کیا فلسطین جائے بغیر دشمن کو شکست دی جاسکتی ہے
تحریر : بنت فلسطین
دشمن کی ناکامی کا رونا اور بلبلاہٹ رہبر کی بات کی تائید نظر آتی ہے کہ نوجوان طبقہ سوشل میڈیا کے صحیح استعمال کے ذریعے دشمن کے منہ پہ کاری ضرب لگا سکتا ہے۔
آج سے کچھ عرصے پہلے میں نے رہبر معظم سید علی خامنہ ای کا ایک بیان سنا تھا جس میں وہ فرما رہے تھے کہ سوشل میڈیا ذریعہ بن سکتا ہے دشمن کے منہ پہ کاری ضرب لگانے کا۔۔۔۔
اس وقت تو یہ بات سمجھنا مشکل لگ رہا تھا لیکن اب دشمن خود اس بات کا اقرار کرتا نظر آرہا ہے کہ سوشل میڈیا اور عوامی سطح پر بڑھتے شعور نے اسرائیل کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔
دشمن کے لئے سوشل میڈیا ایک بڑا محاذ اور چیلنج بن چکا ہے کیونکہ یہ ایک یونیورسل نیٹ ورک ہےاور یہ ڈیچیٹل نیریٹو بتا رہا ہے۔لوگ اچھائی اور برائی کی علامت کا خود تجزیہ کر رہے ہیں برائی اچھائی کا لبادہ اوڑھے بھی تو کیسے؟…. کچھ بھی خفیہ نہیں رہا اور لوگ ظالم اور مظلوم کی سرگوشیاں بھی سن رہے ہیں۔۔۔۔۔
گزشتہ دور میں میڈیا تو ان کے کنٹرول میں تھا لیکن اب یہ سوشل میڈیا کے آگے بے بس دیکھائی دیتے ہیں ۔۔۔۔پوری دنیا میں مظاہرے ،ریلیز اور نعرے آخر یہ شور شرابا کیسے اور کیوں ہے؟
جس نے دشمن کو مجبور کردیا ہےاس محاذ پہ ناکامی کا رونا رونے کے لئے ۔۔۔۔۔
یعنی اس سوشل میڈیا کے محاذ نے دشمن کے منہ پہ کاری ضرب لگائی ہے
امریکہ کے تعلیمی اداروں اور یہاں تک کہ خود یہودی بھی اب سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔
اب سجھ آیا کہ کس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے صحیح بات دنیا میں پہچا کر ہم بھی مظلومین فلسطین کے ساتھ محاذ میں شامل ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔دشمن کی ناکامی کا رونا اور بلبلاہٹ رہبر کی بات کی تائید نظر آتی ہے کہ نوجوان طبقہ سوشل میڈیا کے صحیح استعمال کے ذریعے دشمن کے منہ پہ کاری ضرب لگا سکتا ہے۔
اگر اب بھی ہم گونگے شیطان بن جائیں اور ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے نہ حق بات کہیں اور نہ سنیں تو قیامت کے دن ضرور جواب دہ ہونگے کیونکہ یہ وہ محاذ تھا جس کے لئے نہ مال و اسباب کی ضرورت تھی نہ پاسپورٹ ویزے کی۔۔۔۔۔۔
خدا ہمیں حقوق الناس کی ادائیگی کی توفیق دے اور ہم مظلوم فلسطینوں کے لئے دشمن کے منہ پہ کاری ضرب لگانےمیں مددگار ثابت ہوں ۔۔۔۔۔۔
غلط شکوک وشبہات کو دور کریں اور لوگوں تک حق بات پہچائیں۔۔۔۔
اللہم عجل لولیک الفرج