری طرف، اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو پیغمبر محمد ﷺ کے ذریعے دنیا تک پہنچا۔ اسلام بھی انسانیت، امن، اور محبت کی تعلیم دیتا ہے۔ دونوں نظام ہائے فکر کے درمیان مماثلتیں اور مشترکہ اقدار موجود ہیں، جو انسانیت کے لیے ایک روشن مثال ہیں۔

1. وحدتِ الٰہی: اللہ اور ایک اونکار
گرو نانک کی تعلیمات کا سب سے بنیادی اصول “ایک اونکار” (خدا ایک ہے) کا تصور ہے۔ گرو نانک کے نزدیک خدا واحد ہے، جو تمام کائنات کا خالق اور نگہبان ہے۔ سکھ مت کی مقدس کتاب، گرو گرنتھ صاحب، کا آغاز بھی انہی الفاظ سے ہوتا ہے، جس میں خدا کی وحدت اور ہمہ گیری کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح، اسلام میں توحید (خدا کی وحدانیت) کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
“کہو: وہ اللہ ایک ہے۔” (القرآن 112:1)

اسلام اور گرو نانک دونوں کی تعلیمات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ خدا واحد ہے اور سب سے عظیم ہے، اور وہ کسی بھی مخلوق یا چیز سے محدود نہیں۔ یہ تصور انسان کو خدا کی وحدت اور اس کی تخلیق میں موجود ہم آہنگی کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔

2. نام جپو اور ذکر الٰہی
گرو نانک نے اپنی زندگی میں “نام جپو” یا خدا کا ذکر کرنے پر زور دیا۔ ان کے مطابق، خدا کے نام کو جپنا (ذکر کرنا) انسان کو خدا کی قربت میں لے جاتا ہے اور دل کی صفائی کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح، اسلام میں ذکر اور عبادت خدا سے تعلق مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں۔ قرآن میں اللہ کی یاد کو دلوں کے اطمینان کا سبب کہا گیا ہے:

“خبردار! دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر سے ہوتا ہے۔” (القرآن 13:28)
دونوں تعلیمات میں خدا کی یاد کو زندگی کا مقصد اور حقیقی خوشی و سکون کا ذریعہ سمجھا گیا ہے۔

3. کرت کرو اور حلال روزی
گرو نانک کی تعلیمات میں “کرت کرو” یعنی ایمانداری سے کام کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ گرو نانک کے مطابق، معاشرتی زندگی میں دیانتداری اور محنت سے روزی کمانا انسان کا فرض ہے۔ اسلام میں بھی محنت اور ایمانداری سے روزی کمانے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ “حلال روزی کمانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔” گرو نانک اور اسلام دونوں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ معاشرتی بھلائی اور خوشحالی ایمانداری اور محنت سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

4. وند چھکو اور صدقہ و خیرات
گرو نانک نے “وند چھکو” یعنی دوسروں کے ساتھ بانٹ کر کھانے کا درس دیا۔ ان کے مطابق، معاشرتی مساوات اور محبت اسی وقت ممکن ہے جب لوگ اپنی نعمتیں دوسروں کے ساتھ بانٹیں۔ اسی طرح، اسلام میں صدقہ، زکات اور خیرات کی تاکید ہے، جس کا مقصد معاشرے میں برابری اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

“اور وہ اپنے مال اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو دیتے ہیں۔” (القرآن 76:8)
اسلام اور گرو نانک دونوں کی تعلیمات میں سماجی انصاف اور غریبوں کے حقوق کا احترام کیا گیا ہے تاکہ معاشرتی امن اور بھلائی کو فروغ دیا جا سکے۔

5. انسانیت اور مساوات
گرو نانک کی تعلیمات میں انسانیت کی بنیاد پر تمام انسانوں کو برابر سمجھا گیا ہے۔ انہوں نے ذات پات اور نسل پر مبنی فرق کو رد کیا اور کہا کہ خدا کے نزدیک سب انسان برابر ہیں۔ اسلام بھی مساوات کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
“لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور گروہ بنائے تاکہ تم پہچان سکو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔” (القرآن 49:13)
دونوں نظام مساوات اور بھائی چارے کو فروغ دیتے ہیں اور ہر انسان کو عزت و احترام کے قابل سمجھتے ہیں۔

6. خدمت خلق اور انسان دوستی
گرو نانک کی تعلیمات میں خدمت خلق کو خدا کی عبادت کا اہم جزو سمجھا گیا ہے۔ گرو نانک کے مطابق، حقیقی دینداری کا مظاہرہ دوسروں کی خدمت سے ہوتا ہے۔ اسلام میں بھی خدمت خلق کو ایک عظیم نیکی سمجھا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ “تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، پس اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اللہ کے کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔”

نتیجہ
گرو نانک دیو جی کی تعلیمات اور اسلام کے درمیان نمایاں مشترکہ اقدار موجود ہیں جو انسانیت، محبت، اور انصاف پر مبنی ہیں۔ ان دونوں نظام ہائے فکر نے انسانوں کو خدا کی معرفت اور روحانیت کے حصول کا راستہ دکھایا ہے۔ ان کی تعلیمات انسان کو خود شناسی، دوسروں کی خدمت، اور مساوات پر مبنی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ دونوں نے مذہبی رواداری اور انسان دوستی کو فروغ دینے پر زور دیا تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جو امن، محبت، اور انسانیت پر مبنی ہو۔

حوالہ جات
1. قرآن مجید
2. گرو گرنتھ صاحب، سکھ مت کی مقدس کتاب
3. ابن خلدون، مقدّمہ
4. امام غزالی، احیاء علوم الدین
5. سید حسین نصر، اسلامی فلسفے کا تعارف

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں