ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے “ہفتہ حکومت” کے موقع پر نئی حکومت کی کابینہ کے کئی دیگر اراکین کے ساتھ شہید امیر عبداللہیان کے گھر پر حاضری دی۔
ایران//”ہفتہ حکومت” کی مناسبت سے صدر پزشکیان کے دفتر کے سربراہ، نائب صدر اور وزیر خارجہ نے شہید امیر عبداللہیان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔
اس موقع پر وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ یہاں آنے سے پہلے ہم نے حضرت شاہ عبدالعظیم حسنی (ع) کے مزار پر شہید امیر عبداللہیان کی قبر کی زیارت کی اور اس عظیم شہید سے ملک کے سفارتی نظام کی کامیابی کے لیے دعا کی درخواست کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کی سربلندی کے راستے پر گامزن رہیں گے۔
عراقچی نے کہا کہ شہید کے صاحبزادوں نے اپنے والد محترم کی نیابت میں اس تعارفی تقریب میں شرکت کی جس کے لیے ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
اس دوران نائب صدر اور شہید فاؤنڈیشن کے چیئرمین سعید اوحدی نے بھی شہید امیر عبداللہیان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ منی کے دوران مشکل صورتحال سے دوچار تھے اور ہم ملکی مفاد کے لیے حالات کو آگے بڑھانے کے لیے پریشان تھے تاہم شہید امیر عبداللہیان سے رابطہ کیا، جن کا تعاون ہمارے لیے بہت مددگار ثابت ہوا اور اس عظیم شہید نے اس نازک وقت میں ہماری بھرپور مدد کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک عرصہ ان کی صحبت میں رہے، ان کی تدبیر نہایت مؤثر ہوتی تھی، آخر میں، انہیں شہداء میں شامل ہونے کی سعادت ملی، وہ یقینی طور پر اس عظیم منصب و مرتبے کے لائق تھے۔
اس موقع پر صدر کے دفتر کے سربراہ محسن حاجی مرزائی نے شہید امیر عبداللہیان کے اہل خانہ کو ڈاکٹر پزشکیان کا سلام پہنچاتے ہوئے کہا: “ہفتہ حکومت” کے موقع پر صدر نے ہمیں شہداء کی خدمت میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم برسوں شہید امیرعبداللہیان کی خدمت میں رہے اور ہم ان کے مقام پر رشک کرتے تھے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم شہداء کے راستے پر چلتے ہوئے اپنے فرائض احسن طریقے سے نبھا سکیں گے۔
اس ملاقات میں شہید امیر عبداللہیان کے بیٹے نے حکومتی وزراء کی گھر آمد کو سراہتے ہوئے کہا کہ سانحہ منیٰ کے وقت مرحوم والد اس واقعے سے پوری طرح آگاہ تھے لیکن انہوں نے زور دے کر کہا کہ رہبر معظم انقلاب کی تقریر ایرانی وفد کے لیے اچھے نتائج کا باعث بنی، کیونکہ انہوں نے فرمایا تھا کہ “اگر شہداء کی لاشوں کے ساتھ ذرا سی بھی بے حرمتی کی گئی تو انہیں ہمارے فیصلہ کن ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔” یہ خطاب نہایت مؤثر اور راہگشا ثابت ہوا۔
(مہر خبر)