0

ٹریفک جام، عوام اور حکام


تحریر! گلفام بارجی
ہارون سرینگر

وادی میں بڑتے ٹریفک دباؤ کے ساتھ ہی ٹریفک جام اب روز کا معمول بن گیا ہے جو سفر پندرہ منٹ میں طے ہوتا تھا وہ اب گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو ٹریفک جام کے کئی وجوہات ہےجیسے ٹرانسپورٹ میں اضافہ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہےکہ جس طرح ہر ایک گھر میں ہر ایک فرد کے پاس موبائل فون ہے بالکل اسی طرح گھر میں ہر ایک فرد کے پاس گاڑی ہے یعنی ہر گھر میں تین تین چار چار گاڑیاں ہیں۔

دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ سڑکوں کی تنگی کی وجہ سے بھی ٹریفک جام لگا رہتا ہے۔ جو سڑکیں آج سے پچاس یا ساٹھ سال پہلے تھی ان ہی سڑکوں کو رنگ روغن کرکے تسلی دی جاتی ہےکہ اب ان سڑکوں کو کشادہ کیا گیا ہے اور اب ٹریفک جام سے نجات ملےگی۔ لیکن یہاں پر میں ایک اہم بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ سرکار کی طرف سے باظابطہ ٹریفک قوانین مرتب کئے گئے ہیں اگر انسان ان ٹریفک قوانین پر عمل پیرا ہوکر گاڑی چلائے گا تو ناممکن ہےکہ ٹریفک جام یا کوئی حادثہ ہونے کا احتمال ہوگا۔ شاید آپ کو یاد ہوگا آج سے صرف چند ماہ پہلے صفاکدل سرینگر میں ایک نوجوان جسے لواحقین صدر اسپتال سرینگر میں علاج ومعالجہ کے لئے لے جارہے تھے کی موت بھی ٹریفک جام کی وجہ سے ہوئی تھی حالانکہ بقول مرحوم نوجوان کے لواحقین مقامی پولیس نے بھی بے حد کوشش کی تھی کہ نوجوان کو ٹریفک جام سے نکال کر اسپتال پہنچایا جائے تاکہ اسے بروقت علاج و معالجہ ہوسکے لیکن صفاکدل علاقے میں اس قدر ٹریفک جام لگا تھا کہ اس نوجوان کی زندگی بھی ٹریفک جام کے نظر ہوگئی اور مقامی پولیس کی انتھک کوشش بھی رنگ نہ لاسکی۔ اب بات کرتے ہیں ٹریفک جام کے لئے عوام کیسے ذمہ دار ہے۔ جب ایک گاڑی چلانے والا گاڑی چلاتاہے تووہ اپنی مرضی سے گاڑی چلاتاہے اسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا ہےکہ جس طریقے سے میں گاڑی چلاتا ہوں کہیں ایسا کرنے سے ٹریفک جام کا احتمال تو نہیں ہے؟ یا جس سائیڈ سے میں گاڑی چلاتا ہوں کیا وہ سائیڈ میراہی ہے؟ ۔

گاڑی چلاتے وقت کیا میں سرکار کی طرف سے دئے گئے ٹریفک قوانین کے عین مطابق گاڑی چلاتا ہوں؟۔ لیکن ان سب باتوں سے بےنیاز ہوکر ایک گاڑی چلانے والا اپنی گاڑی کو چلاتے ہوئے دوسری گاڑی چلانے والے کے لئے کئی پریشانیاں پیدا کرتا ہے۔اگرچہ سرکار نے عوام کی سہولیت کے لئے سمارٹ سٹی بسیں بھی مہیا کرائی ہیں لیکن یہ بھی دیکھنا ہےکہ کیا یہ بسیں جہاں عوام کو بہتر سہولیات فراہم کررہی ہیں کہیں یہ سمارٹ سٹی بسیں بھی شہر سرینگر میں ٹریفک جام کا وجہ تونہیں بن رہی ہےجس کے لئے حکام کو پہلے ایک مکمل پلان ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے تکلیف نہ ہوں۔ چودہ فٹ سڑک کی چوڑائی میں جب ایک انسان اپنی کار کو سڑک کے ایک کنارے پر کھڑا کرکے چھ فٹ پر قبضہ کرلیتا ہے تو دوسرا انسان اسی سڑک کے دوسرے کنارے پر اپنی گاڑی کھڑی کرکے باقی چھ فٹ پر قبضہ جمالیتا ہے تو خدا راء آپ ہی بتائے باقی دو فٹ میں کہاں کی گاڑی پار ہوگی تو اس کے لئے ہم حکام کو کیسے ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں۔اس بات کا مشاہدہ آپ نے بھی کیا ہوگا کہ جن افراد کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہیں ان کے پاس ان گاڑیوں کو رکھنے کے لئے جگہ ہی نہیں ہے اور وہ لوگ ان گاڑیوں کو سڑکوں پر پارک کرتے ہیں یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے ٹریفک جام کی۔ کچھ عرصہ پہلے سرکار نے ایک قانون بنایا تھا کہ جس شخص کے پاس اپنے گھر میں کار پارکنگ ہوگی وہی شخص گاڑی خرید سکتا ہے لیکن نہ جانے کیوں عوام دوست اس قانون کو پھر نظر انداز کیا گیا۔آپ نے اس بات کا بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ شہر سرینگر یا دوسرے اضلاع میں کچھ اسطرح کے شاپنگ مال یا ریسٹوران بنائے گئے ہیں جن کا کار پارکنگ سسٹم زیرو ہےان شاپنگ مالز اور ریسٹوران کے باہر بھی غیر قانونی طریقے سے لوگ اپنی گاڑیوں کو پارک کرتے ہیں جس کی وجہ سے عام انسان کئی طرح کی پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے۔یہاں پر متعلقہ اداروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے شاپنگ مال، ریسٹوران یا اس قسم کی کوئی ایسی چیز تعمیر کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنائے کہ یہ بزنس سینٹر تعمیر ہونے سے عام انسان کو کل کہیں دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ٹریفک جام کی ایک اور وجہ جس سے میں نے ذاتی طور بھی محسوس کیا ہے وہ کہ آج کل ایک رواج بن گیا ہےکہ اکثر نوعمر لڑکے اور لڑکیاں اسکوٹی، موٹر سائیکل یا گاڑی ڈرائیونگ کرتے ہیں اور ان میں زیادہ تعداد 13 سال سے 18 سال تک کی عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کی ہوتی ہے مطلب وہ بغیر لائسنس کے ہوتے ہیں اور ٹریفک قوانین سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں اور ڈرائنگ کے دوران ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے آگے نکل جائے جس کے لئے وہ کبھی دائیں کبھی بائیں کرکے ٹریفک جام کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں یہاں تک اکثر یہ بھی دیکھا گیا کہ یہی نوعمر اپنی ناتجربہ گی کی وجہ سے حادثات کا شکار بھی ہوتے ہیں اور اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اب ہم کہیں گے کہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان کو اس طرح کی جان لیوا چیزیں استعمال کرنے سے منع کریں کیا آپ اس بات بے خبر ہےکہ جب ایک نابالغ لڑکا یا لڑکی اسکوٹی، موٹرسائیکل یا گاڑی ڈرائنگ کرتے ہیں تو ان کے والدین یا ان کے بڑے ان کے ساتھ میں سیٹ پر بیٹھے نہیں ہوتے اور اپنے بچوں پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کےکم عمر بچے اس قسم کا کارنامہ انجام دے رہے ہیں یہاں پر حکام کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ پہلے ان بچوں کے والدین کی کونسلنگ کریں اور بعد میں بچوں کی۔اب ٹریفک جام کی ایک اہم اور اصلی وجہ وہ ہے موبائل فون۔ جب یہاں موبائل فون متعارف ہوا تو محکمہ ٹریفک کی جانب سے ایک اہم اور فائدہ مند ایڈوائزری جاری کی گئی کہ دوران ڈرائیونگ کوئی بھی شخص موبائل فون استعمال نہیں کرےگا اور اسے جرم قرار دیا گیا حالانکہ اوائل میں گاڑی چلانے کے دوران موبائل فون استعمال کرنے سے کئی حادثات بھی رونما ہوئے اور ان حادثات میں کئی قیمتی جانیں بھی تلف ہوئی اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے اگرچہ ٹریفک حکام کچھ عرصہ کے لئے حرکت میں آیا تھا اور دوران ڈرائیونگ موبائل فون استعمال کرنے والوں کےخلاف باضابطہ کارروائی عمل میں لائی جاتی تھی لیکن اس عمل کو بھی بعد میں پس پشت ڈال دیا گیا۔ آپ اکثر دیکھا ہوگا کہ جب ایک گاڑی چلانے والا گاڑی چلانے کے دوران موبائل فون پر لگا ہوتا ہے تو ایسے میں اس کو نہ آگے کا پتہ ہوتا ہے اور نہ پیچھے کا پتہ ہوتا ہے کیونکہ اس کا سارا دھیان موبائل فون کی طرف لگا ہوتا ہے تو اس صورت میں ٹریفک جام یا حادثہ ہونے کا احتمال زیادہ رہتا ہے۔ یہاں پر میں متعلقہ حکام سے گزارش کرتا ہوں کہ دوران ڈرائیونگ موبائل فون استعمال کرنے والوں کے خلاف اپنی مہم کو پھر سے شروع کریں تاکہ آنے والے وقت میں ٹریفک حادثات کے ساتھ ساتھ ٹریفک جام پر بھی کسی حد کنٹرول کیا جاسکے۔الغرض ٹریفک جام اور ٹریفک حادثات سے نجات پانے کے لئے حکام سے ذیادہ عوام کو پہل کرنی ہوگی اور عوام کے تعاون کے بغیر حکام اپنی بے بسی اور لاچارگی کا ہی اظہار کرے گی۔اس لئے آئے ہم سب حکام کو اپنا تعاون فراہم کرکے اس پیچیدہ مسئلے سے چھٹکارا پائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں