6d568dcd 72f2 4954 Bb0a 7de4a9c098eb 66

نظر اور نقطۂ نظر

نظر اور نقطۂ نظر

توصیف احمد وانی
ڈائریکٹر سید حسن منطقی اکیڈمی اونتی پورہ پلوامہ کشمیر انڈیا

نقطے پر غور کرنے والے عجب نکتہ رس ہیں۔ نقطے سے عجیب عجیب نکات نکالتے ہیں۔

ایک نقطہ ہے جو مرکزِ پرکارِ ہستی ہے۔ اُسے مرکزِ توحید کہیں یا ذاتِ بحت، اُس کا سراغ باطن میں ملے گا، ظاہر میں نہیں۔ ظاہر میں اُس کی صفات ملتی ہیں، اُس کے افعال ملتے ہیں۔ ظاہر میں ذات نہیں ملتی، ذات کا جلوہ ملتا ہے—! ظاہر میں اللہ کا گھر ملے گا، اللہ باطن میں ملے گا۔ جائے نماز پر سجدہ ہو سکتا ہے— سجدۂ قرب انسان کی بے تاب پیشانی میں ہے۔ نماز، نمازی کی ایک داخلی کیفیت بھی ہے۔ارشاد ہے” ” سجدہ کراور قریب ہو جا۔“سجدہ جس تسلیم کا مظہر ہے، وہ تسلیم دل کے اندر ہے۔ اطاعت اور بغاوت دونوں دل میں ہیں۔ دلبر نے دل کے قریب ہونا ہے۔ دل ، دل سے ملتا ہے۔ جسم کبھی جسم سے نہیں ملتا۔ وہ ذات تو ہے ہی ماورائے جسم۔ اسے کسی اسم سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔لازم نہیں کہ جس کا اسم ہو، اُس کا جسم بھی ہو۔ خوشبوکا اسم موجود ہے، خوشبو خود موجود ہے، چہار سو— لیکن اس کا جسم نہیں— ہاں ! وہ جس کے قریب ہو جائے وہ جسم بھی خوشبودار ہو جاتا ہے۔ خوشبو کہاں سے آتی ہے؟ اور اپنے مقرب کو خوشبودار کرنے کے بعد کہاں غائب ہو جاتی ہے؟—کسی کو معلوم نہیں۔ اگر خوشبو گلاب کے پھول میں ہے تو اسے پتی پتی کر دینے پر وہ خوشبو ختم کیوں ہو جاتی ہے۔ بہرحال اُس کے لیے اسم موجود ہے، بلکہ ہر خوب اسم اسی پر ہی خوب سجتا ہے۔ اسے کسی بھی اسم سے پکارا جا سکتا ہے— محسوس کیا جا سکتا ہے— وہ ہر صفت سے موصوف ہے،لیکن باالجسم نہیں— بالاسم اور باالعلم۔ القصّہ اُس ذاتِ تسبیح و تنزیہہ کے لیے علم ہے، جسم نہیں۔

نقطے کی تعریف یہ ہے کہ نقطہ اُس نشان کو کہتے ہیں جس کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی صفر ہو— صفر اور لامتناہی کے درمیان جو نسبت ہے ، اُسے کوئی صاحبِ نسبت ہی پہچانتا ہے— اگر کوئی قابلِ شمار خفیف ترین عدد بھی لکھنے میں آئے گا تو وہ نقطہ نہیں ہوگا، وہ نقطہ نہ رہے گا— بلکہ ایک لائن ہو گی۔ اس تعریف کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خارج میں کسی کینوس پر، کسی قرطاس پر کوئی نقطہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ باریک سے باریک قلم بھی کوئی قابلِ پیمائش نشان چھوڑ دے گا اور نقطہ اپنی تعریف اور تعین سے باہر ہو جائے گا۔ اب اس نقطے کا تعین کہاں ہو؟— خارج میں ممکن ہی نہیں رہا کہ نقطہ اپنی اصل تعریف میں معین ہو سکے— یہ تعین صرف انسانی شعور میں ہوگا۔ انسانی شعور کا ایک طبق باطن بھی ہے۔ یہ نقطہ جو بے جہت، بے سمت اور ناقابلِ تعین ہے، اس کا تعین انسانی باطن میں ہو رہا ہے۔ اس سے یہ نکتہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ لاتعین کا تعین حضرتِ انسان ہی کے پاس ہے۔ نشانِ بے نشاں حضرتِ انسان ہے۔ جو خود کسی کا نشان ہو، اسے اپنا نشان اور نشیمن بنانے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ فقر کا راز یہی ہے۔

انسان کا حال عجب ہے۔ یہ خود سے غافل ہو گیا ہے۔ باطن کی بجائے ظاہر میں مشغول ہو کر رہ گیا ہے۔ ظاہر سے باطن کی طرف رجوع کرنے کی بجائے یہ باطن سے ظاہر کا رخ اختیار کر چکا ہے۔ یہ باطن سے برآمد ہوا ہے ، اسے لامتناہی باطن کی طرف لوٹنا تھا، لیکن یہ ظاہر کے دل فریب پردۂ شہود میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ سب کا سب، باطن سے برآمد ہور ہا ہے۔ ہم سب کسی کے بطن سے برآمد ہوئے ہیں۔ ظاہر و باطن سب اُسی کا ہے۔ ظاہر کا احترام سب پر واجب ہے، لیکن بابِ تفضیل میں باطن افضل ترین فضیلت ہے۔ موجودات کی بہترین جہت باطنی جہت ہوتی ہے۔ باطنی جہت میں، عیاں را چہ بیاں، کوئی دھوکہ نہیں ، کوئی چرب زبانی نہیں۔ انسان ہمہ جہت ہے، لیکن اس کے اندر تمام جہتوں کی مجموعی تقسیم صرف دو ہے۔ ایک ظاہر اور ایک باطن۔ انسان کا رخ مجموعی طور یا ظاہر کی طرف ہوتا ہے، یا باطن کی طرف ہوتا۔ مشرق و مغرب اللہ ہی کے لیے ہیں— جدھر دیکھو اُسی کا چہرہ ہے— لیکن اہلِ ایمان کے لیے حکم ہے کہ وہ جہاں بھی ہوں اپنا رخ قبلہ کی طرف کر لیں۔اہلِ نظر قبلہ کو قبلہ نما کہتے ہیں۔ علم و ادب کے زمانے میں لوگ اپنے والد گرامی کے ساتھ “قبلہ و کعبہ” کے القابات لکھا کرتے تھے۔ باادب لوگ مرشدِ گرامی کو بھی قبلہ کہتے تھے۔

دراصل انسان قبلہ نہیں بلکہ قبلہ نما ہے۔ انسان ظاہر میں ہے، اس کی حقیقت باطن میں ہے اور باطن حقیقت الحقائق کے ساتھ واصل ہے۔ یعنی باطن تمام بطون کے ساتھ یوں ملا ہوا ہے جیسے تمام سمندر آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ کہنے میں سات سمندر ہے ، حقیقت میں ایک ہی ہے ، اسے ہی قلزم کہتے ہیں— قلزمِ ہستی کہیں یا قلزم حقیقت — درحقیقت ایک ہی ہے۔ درحقیقت ایک ہی نقطہ ہے— جس کا پھیلاؤ ہے۔ ایک ہی نقطہ ہے جس سے مختلف زاویوں کے خطوط کی تشکیل ہوتی ہے، دائروں کی تکمیل ہوتی ہے اور قوسین تک پہنچ کر یہ داستانِ حقیقت اپنی معراج کو پہنچتی ہے۔

نقطۂ نظر بدل جائے تو میدانِ نظر بدل جاتا ہے۔ میدانِ نظر سے مراد منظر کا بدل جانا ہے۔ جب منظر بدل گیا— تو پھر “تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہوا ” نقطہ نظر دراصل اندازِ نظر ہے۔ اندازِ نظر بدل جائے تو راستہ بدل جاتا ہے، راستہ بدل جائے تو منزل بدل جاتی ہے۔ ایک ہی گاڑی پر، ایک ہی جہاز پر ، ایک ہی مرشد کی طرف سفر کرنے والے الگ الگ منزلوں کےمسافر ہیں، کہ منزل ظاہر میں نہیں ، باطن میں ہوتی ہے۔ منزل کا تعین باطن میں ہوتا ہے۔ انسان کی نیّت ہی اُس کی منزلِ مراد ہے۔

انسان کی نیّت کا کمال یہ ہے کہ نیّت کی مدد سے انسان ایک ہی طرح کے کام کرتے ہوئے دو مختلف منزلوں سے ہمکنار ہو سکتے ہے۔ سیّد علی بن عثمان الہجویریؒ معروف بہ ملقّب داتا گنج بخش آج سے تقریباً ایک ہزار برس قبل اپنی شہرہ آفاق تصنیف “کشف المحجوب” میں نیّت کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:” ابتدائے عمل میں نیّت کرنا، بے نیّت عمل کی ابتدا کرنے سے بہتر ہے۔ نیّت کو انسان کے کاموں میں بڑا دخل ہے۔ کسی عمل کے پیچھے نیّت ایک برہانِ عظیم ہے۔ بندہ صرف ایک ہی نیّت کے ساتھ کسی ایک حکم کے درجے سے نکل کر دوسرے حکم میں داخل ہو جاتا ہے،حالاں کہ اُس کے ظاہری عمل میں بظاہرکوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ اگر ایک شخص روزے کی نیّت کے بغیر سارا دِن بھی بھوکا رہے تو اُسے روز ے کا ثواب نہیں ملتا۔ لیکن جب وہ دِل میں روزے کی نیّت باندھ لیتا ہے تو اُس کا شمار مقرّب لوگوں میں ہوتا ہے، اگرچہ اُس کے ظاہر میں تبدیلی کے اثرات رونما نہیں ہوتے۔ “

عجب راز ہے،کھانا کھانا ایک فعل ہے، کھانا نہ کھانا کوئی فعل نہیں— ایک انسان بظاہر کچھ بھی فعل نہیں کرتا— بس نیّت کےنہاں خانے میں رضائے الٰہی ہے—اور کچھ نہ کرنے کا صلہ یہ ملتا ہے کہ”الصّوم لِی واَنا اَجزی بہٖ” کے مصداق اس کی جزا خود ذات ِ الٰہی ہے۔ یعنی کچھ نہ کرو— اپنے نفس کی خواہش کے مطابق کچھ نہ کرو— تو جزا میں اپنے رب کی لقاء پالو گے۔ سبحان اللہ! اللہ کی لقاء باطن کی صفا میں ہے۔ نقطۂ نگاہ باطنی ہے تو سفر باطن کا طے ہوگا۔ نقطۂ نظر میں ظاہری چکاچوند ہے ، شہرت ہے، مال و منصب ہے، تو سفر خواہ اللہ والوں کی ہمراہی میں طےکیا جائے— زندگی ذکر ، اذکار اور صوم و صلوٰۃ میں بسر کی جائے— انجامِ زندگی دنیا داروں کے ساتھ ہوگا۔

نقطۂ نظر اگر باطن کی پاکیزگی پر مرکوز ہو، تو ظاہر میں امن آشتی، سکون اور سلامتی کا منظر بھلا دکھائی دے گا۔ ہر شخص اچھا دکھائی دے گا، کسی کی نیت پر شک کی گنجائش نہ رہے گی، ہر شخص ہی دوست نظر آئے گا۔ اگر نقطۂ نظر ظاہری مفاد کے حصول اور وصول پر مرتکز ہو ، تو یہی ظاہر کا منظر جنگ و جدل اور ایک جائے کشمکش دکھائی دے گا۔ باطن کے آنگن میں دبے پاؤں چلنا چاہیے — باطن ظاہر میں ظاہر ہو کر رہتا ہے۔

بس! فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم نے اپنے نقطۂ نظر کو زیرِ آسمان رکھنا ہے اورزمین پر رینگنا ہے، یا پھر ورائے زمان ومکاں رکھنا ہے اور ہمکنارِ بحرِ بیکراں ہونا ہے۔ صفر سے لامتناہیت تک سب حساب کتاب کھلا پڑا ہے۔ خود صفر ہو جائیں —— کسی طرح خود کو “لا” کر سکیں — تو “الااللہ” کا راز فاش ہوا چاہتا ہے۔ گفتۂ اُو، گفتۂ اللہ بود!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں