شنکراچاریہ پہاڑی اور ہری پربت کا نام بدلنے کا اعلان جہادی ذہنیت کی واضح مثال / ترون چھگ
سرینگر // نیشنل کانفرنس پر جموں و کشمیر میں جہادی اور فرقہ وارانہ ایجنڈے کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے بی جے پی کے قومی جنرل سیکرٹری اور جموں کشمیر انچارج ترون چھگ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کا انتخابی منشور جس میں شنکراچاریہ پہاڑی کا نام تخت سلیمان اور ہری پربت کا نام بدل کر کوہ مارن رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے، عبداللہ خاندان کی جہادی ذہنیت کی واضح مثال ہے ۔سی این آئی کے مطابق بی جے پی کے قومی جنرل سیکرٹری ترون چھگ نے نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ کی جموں و کشمیر میں ایسے وقت میں ’’جہادی‘‘ ایجنڈے کو فروغ دینے کی سخت مذمت کی ہے جب لوگ چاہتے ہیں کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں امن اور خوشحالی لوٹ آئے۔انتخابی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ درحقیقت عبداللہ خاندان گزشتہ تین نسلوں سے ’’جہادی اور فرقہ وارانہ ایجنڈے پر عمل پیرا ‘‘ہے تاکہ خطے میں عدم تحفظ اور غیر یقینی کا احساس پھیلایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ این سی کا انتخابی منشور جس میں شنکراچاریہ پہاڑی کا نام تخت سلیمان اور ہری پربت کا نام بدل کر کوہ مارن رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے، عبداللہ خاندان کی ’’جہادی ‘‘ذہنیت کی واضح مثال ہے جو خطے کے ثقافتی اور روحانی ورثے کو تباہ کرنے پرتلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ للیتادتیہ کے زمانے سے اب تک دو درجن سے زیادہ تاریخی مندر بنائے گئے ہیں اور نہ صرف وادی بلکہ پورے ملک میں لوگ ان کی عزت کرتے ہیں کیونکہ وہ قومی ورثہ کی علامت ہیں۔ چھگ نے کہا کہ عبداللہ کے دور حکومت میں ان تاریخی مقامات کی حفاظت کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا اور اس کے بجائے عبداللہ خاندان سرحد پار اپنے سرپرستوں کی دھن پر ناچتے ہوئے ان سب کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب کہ بی جے پی عوامی تحفظ ایکٹ کو منسوخ کرنے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے این سی کے منشور میں وعدے کے سخت خلاف ہے۔