0

’’کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا‘‘ سے مراد حق و باطل کے معرکہ کا استمرار

اس جملے سے مراد حق و باطل کے معرکہ کا استمرار ہے جو ہر زمانے میں حسینیوں اور یزیدیوں کے درمیان جاری ہے اور رہے گا”۔

تحریر: محمد ہادی ولایتی

“کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا” حدیث معصوم نہیں ہے، البتہ بقول حضرت امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک سبق آموز جملہ ہے جس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہر زمین مقام و منزلت کے اعتبار سے کربلا ہے یا ہر دن غم و حزن کی کیفیت کے اعتبار سے عاشورا ہے جس زمین پر انبیاء، آئمہ، اولیاء اور ملائکہ نازل ہوتے ہوں اور جس دن کے غم و حزن نے اہلبیت علیہم السّلام کی پلکوں کو زخمی کردیا ہو نہ اس جیسی کوئی زمین ہو سکتی ہے نہ اس جیسا کوئی دن ہو سکتا ہے۔

“اس جملے سے مراد حق و باطل کے معرکہ کا استمرار ہے جو ہر زمانے میں حسینیوں اور یزیدیوں کے درمیان جاری ہے اور رہے گا”۔

بقول جوش ملیح آبادی:

مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار

اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ انتشار

پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یار

پھر کربلائے نو سے ہے نوع بشر دو چار

اے زندگی جلال شہ مشرقین دے

اس تازہ کربلا کو بھی عزم حسینؑ دے

اسی سبب سے اس جملے کا امام حسن علیہ السلام کے جملے “لا یوم کیومک یا ابا عبد اللہ” سے کوئی تعارض اور ٹکراؤ نہیں ہے کیونکہ دونوں جملے الگ الگ جہات پر ناظر ہیں اور تعارض کے لئے اتحاد جھت شرط ہے۔

اگر اس ٹکراؤ کو تسلیم کرلیا جائے تو ہر سال 10 محرم کو بھی عاشورا نہیں کہا جاسکے گا کیونکہ امام حسن علیہ السلام کے جملے میں “یومک” سے مراد “10 محرم 61 ھجری” ہے اور بس!

مؤمنین سے گزارش ہے کہ افراط و تفریط سے گریز کریں نہ اس جملہ کو حدیث معصوم کے طور پر پیش کریں اور نہ ہی امام حسن علیہ السلام کے جملے سے متعارض سمجھیں۔

تمام عزاداروں کی عزاداری بارگاہِ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا میں مورد قبول واقع ہو اور دنیا اور آخرت میں ان کا لطف و کرم ہم سب کے شامل حال رہے۔

(حوزہ نیوز )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں