0

کربلا کی جنگ میں امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں بہتر کی تعداد کیوں؟

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیں
فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں
جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہو سلیم
اہل حق ہوں تو بہتر بھی غضب ہوتے ہیں

دین کی محافظت و مقاومت کے لئے نہ تو کوئی عمر کی حد ہے اور نہ ہی جنس کی قید۔ کربلا کے شہید اور کوفہ و شام کے اسیر اس بات کے گواہ ہیں۔ یہ سوال ہر عام و خواص کے ذہن میں آتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں صرف بہتر ہی کیوں شامل ہیں۔ اس سوال کے حل کے لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ و تفاسیر، احادیث پاک، آئمہ اطہار علیہم السلام کے اقوال و فرمودات، مقاتل اور کربلا کے واقعات و شہداء کے حوالے سے لکھی گئیں کتابوں کا تحقیقی مطالعہ ناگزیر ہے۔
سب سے پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام کے ان آفاقی و ابدی جملے کو ذہن نشین کرنا لازمی ہے کہ سید الشہداء نے فرمایا کہ جیسے اصحاب مجھکو ملیں ویسے اصحاب نہ میرے نانا ﷺ ، نہ میرے بابا علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام اور نہ میرے بھائی، حسن مجتبٰیؑ کو ملے!
ہر باشعور افراد کے ذہن میں یہ بات آتی ہے، پڑھا گیا ہے اور سنا جاتا ہے کہ جنگوں میں ہزاروں لاکھوں افراد پر مشتمل لشکر ہوتا ہے۔ یہ سوال ذہنوں میں کچوچے مارتا ہے کہ جب لشکر کا سردار فاتح خیبر، حیدر کرار کا فرزند ایک جنتی سرداری کر رہا ہو تو اس کے لشکر کی تعداد تو اتنی زیادہ ہونی چاہئے تھی کہ وہ بے شمار ہوتا۔ لیکن یہ بات عام و خواص کو غور کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ جب نواسہ رسول ﷺ ، پارہ بتول اور فرزند امیرالمومنین حضرت امام حسین علیہ السلام جب حق پر تھے تو ان کے لشکر کی تعداد کم کیوں تھی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام حسینؑ کے لشکر کی تعداد کم نہ تھی بلکہ اپنے نوعیت کا اور ان صفات، عظمت و کمالات کے حامل اہل حق کا کائنات کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔
بہتر کی تعداد کم تصور نہ کیا جائے۔ ایسا اس لئے کہ اگر حق پر ایک بھی ہو تو اسے کم نہ سمجھا جائے کیونکہ قرآن حکیم کہتا ہے “اکثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑی بڑی جماعتوں پر حکم خدا سے غالب آ جاتے ہیں۔” حق کا معیار اکثریت نہیں ہے کیونکہ حق نہ تو تعداد کا محتاج ہے اور نہ ہی شخصیات کا، لہٰذا حق کو تعداد یا شخصیات سے کبھی بھی پہچانا نہیں جاتا۔ حق کا اپنا مزاج ہےاُس کو اسی مزاج، معیار، میزان و طریقہ کار سے سمجھا و پہچانا جاتا ہے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر۔
اب ایک نہایت اہم نکتہ کی وضاحت ضروری ہے کہ کربلا سے پہلے حق و باطل کے جتنے معرکے ہوئے، وہاں حق پرست اگرچہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جاتے تھے، مگر ایک بات ان کے ذہن میں ہوتی تھی کہ وہ فتح مند ہوں گے اور وہ زندہ سلامت اپنی قوم و قبیلے میں واپس آجائیں گے۔
اس سے حقیقت آشنا ہونا ہی ہوگا کہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے پاس بہتر افراد کا ایسا لشکر تھا جس کے کسی فرد کے زندہ بچ جانے کی کوئی امید نہ تھی، اور نہ ہی ان میں سے کوئی زندہ واپس جانے کے لئے کربلا کا سفر اختیار کیا تھا۔ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جس اپنے ساتھ اپنے بچوں اور خواتین بھی اپنے ہمراہ کربلا لائے تھے مگر ان یتیمی کا خوف بھی انہیں موت سے خوفزدہ نہ کر سکا۔ ان کی نظر میں موت شہد سے زیادہ شیریں تھی، موت ان پر آئے یا وہ موت پر ٹوٹ پڑیں، کوئی اہمیت نہیں تھی، چاہے وہ ستر بار ہلاک کئے جائیں، زندہ کئے جائیں، کوئی غم نہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنے اور ان پر حملے کرتے رہیں۔
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں شہادت حاصل کرنے کے لیے کیا جوش، ولولہ اور اسے نوش فرمانے کی چاہت تھی بلکہ ایک دوسرے پر سبقت کے لئے آمادہ تھے۔ اس ماحول سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ انتظار میں تھے کہ جونہی میدان جنگ میں تلواریں چلیں گی تو انہیں اپنے امامؑ کی نصرت میں شہادت کی موت ملے گی جس کی خوشخبری گزشتہ شب امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو دی تھی، وہ لوگ شہادت کے منتظر تھے۔ امام حسین علیہ السلام اپ ے اصحاب کی یہ حالت اور کیفیت دیکھ کر امامؑ نے انہیں کائنات کا بزرگ ترین صحابہ قرار دیا تھا اور انہیں دعا دیتے فرمایا تھا “میں نے اپنے اصحاب سے بہتر اصحاب کہیں نہیں دیکھے اور نہ کسی کے اہل خانہ کو اپنے اہل بیت سے زیادہ باوفا اور حق شناس پایا۔ خدا آپ سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا کرے!”
مندرجہ بالا تشریح و وضاحت سے عیاں ہوتا ہے کہ یہ حق پرستوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ ایسے بہتر افراد کا یکجا جمع ہو جانا یقیناً ایک بڑی تعداد تھی۔ امام حسین علیہ السلام کی معرفت رکھنے والے اور جانثار کرنے والے یہی اکہتر 71 تھے بلکہ ایسے افراد کی تعداد زیادہ تھی لیکن چند وجوہات کی وجہ سے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مزید افراد پہنچ نہیں سکے اور آپ کے ساتھ شامل نہ ہو سکے، جیسے محمد بن حنفیہ امام حسینؑ کے سگے بھائی تھے امام حسینؑ کو حق سمجھتے تھے لیکن کچھ ذمہ داریوں کی وجہ سے اُنہیں مدینہ میں رُک گئے تھے لیکن ان کی جگہ ان کے بیٹوں، عون و محمد کو امام حسینؑ کی نصرت کے لئے کربلا بھیجا تھا۔ علاوہ ازیں، آپ مے ماننے والے کی تعداد بصرہ و کوفہ میں تھی لیکن انہیں یزیدی لشکر نے قید کر لیا، شہید کر دیا اور کربلا جانے والے راستوں پر زبردست پہرہ بیٹھا دیا۔ سیاسی، جغرافیائی اور ذرائع ابلاغ کا اثر نمایاں رہا۔ قارئین اس واقعہ سے بھی اندازہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عصر عاشور شہادت کے بعد سیدانیوں کو بے مقنہ و ردا بازار کوفہ سے گزارا گیا تو آپ لوگوں کو وہاں موجود عورتوں سے پہچانا بھی نہ گیا۔ امام حسینؑ کو کربلا پہنچنے سے قبل مسلم بن عقیل، سلیمان بن رزین، قیس ابن مسہر اور ہانی بن عروہ جیسے اہم افراد کو شہید کر دیا تھا۔ کوفہ اور آس پاس کے علاقوں سے امام حسینؑ کے حامیوں کو بہت بڑی تعداد میں گرفتار کر لیا گیا تھا، انہیں جیلوں کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تاکہ وہ امام حسینؑ کی نصرت نہ کر سکیں، کوفہ اور اُس کے آنے جانے والے تمام راستوں پر ناکہ بندی کر دی گئیں تھیں۔ امام حسین علیہ السلام کی آمد کا بھی لوگوں کو ٹھیک سے خبر نہ پہنچ سکی، اطلاع رسائی کے قابل اعتماد وسائل نہ تھے۔ کربلا ‘مکہ و کوفہ’ سے ہٹ کر واقع تھا اور غیر معروف جگہ تھی۔
ایک بات اور قابل تحریر اور توجہ ہے کہ واقعہ کربلا انسانی تاریخ کا واحد و منفرد واقعہ نہیں کہ جہاں اہل حق کم تعداد میں تھے بلکہ طول تاریخ میں جب بھی باطل، حق کے مقابلے میں آیا ہے تو حق پرست کم ہی تھے۔ حضرت نوحؑ نے اپنی قوم میں 950 سال تبلیغ کی مگر ان کے ماننے والے کم تھے اور انکار کرنے والے زیادہ۔ قارئین جان کر یہ حیران ہوں گے کہ کئی سو سال تبلیغ کے بعد بھی ایمان لانے والوں کی تعداد محض 18 بیان ہوئی ہے۔ صرف حضرت نوحؑ کی بات نہیں ہے بلکہ زیادہ تر انبیاء کے ماننے والے کم اور انکار کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر غزوہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ صرف 313 جانثار صحابی تھے جبکہ ان کے مقابلے میں کم و بیش کئی ہزار کا لشکر تھا۔ رسول اکرم ﷺ نے تیرہ سال مکہ میں تبلیغ کی پھر بھی آپؐ کے اصحاب کم اور جانی دشمن زیادہ تھے اور اتنا ظلم و ستم کیا کہ آپؐ کو مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنا پڑا۔ آپؐ کے 23 سالہ تبلیغ کے بارے میں قرآن مجید نے بھی یہی بتایا تھا کہ “آپ مشقتوں اور کوششیں کے باوجود بھی زیادہ تر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔” یہ بھی کتابوں میں درج ہے کہ جب وارث رسولؐ امام زمانہ عجل کا ظہور ہوگا تو آپؑ کے اصحاب کی تعداد 313 ہوگی۔
کربلا کا مقصد اور پیغام یہی ہے کہ ہم اس کے اصولوں کو اپنے اوپر نافذ کریں اور عملی میدان اور اہل حق کے ہمراہ جد و جہد کرتے ہوئے نظر آئیں۔ ہم جہاں بھی ہوں اہل حق میں سے ہونا ضروری ہے۔ یہ مان لیں کہ کربلا خاص خصوصیات کے حامل اہل حق کا کائنات کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ حق کا معیار اکثریت نہیں اور نہ ہی حق تعداد اور شخصیات کا محتاج ہے۔ اہل حق کے لیے تعداد نہیں بلکہ ان کا نظریہ اہم ہوتا ہے۔ کربلا کے بہتر کی شہادت ان کے شعور اور اختیار سے ہوئی ہے۔

ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آگئی
وہ ایک دیا بجھا تو سینکڑوں دیئے جلا گیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں