کشمیری زبان کا آغاز و ارتقا
تالیف و ترتیب : ملک ظہور مہدی کشمیری
المشتہر : حضرت مرزا ابولقاسم رحمتہ اللہ علیہ میموریل مشن اور پیام انٹرنیشنل
کشمیری وہ زبان ہے جو وادی کشمیر کے لوگ اکثریت سے بولتے ہیں۔ وادی کے لوگ ان کو ’’کو شر‘‘ اور اپنے وطن ــکشمیر کو’’کشیر‘‘کہتے ہیں۔ وادی کے رہنے والے کو ’’کا ئشر‘‘کہا جاتا ہے۔ جو لوگ وادی کے چاروں طرف پہاڑوں کے اندر رہتے ہیں۔
وادی کشمیر کے علاوہ کشمیری زبان صوبہ جموں کے ضلع ڈوڈہ اور ضلع پونچھ کی کئی علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ ریاست کے آزاد شدہ علاقوں میں بھی کشمیری زبان بولنے والے موجود ہیں چنانچہ مظفرآباد چکار، ہٹیاں، باغ، پلنگی، بھیڈی، وادی نیلم، کہوڑی، مچھیارہ، سکردو اور گلگت میں بھی کشمیری زبان بولنے والے موجود ہیں۔یہ کیفیت 1947ء سے پہلے کی ہے۔وادی کشمیر کے جو لوگ انیس سو سینتالیس کے دوران اور اس کے بعد مہاجر ہوئے اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے وہ بھی کشمیری بولتے ہیں۔سب سے پہلی لکھی ہوئی کتاب جس میں کشمیری کے الفاظ آتے ہیں پنڈت کلہن کی راج ترنگنی ہے۔ یہ کتاب کشمیر کی تاریخ ہے جو سنسکرت میں لکھی گئی تھی لیکن اس میں کلہن نے کشمیری کے چند الفاظ بھی لکھے ہیں۔ کشمیری زبان بھارت اور پاکستان کی ایک اہم زبان ہے۔ کشمیری، جموں صوبے کے بانہال، رامبن اور بھدرواہ میں بھی بولی جاتی ہے۔ جہاں پر کل ملا کر بولنے والوں کی تعداد تقریباً 15 لاکھ سے کچھ اوپر ہے۔
پرانی تہذیب:
بہ مطابق 2011ء آبادی شماری جموں و کشمیر کی کل آبادی تقریباً 12541302 ہے۔ جس میں کم و بیش تقریباً 9567000 کشمیری زبان بولنے والے افراد ہیں۔ کشمیری زبان کی تاریخ کافی پرانی تہذیب کا احاطہ کیے ہوئے ہے جس کے علمی ثبوت سینکڑوں سال سے زائد پرانی ہیں۔ کشمیر میں ہندو، سکھ، افغانی، مغلیائی، ڈوگری اور خاص کر ایرانی زبان کے الفاظ وقت کی گردش کے ساتھ شامل ہوتے رہیں اور رسم الخط بھی تبدیل ہوتا رہا۔
موجودہ دور:
موجودہ دور میں کشمیری زبان کا رسم الخط فارسی زبان کے مطابق ہے۔ 1947ڈوگرا شاہی کے زوال کے ساتھ ہی کشمیری زبان نے اپنے عروج کو پانا شروع کیا اور کئی معتبر مصنف ادیب اور شاعر کشمیری زبان میں منظر عام پر آئے۔ تقسیم ہند کے بعد جو سماجی تبدیلیاں برصغیر میں رونما ہوئیں، اس کی لپیٹ میں کشمیری زبان بھی آگئی ۔کشمیری زبان کشمیر کے دونوں حصوں یعنی آزاد کشمیر جو پاکستان کے زیر قبضہ ہے اور کشمیر جو ہندو ستان کے زیر قبضہ ہے میں کشمیری زبان کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔
فردوس بر بروئے:
وطن کے تعلق سے اہل وطن جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔جیسے روس کے باسی روسی، چین کے باسی چینی، پاکستان کے باسی پاکستانی ، اسی نسبت سے کشمیر میں رہنے والے کو کشمیری کہا جاتا ہے۔ کشمیری زبان جیسے اہل زبان کو ”کوشر“ کہتے ہیں۔ تواریخی مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ آج سے تقریباً چار ہزار سال قبل یہ وادی ایک جھیل تھی پھر جب یہ جھیل خشک ہوئی تو یہ علاقہ سرسبز و شاداب نظر آنے لگا جس وجہ سے اسے”فردوس برروئے“ زمین کہا جانے لگا۔
کشمیری زبان کا جنم:
جب مختلف علاقوں سے یہاں قبائل آباد ہوئے تو یہ قبائل”درد آریائی“زبان بولتے تھے یعنی شینا، بلتی، چترالی، بروشکی، کوہستانی وغیرہ وغیرہ، چنانچہ مختلف قبائل کے میل جول اور باہمی معاشرت کے نتیجہ میں کشمیری زبان وجود میں آئی۔ محققین کے نزدیک کشمیر میں آج سے کہی سو سال پہلے کشمیری زبان نے جنم لیا۔ گویا یہ زبان تیسری صدی عیسوی کی دین ہے۔ کشمیری زبان بھارت اور پاکستان میں کثرت سے بولی جانے والی زبان ہے۔
ترویج:
کشمیری زبان بولنے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔کشمیری پنڈت اور سکھ قوم بھی کشمیری زبان بولتے ہیں مگر اصل میں یہ زبان کشمیری مسلمانوں سے ترویج پا رہی ہے۔ کشمیری زبان کی تاریخ کافی پرانی ہے اور اس کے علمی ثبوت بھی سینکڑوں سال پرانی ہیں۔ کشمیری زبان کا موجودہ رسم الخط فارسی زبان کے مطابق ہے۔ 1947ء کے بعد جب ڈوگرہ شاہی کو زوال ہوا تو کشمیری زبان نے وادی کشمیر میں اپنے پیر جمانہ شروع کیا اور کئی معتبر مصنف و ادیب اور شاعر منظر عام پر لائے۔کشمیری زبان کی ابتدا بھی باقی زبانوں کی طرح شاعری سے ہوئی۔
کشمیری ادب کے چار ادوار:
کشمیری شاعری و ادب کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے دور میں عشق ومحبت کے قصے ہیں۔ اس دور میں گیت کثرت سے لکھے گئے۔ اس دور کا نمائندہ شاعر”شستی کنٹھ“ہے، اسے کشمیری زبان کا پہلا شاعر بھی کہا جاتا ہے۔
دوسرا دور (1335ء) عشق و محبت کا دور ہے جس کی نمائندہ شاعرہ حبہ خاتون ہیں۔ اس کی شاعری میں اسلامی تصوف کے ساتھ وصل و ہجر کے رنگ نظر آتے ہیں۔
تیسرا دور (1422ء) فارسی کی آمیزش کا دور ہے۔ اس دور میں روحانیت کا عنصر پایا جاتا ہے اس کے روح رواں“محمود گامی”ہیں۔ اس دور میں شیعہ برادری کے مایہ نازعقیدتی شعراء بھی نمایاں تھے جنہوں نے اپنی شاعری کا فن لوگوں کے دلوں میں بسایا۔ جس میں قابل ذکر مایہ ناز اسم گرامی ،جلیل القدرعالم، عمدہ قلمکار، ہمدردان ملت شیعہ، رئیس مصنفین،فصیح البیان عالم دین، عاشق سید الرسلین ؐ خاتم نبئین، محب اہلبیت رسول ؑ علمدار ولادت امیر المومنین امام المتقین حضرت امام علی مرتضی ؑ، خورشید کشمیر، حضرت مرزا ابولقاسم طاب ثرہ کا اسم گرامی سر فہرست ہے۔ اس دور میں کشمیری ادب نے پہلے سے بہتر ترقی پائی۔
کشمیری زبان و ادب کا چوتھا دور (1848ء) جدید ادب کا ہے۔اس دور کے ادب نے نئے فکری رجحانات پیدا کیے۔ اس دور کا مشہور شاعر“غلام احمد مہجور ” کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان کی ایک صوفی شاعرہ للّہ عارفہ(للّہ دید ایک عارفہ تھی اس لیے مسلمان انہیں للّہ عارفہ کہتے ہیں جو سید حسین سمنائی کے ذریعے مسلمان ہوئی) ہیں۔ جیسے اہل کشمیر”لل ماج”اور ہندو“لل ایشوری“کے نام سے پکارتے ہیں۔اس کے گیت اس دور کے ہر بچے کے زبان پر تھے۔اس نے بت پرستی کے خلاف آواز اوٹھائی اور توحید کا درس دیا۔ کشمیری زبان کی دوسری شہرہ آفاق شاعرہ حبہ خاتون ہیں۔ حبہ نے کشمیری زبان میں غزل کو روشناس کروایا۔حبہ کے علاوہ نورالدین رشی، محمود گامی، رسول میر، غلام احمد مہجور، عبدالاحد آزاد، شمس فقیر جیسے عظیم شاعروں نے کشمیری زبان کے ادب کو عروج بخشا۔
تقسیم ہند کے بعد جو سماجی تبدیلیاں برصغیر میں رونما ہوئیں، اس کی لپیٹ میں کشمیری زبان بھی آ گئی، جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت ریاست جموں و کشمیر کی سرکاری زبان کشمیری کی بجائے اُردو قرار دی گئی اور بات کروں میں اگر مقبوضہ وادی کی وہاں بھی ایسی ہی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ آزادکشمیر میں کشمیریات کا شعبہ تنزلی کی طرف بڑھ رہا ہے اور آزادکشمیر کی اکثریتی آبادی کشمیری زبان سے لا علم ہے۔پروردگار کے فضل سے چند ماہ قبل گوگل نے کشمیری زبان کو قبول کرکے کشمیری زبان کو اپنے اندر شہریت دی۔ آج اکیس فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ہمیں چاہیے کہ اس دن کے حولے سے اپنی مادری زبان کو عام کریں جس کے لئے ہم سب کی کوششیں درکار ہے۔