رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
اردو زبان و ادب کے فروغ و ترقی کے حوالے سے جب بھی بات کی جاۓ رسالوں و جریدوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ملک و بیرون ملک کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں بھی کئی ایسے رسالے و جریدے مسلسل شائع ہوتے آۓ ہیں جن کی بدولت یہاں کا اردو ادب دن بہ دن ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔ انہی رسالوں و جریدوں میں نگینہ انٹرنیشنل ایک خاص مقام رکھتا ہے اور وادی کے دو سرکردہ اور عظیم افسانہ نگاروں وحشی سید اور نور شاہ صاحب کے زیر نگرانی میں یہ جریدہ دن دگنی رات چگنی ترقی کررہا ہے۔ گزشتہ مہینے ڈلگیٹ سرینگر میں واقع ہوٹل شہنشاہ پیلس کے کوہ نور ہال میں ایک پروقار ادبی تقریب منعقد ہوئی جس کا انعقاد نگینہ انٹرنیشنل نے بہ اشتراک میزان پبلی شرز کیا۔ اس تقریب میں جموں و کشمیر کے تمام خطوں سے آۓ ہوۓ سیکنڈوں ادیبوں و مصنفوں نے شرکت کی۔ اسی تقریب میں نگینہ انٹرنیشنل کے ادب نامہ جنوری تا جون ۲۰۲۴ کا اجراء بھی عمل میں لایا گیا۔ یہ جریدہ ۱۸۴ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا سرورق دیدہ زیب ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان پانچ ادیبوں کی یاد دلاتی ہے جو ہم سے حال ہی میں بچھڑ گۓ ہیں اور جنہوں نے اردو زبان و ادب کی خدمت اپنے خون جگر سے کی ہے۔ اللہ ان پانچوں لکھاریوں کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔ اس شمارے کے ادارہ “بات سے بات” میں مدیر نے ان پانچ ادبی ہستیوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے جن کو ماضی میں نگینہ انٹرنیشنل کے ساتھ وابستگی رہی ہے اور جنہوں نے ادب میں ایک نام کمایا ہے۔ ان میں غلام نبی خیال، فاروق نازکی، راجہ نزر بونیاری، علیم صبا نویدی اور شبیب رضوی شامل ہیں۔ اداریے میں مدیر نے نوجوان نسل میں بڑتی منشیات کی لت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ادیبوں کو آگاہ کیا ہے کہ ان موضوعات پر بھی قلم اٹھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ نئی نسل اس وباء سے دور رہ سکیں۔ اشرف عادل اور ظفر اقبال ظفر کی حمدیہ نظموں کے بعد ظفر اقبال ظفر، اشرف عادل، عمران راقم اور محمد نعیم خان کے نعتیہ کلام اس شمارے کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ مرحوم غلام نبی خیال کی ادبی خدمات اور شخصیت پر انجینئر شفیع احمد نے ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے مرحوم کی شاعری، ترجمہ نگاری اور محققانہ سلاحیتوں پر روشنی ڑالی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مرحوم کی تعلیم و ادبی سفر کا بھی احاطہ کیا ہے۔ مشتاق برق اور وحشی سید نے بھی اپنے تحاریر میں مرحوم کو یاد کرتے ہوۓ یہ اعتراف کیا ہے کہ خیال صاحب جہاں جسمانی طور پر لمبے تھے وہاں وہ زہنی طور پر بھی لمبے تھے اور ان کی سوچیں بھی لمبی تھیں۔ فاروق نازکی کے بارے میں پروفیسر قدوس جاوید نے گیارہ صفحات پر ایک طویل اور منفرد مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے فاروق نازکی کا تعلیمی و ادبی سفر اور ریڈیو و دوردرشن میں ان کی قابل قدر خدمات کو صفحہ قرطاس پر لایا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے فاروق نازکی کے شجرہ نسب کو بھی دکھایا ہے جو چودہ پندرہ پشت اوپر حضرت امام حسین سے جا ملتا ہے۔ بقول قدوس جاوید ” نازکی خانوادے کے عالم فاضل بزرگوں کے فیض سے یہ سب کے سب بازوق ادب دوست اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حسن و جمال کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے شعبوں میں منصب کمال و جلال پر فائز رہے اسی لیے ان ساتوں بھائیوں کو خانوادہ نازکی کے سات ستارے بھی کہا جاتا ہے “. فاروق نازکی کے بعد ڑاکٹر شبیب رضوی کو خراج عقیدت کے طور سہیل سالم کا مضمون نگینہ کے اس شمارے میں دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔ بقول سہیل سالم شبیب صاحب لسانیات کا علمبردار، نامور ترجمہ کار، شاعری افق کا روشن ستارہ اور تہزیب و ثقافت کا گہوارہ تھے۔ زبیر قریشی نے بھی راجہ نزر بونیاری کو اچھے الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور لکھا ہے کہ مرحوم بونیاری صاحب پہاڑی زبان کے متوالے اور اردو زبان کے شیدائی تھے۔ ڑاکٹر آفاق عالم علیم صبا نویدی کو گلہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علیم صبا نویدی جیسا فنکار کسی بھی زبان میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے جو اپنی محکم شناخت کے وجود نت نئے تجربے کا خطرہ مول لیتا ہے۔ ایس معشوق احمد کا واحد انشائیہ یک طرفہ محبت جو اس شمارے میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے قاری کے لیے بطور ایک تحفہ پیش کیا گیا ہے کیونکہ ایس معشوق صاحب کے تمام انشائیے ادبی حلقوں میں بڑی پزیرائی حاصل کرنے میں اکثر کامیاب نظر آتے ہیں۔ پروفیسر عابد پشاوری کے متعلق سید خورشید کاظمی کا مضمون قابل ستائش ہے کیونکہ انہوں نے موصوف کی زندگی اور ادبی کارناموں پر مفصل روشنی ڑالی ہے اور بقول ان کے عابد پشاوری نے اردو ادب میں وہ اضافہ کیا جو قابل تعریف اور قابل اعتماد ہے۔ برصغیر کے نامور افسانہ نگار نور شاہ صاحب کا مضمون منٹو کی فلمی دنیا مجھے بے حد پسند آیا اور خوبصورت بھی لگا کیونکہ موصوف نے افسانوی دنیا کے شہنشاہ سعادت حسن منٹو کی فلمی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد انہیں پیش آنے والے واقعات کو تفصیلاً بیان کیا ہے۔ بقول نور شاہ صاحب ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو اس بات پر فخر ہے کہ اس عظیم اور بلند قامت افسانہ نگار کا تعلق کشمیر سے تھا۔ وحشی سید کا افسانہ بھنگی سماج کی تلخ حقیقت کا آئینہ دکھا رہا ہے اور محی الدین ریشی کا افسانہ وق جسے رشید راہگیر نے اردو میں ترجمہ کیا ہے سماج میں رہ رہے بزرگ شہریوں خاص کر جو ملازمت سے سبکدوش ہوتے ہیں کے ساتھ اپنے ہی گھر کے افراد کس طرح کا برا برتاؤ کرتے ہیں صاف دکھایا گیا ہے۔ پانچ کہاں رہ گئے ، وحشی سید کا یہ افسانہ قاری کو آخر تک مقناطیسی کشش کرتا ہے۔ سلیس زبان میں تحریر کیا ہوا یہ منفرد افسانہ انسانی فطرت کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ مادی دنیا بسانا چاہتا ہے اور مال جمع کرتے کرتے اسے یہ نہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ کہاں پہچ چکا ہے۔ نیا مکان , شیخ عبدالغنی لداخی کا یہ افسانہ غریبی و مفلسی کا داستان بیان کرتا ہے، علاوہ ازیں یہ ان خواتین کا دکھ درد اور روداد بھی سناتا ہے جو غریبی کی وجہ سے برتن مانجھنے اور صفائی ستھرائی کے کام پر امیر گھرانوں میں جاتیں ہیں۔ دو روز قبل ہی اس افسانوی دنیا کے چمکتے ہوئے ستارے نے زندگی کی آخری سانس لے کر ہم سے ہمیشہ کے لیے جدائی اختیار کی ہے۔ اللہ انہیں جنت نصیب فرماۓ آمین۔ نامور افسانچہ نگار ڑاکٹر نزیر مشتاق کے تین افسانچے کفن، مسلہ اور منافع ہمارے سماج کا بالکل آئینہ دکھارہے ہیں۔ حج سے لاۓ ہوۓ کفن کے ساتھ روایتی عقیدت بالکل آج بھی ویسی ہی ہے جیسے دہائیوں قبل تھی، لاپتہ ہوۓ شوہروں کا کوئی اتہ پتہ معلوم نہ ہونے کی بنا پر کتنی عورتیں نیم بیوہ زندگی گزار رہے ہیں اور ڑاکٹروں کی لالچ نے کتنے لوگوں کی زندگیاں ختم کیں ہیں اندازہ لگانا مشکل ہے۔ رینو بہل کا افسانہ سیاہ رات کا اندھیرا طویل ضرور ہے مگر الفاظ کی روانی اور زبان و بیان پر مکمل دسترس کی وجہ سے قاری اس افسانہ کو پڑھتے ہوئے فرحت محسوس کرتا ہے۔ اشوک پٹواری کا افسانہ امی جھوٹ نہیں بولتی ایک خوبصورت افسانہ ہے جو ماں کی شفقت، ممتا اور قانون قدرت کے سامنے انسان کی لاچاری اور بے بسی کی خوب عکاسی کرتا ہے۔ دو بار ماں کا کہنا سچ ثابت ہوا تھا لیکن تیسری بار جب ماں نے بچے سے یہ کہا تھا کہ تم دس سال کے جب ہوجاو گے تو سیڈھیاں بڑی آسانی سے چڑھ سکو گے لیکن وہ نہیں ہو پایا۔ ادھورا آدمی، ڑاکٹر رونق جمال کا یہ افسانہ پڑھ کر قاری کے ہوش اڈ جاتے ہیں کیونکہ بیوی اپنی عصمت اور عزت کی حفاظت ہر طرح کرتی ہوئی نظر آتی ہے بلکہ اسکا خاوند جو دھن دولت میں ڑوبا تھا مگر مردانگی سے خالی تھا اپنی دولت و مال کا جانشین اور وارث بنانے کے لیے بیوی کو غلط کروانے کے لیے اکساتا تھا۔ گڑیا کی شادی، ریحانہ شجر کا یہ خوبصورت افسانہ ہمارے لیے چشم کشا ہے کیونکہ ہماری گھریلو زندگیوں میں آج کل کے اس جدید دور میں بھی ساسیں اپنی بہووں پر کس کر حکومت کرنے لگتیں ہیں اور جہیز نہ لانے پر ان پر کیا گزرتی ہے بیان کرنا محال ہے۔ خوبصورت انداز میں لکھا گیا خوبصورت افسانہ، میری طرف سے محترمہ ریحانہ جی کو بہت بہت مبارک۔ افسانوں و افسانچوں کے بعد نگینہ انٹرنیشنل کے اس خاص شمارے میں پانچ کتابوں پر تبصرے درج ہیں۔ غلام نبی خیال کی تصنیف جہان خیال پر ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی صاحبہ کا بہترین تبصرہ پڑھا جاسکتا ہے۔ مختصر مگر جامع الفاظ میں تحریر کیا گیا یہ تبصرہ کتاب کا پورا خاکہ پیش کرتا ہے۔ سہیل سالم نے نگینہ انٹرنیشنل کے گزشتہ شمارے پر بات کی ہے اور پرویز مانوس کی تصنیف تکمیل عشق پر سبزار احمد بٹ کا تبصرہ اس شمارے کا حصہ ہے۔ ادبی جھلکیوں پر ایک طویل گفتگو نور شاہ صاحب نے اس شمارے میں کی ہے۔ غلام نبی خیال، ڈاکٹر ارشاد آفاقی، ڈاکٹر عابد احمد، مشتاق کاک وغیرہ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور ہوٹل شہنشاہ پیلس میں ہوئی ادبی تقریبوں پر بھی خلاصہ کیا گیا ہے۔ نگینہ کے اس شمارے کے آخر پر نور شاہ صاحب کا مضمون موہن یاور تیسری آنکھ سے دیکھنے والا قلمکار نظروں سے گزرتا ہے۔ موہن یاور کی زندگی اور ان کے ادبی کارناموں پر نور شاہ صاحب نے مختصراً ان کی شخصیت کے کئی پہلوؤں کو دکھایا ہے۔ نگینہ انٹرنیشنل کے اس ادب نامہ کو میں بہت پسند بھی کرتا ہوں اور آگے بھی میں نے من بنالیا ہے کہ اس رسالے کے لیے لکھوں اور پڑھوں۔