تحریر: مولانا اجمل حسین قاسمی
حضرت علی علیہ السلام کا صبر اور خاموشی پیغمبر اکرم کے حکم کے مطابق تھا۔ جیسا کہ احمد بن حنبل نے حضرت علی سے روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیغمبر اکرم نے مجھے فرمایا : سيكون بعدي إختلاف أو أمر فإن إستطعت أن تكون السلم فإفعل۔ ترجمہ : عنقریب میرے بعد اختلاف ہوگا اگر آپ کے لئے پرامن رہنا ممکن ہو تو ایسا ہی کرنا۔
مخالفین تشیع بعض صحابہ کی جانب سے حضرت زہرا (س) کے گهر پر حملے اور آپ کی توہین، دروازے پر آگ لگانے اور آپ سلام اللہ علیہا کو زخمی کرنے کا انکار کرتے ہوئے شبہہ پیدا کرتے ہیں کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے گهر پر حملے کے دوران حضرت علی علیہ السلام کیوں خاموش رہے اور اپنی شریک حیات کا دفاع کیوں نہیں کیا؟ حضرت زہرا (س) کے بجائے حضرت علی (ع) خود حملہ آوروں کے سامنے کیوں نہیں آئے؟ ۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ اگر یہ واقعہ رونما ہوتا تو ضرور حضرت علی (ع) کی جانب سے ردعمل آتا اور حملہ آوروں کے خلاف آپ (ع) تلوار ہاته میں لیتے ۔ ہم اس مقالے میں اس شبہے کا جواب خود حضرت علی کی زبانی نہج البلاغہ اور دیگر معتبر کتب حدیث سے پیش کریں گے۔ جس میں مولا علی خود قیام کے بجائے صبر کو ترجیح دینے کی وجوہات بیان فرما رہے ہیں۔
اس بات سے کوئی بهی مسلمان انکار نہیں کرتا کہ دین کی حفاظت کرنا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، امام علی علیہ السلام اور اہل بیت طاہرین علیہم الصلوۃ والسلام کی ذمہ داری ہے۔ جس کی خاطر انہوں نے اپنی جان اور مال کو قربان کیا ہے۔ اسلام کو بچانے کیلئے خاموشی اختیار کرتے ہیں، صبر کرتے ہیں حتی اپنی جان اور اپنے بچوں کو اسلام پر قربان کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہمیں سمجهنے اور اس سے متعلق غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا جب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے گهر پر حملہ کیا گیا تو امام علی (ع) نے صرف دین اسلام کو بچانے کیلئے صبر اور خاموشی سے کام لیا، وگرنہ علی جیسے بہادر اور شجاع مرد کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا تها۔ حضرت علی (ع) خطبہ شقشقیہ میں دکه اور درد بهرے لہجے میں اپنی خاموشی کی وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
وَ طَفِقْتُ اَرْتَئِیْ بَیْنَ اَنْ اَصُوْلَ بِیَدٍ جَذَّآءَ، اَوْ اَصْبِرَ عَلٰی طَخْیَةٍ عَمْیَآءَ، یَهْرَمُ فِیْهَا الْکَبِیْرُ، وَ یَشِیْبُ فِیْهَا الصَّغِیْرُ، وَ یَکْدَحُ فِیْهَا مُؤْمِنٌ حَتّٰی یَلْقٰی رَبَّهٗ. فَرَاَیْتُ اَنَّ الصَّبْرَ عَلٰی هَاتَاۤ اَحْجٰی، فَصَبَرتُ وَ فِی الْعَیْنِ قَذًی، وَ فِی الْحَلْقِ شَجًا، اَرٰی تُرَاثِیْ نَهْبًا۔ (۱)
ترجمہ: اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتهوں سے حملہ کروں یا اس سے بهیانک تیرگی پر صبر کر لوں، جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑها ہو جاتا ہے اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجهے اس اندهیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہٰذا میں نے صبر کیا، اور جیسے میری آنکه میں کانٹا ہو اور گلے میں ہڈی پهنسی ہو۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکه رہا تها۔
حضرت علی علیہ السلام کا صبر اور خاموشی پیغمبر اکرم کے حکم کے مطابق تها۔ جیسا کہ احمد بن حنبل نے حضرت علی سے روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیغمبر اکرم نے مجهے فرمایا: سیکون بعدی إختلاف أو أمر فإن إستطعت أن تکون السلم فإفعل (۲)۔ ترجمہ: عنقریب میرے بعد اختلاف ہوگا اگر آپ کے لئے پرامن رہنا ممکن ہو تو ایسا ہی کرنا۔
اگر حضرت علی علیہ السلام صبر کرنے کی بجائے شمشیر اٹهاتے تو اسلام کو خطرہ تها۔ بہت سے افراد جو تازہ مسلمان ہوئے تهے وہ دوبارہ اپنے پہلے مذہب کی جانب پلٹ جاتے، بہت سارے قبائل اور اقوام جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی عمر کے آخری حصہ یعنی آپ کی وفات سے کچه مدت قبل ہی اسلام قبول کرچکے تهے اور اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر آگاہ نہیں تهے۔ وہ مرتد ہوکر بت پرستی کی طرف لوٹ جاتے اور اسلامی حکومت کی مخالفت کرتے۔ امام علی علیہ السلام نے اس فتنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
أَلَا وَ إِنَّ بَلِیَّتَکُمْ قَدْ عَادَتْ کَهَیْئَتِهَا یَوْمَ بَعَثَ اللَّهُ نَبِیَّهُ (صلی الله علیه وآله) (۳)۔ ترجمہ: تمہیں جاننا چاہیے کہ تمہارے لیے وہی ابتلا اور آزمائش آج پهر پلٹ آئی ہے جو رسول کی بعثت کے وقت تهی۔ اس کے علاوہ رومیوں کی جانب سے مسلمانوں پر حملے کا خطرہ بهی موجود تها کیونکہ مسلمان کئی بار ان سے لڑچکے تهے۔ وہ مسلمانوں کو اپنے لئے خطرہ سمجهتے تهے اور موقع کی تلاش میں تهے کہ کسی طرح اسلام کے مرکز پر حملہ کرسکیں۔
دوسری جانب نبوت کا جهوٹا دعوی کرنے والے جیسے (مسیلمہ کذاب، طلیحہ و سجا) بهی مدینے پر حملے کی نیت سے اپنے طرفداروں اور طاقت کو جمع کرچکے تهے جو کہ مسلمانوں کے اتحاد کی وجہ سے ناکام ہوگئے۔ ایسی شرائط میں حضرت علی علیہ السلام صرف دین کی حفاظت اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں سوچتے نہیں تهے۔ اسی لئے نہج البلاغہ میں لکهتے ہیں:
فَوَ اللَّهِ مَا کَانَ یلْقَی فِی رُوعِی، وَلَا یخْطُرُ بِبَالِی، أَنَّ الْعَرَبَ تُزْعِجُ هذَا الْأَمْرَ مِنْ بَعْدِهِ صلی الله علیه وآله وسلم عَنْ أَهْلِ بَیتِهِ، وَلَا أَنَّهُمْ مُنَحُّوهُ عَنِّی مِنْ بَعْدِهِ! فَمَا رَاعَنِی إِلَّا انْثِیالُ النَّاسِ عَلَی فُلَانٍ یبَایعُونَهُ، فَأَمْسَکْتُ یدِی حَتَّی رَأَیتُ رَاجِعَةَ النَّاسِ قَدْ رَجَعَتْ عَنِ الْإِسْلَامِ، یدْعُونَ إِلَی مَحْقِ دِینِ مُحَمَّدٍ – صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – فَخَشِیتُ إِنْ لَمْ أَنْصُرِ الْإِسْلَامَ وَأَهْلَهُ أَنْ أَرَی فِیهِ ثَلْماً أَوْ هَدْماً، تَکُونُ الْمُصِیبَةُ بِهِ عَلَی أَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلَایتِکُمُ الَّتِی إِنَّمَا هِی مَتَاعُ أَیامٍ قَلَائِلَ، یزُولُ مِنْهَا مَا کَانَ، کَمَا یزُولُ السَّرَابُ، أَوْ کَمَا یتَقَشَّعُ السَّحَابُ؛ فَنَهَضْتُ فِی تِلْکَ الْأَحْدَاثِ حَتَّی زَاحَ الْبَاطِلُ وَزَهَقَ، وَاطْمَأَنَّ الدِّینُ وَتَنَهْنَهَ (۴)۔
ترجمہ: اس موقع پر بخدا کبهی مجهے یہ تصور بهی نہیں ہوا تها اور میرے دل میں یہ خیال گزرا تها کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عرب خلافت کا رخ ان کے اہل بیت سے موڑ دیں گے اور نہ یہ کہ ان کے بعد اسے مجه سے ہٹا دیں گے۔ مگر ایک دم میرے سامنے یہ منظر آیا کہ لوگ فلاں شخص کے ہاته پر بیعت کرنے کیلئے دوڑ پڑے۔ ان حالات میں میں نے دیکها کہ مرتد ہونے والے اسلام سے مرتد ہو کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دین کو مٹا ڈالنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اب میں ڈرا کہ کوئی رخنہ یا خرابی دیکهتے ہوئے میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں گا تو یہ میرے لئے اس سے بڑه کر مصیبت ہوگی جتنی یہ مصیبت کی تمہاری یہ حکومت میرے ہاته سے چلی جائے جو تهوڑے دنوں کا اثاثہ ہے۔ اس میں ہر چیز زائل ہوجائے گی اس طرح جیسے سراب بے حقیقت ثابت ہوتا ہے یا جس طرح بدلی چهٹ جاتی ہے۔ چنانچہ میں ان بدعتوں کے ہجوم میں اٹه کهڑا ہوا۔ یہاں تک کہ باطل دب کر فنا ہوگیا اور دین محفوظ ہوکر تباہی سے بچ گیا۔
حضرت علی علیہ السلام کے کلام سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ نے خلافت کے غصب کرنے اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے گهر پر حملے کے دوران جنگ کرنے کے بجائے خاموشی اور صبر سے کام لیا۔ اور یہ صرف اور صرف اسلام اور دین محمدی کو بچانے کی خاطر تها۔
البتہ ہماری بعض روایات کے مطابق ان کا سامنا کیا اور فرمایا: اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصیت نہ ہوتی تو میرے گهر کے قریب آنے کی جرات نہیں کرسکتے تهے۔ فوثب علی (ع) فأخذ بتلابیبه، ثم نتره فصرعه ووجأ أنفه ورقبته وهمّ بقتله، فذکر قول رسول الله (ص) وما أوصاه به، فقال: والذی کرّم محمد (ص) بالنّبوة، لولا کتاب من الله سبق وعهد عهده إلی رسول الله (ص) لعلمت إنک لا تدخل بیتی ۔(۵) ترجمہ: حضرت علی حملہ کرنے والے پر ٹوٹ پڑے، اس کی گردن کو دبوچا اور زمین پر پٹخ دیا، اس کی ناک اور گردن کو زخمی کر دیا اور قتل کرنے کا ارادہ کیا کہ رسول اکرم کی وصیت یاد آگئی اور فرمایا: اللہ کی قسم جس نے حضرت محمد کو نبی بنایا، اگر اللہ اور اس کے رسول کا عهد و پیمان نہ ہوتا تو تم جان لیتے کہ میرے گهر میں کیسے داخل ہوتے۔
اگر حضرت علی (ع) صبر کرنے کے بجائے تلوار اٹهاتے تو دین اسلام کو نقصان ہوتا۔ کیونکہ اسلام دنیا بهر میں پهیل رہا تها اور دیگر مذاہب کے لوگ اسلام قبول کررہے تهے ۔ جبکہ تازہ مسلمان ہونے والے ابهی صحیح طرح اسلامی تعلیمات سے آشنا نہیں ہوئے تهے۔ اور ساته حضرت علی کو پیغمبر اکرم کی نصیحت بهی تهی کہ ایسے موقع پر صبر کرنا ۔ امام کی ذمہ داری اپنی ذات یا ذاتی جائیداد بچانا نہیں بلکہ دین بچانا ہے۔ جیسے کہ امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے میدان میں اپنے سارے خاندان اور اصحاب کو قربان کرکے دین بچایا، امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساته صلح کرکے دین کی حفاظت کی ویسے ہی حضرت علی علیہ السلام نے صبر و خاموشی کے ذریعے دین کو مٹنے سے بچایا ہے۔ اور اسی وجہ سے مولا علی نے قیام کے بجائے صبر کو ترجیح دی۔
منابع:
1. نہج البلاغہ ، خطبہ 3
۲. مسند احمد بن حنبل، جلد ۱، صفحہ ۴۶۹
۳. نہج البلاغہ، خطبہ ۱۶
۴. نہج البلاغہ، مکتوب ۶۲
۵. کتاب سلیم بن قیس ہلالی، صفحہ ۵۸۶