توصیف احمد وانی پدگام پوری
اونتی پورہ کشمیر
جن لوگوں کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ان کی مثال بھیڑوں کی سی ہوتی ہے، جن کی زندگی کا مطمع نظر صرف اور صرف چارے اور پانی کا حصول ہوتا ہے۔ دن اور رات کا آنا جانا موسموں کا بدلنا پھر نئی چراگاہ میں آمد، غرض کسی بات سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔ حتٰی کہ چرواہا انہیں ایک ایک کر کے ذبح بھی کر دے تو انہیں معلوم نہیں ہوگا کہ چرواہا ہمیں کیوں ذبح کر رہا ہے کیونکہ وہ عقل و شعور سے عاری ہوتی ہیں۔ جب کہ انسانوں کی مثال جن کی زندگی کا کوئی مقصد ہوتا ہے ایک چرواہے کی سی ہے۔ جو عقل و دانش کی بنیاد پر بھیڑوں کے ریوڑ کو موسموں کی شدت اور بھیڑیوں کے خطرے سے محفوظ رکھتا ہے اور ان کی رہنمائی ہری بھری چراگاہوں کی طرف کرتا ہے۔ کیونکہ عقل و دانش کے ساتھ ایک تربیت یافتہ چرواہے کو معلوم ہوتا ہے کہ بھیڑ اور بکریوں کو کیسے منظم رکھنا ہے۔ اور ان کو فطرت کے اصولوں کے مطابق کیسے محفوظ رکھنا ہے۔اس عمل میں چرواہے کا اعلیٰ نصب العین کار فرما ہوتا ہے اور یہ نصب العین ہی انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔ مقصد کے حصول کی لگن ہی انسان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ اور مشکلات کو جھیلنے کی جرات دیتا ہے۔ یہ مقصد کے حصول کی لگن ہی ہے جو انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ ہر ناممکن کام کو ممکن بنا سکتا ہے۔
کامل نظام زندگی کا مقصد ہمیشہ عقل و شعور کی بنیاد پر متعین ہوتا ہے۔ایسے میں دیکھا جائے تو جب کوئی قوم عقل و شعور سے غافل ہو تی ہے تو اس کی زندگی اصل مقصدیت سے نا معلوم ہو جاتی ہے۔ حالانکہ زندگی ایک مقصدیت اور اعلیٰ نصب العین کے تحت فطرت الٰہیہ کے تابع ہو کر چلتی ہے اور اللہ تعالٰی نے انسانی زندگی کو بہترین طریقے سے جینے کے لیے اسے اپنا ایک منشور دیتے ہوئے دنیا میں اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے، یہاں منشور سے مراد فطرت الٰہیہ کے اصول و قوانین کو عقل و دانش کی بنیاد پر قائم کرنے کو کہا گیا ہے اور تمام انسانوں کو ایک آزاد فطرتی سوچ پر پیدا کیا گیا ہے جو انسانوں کی ہر طرح کی غلامی سے انکار کرے گا۔ اور جب عقل و شعور کو چھین کر اسے گمراہی کے گہرے گڑھے میں پھینک دیا جاتا ہے تو اس کے اندر غلامانہ سوچ کا سرایت کر جانا مشکل نہیں ہوتا۔
جب قوموں سے آزاد سوچ کو ختم کرکے عقل و شعور پر پردے ڈال دیے جاتے ہیں تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں معدوم پڑ جاتی ہیں اور ایسی قومیں اجتماعی ترقی کی بجائے انفرادی ترقی کو ترجیح دیتے ہوئے وحدت انسانیت سے ٹوٹ کر تقسیم ہو جایا کرتی ہیں۔ جس میں صرف انفرادی مفادات کو بروئے کار لاتے ہوئے قوم کا استحصال ہونا کارفرما ہوتا ہے۔
جہاں انسان جاہلیت کے ایک نئے دوراہے پر کھڑا ہوتا ہے اور اس کے پاس تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
دنیا میں ہمیشہ جب بھی کسی قوم نے ترقی کی ہے وہ عقل و دانش کی مرہون منت رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی انسانیت میں تین چیزیں ودیعت فرمائی ہیں۔
(1) رائے کلی:
یعنی انسانی اجتماع کی خدمت کا جذبہ، جس کی بنیاد پر وہ اپنے اجتماع میں صالح نظام قائم کر کے انفرادی اور اجتماعی اخلاق کی درستگی کے لئے اصلاح کرتا ہے اور مرنے کے بعد کی زندگی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
(2) حب جمال:
جس کی وجہ سے وہ اپنی تخلیقات کو وسیع پیمانے پر اپنے فائدے کے علاوہ اس میں مزید حسن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاکہ معاشرہ ایک عمدہ خوبصورتی کا نمونہ پیش کرے۔
(3) عقل و درایت:
عقل انسان کو کسی بھی چیز کی اشد ضرورت کا احساس دلاتی ہے اور درایت اس مشکل حل کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ یہاں پر اس بات کو سمجھنے کی ضرورت کار فرما ہو گی کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انسانی سماجی معاشرہ ایسی طرز پر بھی پیدا کر سکتا تھا کہ اس میں ٹکراؤ کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہتی۔
جیسے باقی پوری کائنات ہے لیکن فطرت الٰہیہ نے اس میں حکمت جانی کہ انسان صبرو استقامت پر قائم رہتے ہوئے اپنی عقل، اپنے تدبر اور ہمت سے ایک بہترین نظام قائم کرے جس سے سب انسانوں کی بھلائی اور خوشحالی ہو۔ اس کے لئے اس نے اسے عقل دی اور پھر عقل کی مزید رہنمائی کے لئے ضرورت پیش آنے پر انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا جنہوں نے اپنے اپنے ادوار میں انسانی جماعتوں کو عقل و دانش کی بنیاد پر تعلیم و تربیت سے روشناس فرمایا۔ اور سب سے آخر میں خدائے باری تعالیٰ نے حضرت محمدصہ کے ذریعے سے قرآن حکیم کو بین الاقوامی دستور حیات بنا کرنازل فرمایا۔
اس لیے آج اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب انسان وہ ہو گا جو ذوال شدہ انسانی معاشرے میں فطرت الٰہیہ کے مطابق عدل پر مبنی سماجی، سیاسی اور معاشی نظام قائم کرنے اور اسے پوری استعداد سے چلانے میں اپنی پوری ہمت و اسقرار سے کام لے گا۔
مسلمانوں کے روشن ادوار کی ترقیات ہمیشہ عقل و شعور پر مبنی تعلیم و تربیت کا نمونہ رہی ہیں۔ کہ جہاں ہر طرف ظلم و جبر اور جاہلیت کا گھپ اندھیرا چھایا ہوا ہے اور انسانوں کی تہذیب و تمدن بری طرح سے مفلوج ہے۔ ایسے میں اللہ پاک فطرت ربانیت کے اصولوں کو نافذالعمل بنانے کے لئے اپنے محبوب کو مبعوث فرماتے ہیں اور جب ظلم و جبر کے مقابلے میں عقل و شعور کی بنیاد پر لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ انسانی نظام زندگی کن اصولوں پر قائم ہونا چاہیے تو ایسے میں آپ کو کتنی خوفناک اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ آپ کی سیرت کے انقلابی پہلو سے آپ کی زندگی کا صحیح مطالعہ پر غور کریں تو آپ کا پہلا اعلان یہی تھا کہ میرے آنے کے بعد کسریٰ اور قیصر کے ظالم نظاموں کا خاتمہ ہو جائے گا اور قیا مت تک میری پارٹی اور میرے پروگرام کا اصل مقصد سرمایہ داریت پر مبنی ظلم و جبر کے نظاموں کو ختم کر کے عدل و انصاف پر سماجی اور معاشی نظام کا قیام ہو گا۔
حضور نبی کریم صہ نے اس سرمایہ داریت کے نظام کو بنیادی طور پر ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے ایک منظم جماعت (پارٹی) تشکیل دی۔ جس میں اکثریت سے عرب کے قابل نوجوان طبقہ کو دعوت دی گئی۔ کیونکہ کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس کے نوجوانوں کے سر ہوتا ہے۔ جن کو باقاعدہ ایک مضبوط نظم و ضبط کے تحت صبرو استقامت پر قائم رہتے ہوئے دار ارقم اور دار الصفٰہ جیسے مقامات کو ایک سکول آف تھاٹ کے درجے پر قائم کر کے وہاں عقل و شعور پر مبنی تعلیم و تربیت فرمائی جاتی ہے۔ اور آپ کی پارٹی میں شامل سب لوگ آپ سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے ہیں جو عقل و شعور کے ساتھ ہدایت پر مبنی ہوتی ہے اور عالمگیریت کے ساتھ قابل عمل وقوع پذیر ہوتی ہے۔ جہاں ایک بہترین اور کامل سوسائٹی کے قیام کے لئے انفرادی جدوجہد کی بجائے اجتمائی جدوجہدکو فروغ دیا جاتا ہے۔ اور یہ سب اسی نظم و ضبط پر مشتمل اجتماعی عمل اور جدوجہد کا ہی نتیجہ تھا کہ پہلے عرب میں قومی درجے پر انقلاب برپا ہوتا ہے پھر اکہتر (71) سال کے عرصہ میں کسریٰ اور قیصر کی حکومتوں کو مکمل طور پر ختم کر کے وہاں بین الاقوامی سطح پر عدل و انصاف پر مبنی ایک شاندار نظام قائم کیا جاتا ہے۔
یہ سب حضور کی تربیت یافتہ جماعت کا ہی نتیجہ تھا کہ حضور کے وصال کے بعد تمام صحابہ کرام نے پوری دنیا میں اسلامی نظام تمدن کو فروغ دیا۔ اور ہر صحابی نے دین اسلام کی کامیاب اصطلاحات کوپوری دنیا میں غالب کیا جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں امن و امان قائم ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے حقوق کو روا رکھا گیا۔ اور جہاں بھی سیاسی سماجی اور معاشی نظام قائم کیا وہاں خوشحالی کے ساتھ ساتھ روحانی اور مادی ترقی پیدا ہوتی گئی۔
ایک جلیل القدر صحابی حضرت عمر بن الخطاب رضہ خود فرماتے ہیں کہ عمر کو تو بکریاں چرانا نہیں آتیں تھیں اور آج بائیس لاکھ مربع میل پرکامیاب حکومت چلانے کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ جنہیں اسلام کی تاریخ میں سیدنا فاروق اعظم کے لقب سے پکارا گیا۔ اسی طرح ایک بار حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضہ فرماتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب بکریاں چرانے کے عوض چند کھجوریں بطور اجرت ملتی تھی اور آج ایک پارٹی کی قیادت بخوبی سر انجام دے رہا ہوں۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ انہیں صدیق اعظم کے لقب سے پکارا گیا۔
اسی طرح صحابہ کرام، سلاطین، اور جری بہادر سپہ سالاران کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے جو دین کے غلبہ کے لئے پوری دنیا میں اپنی مثال آپ نظر آتے ہیں۔
جنہیں تاریخ رہتی دنیا تک یاد رکھتی ہے۔تو یہاں پر یہ کہنا درست ہو گا کہ یہ اسی شعور یافتہ تربیت کا نتیجہ تھا جس کی راہنمائی حضور نے خود فرمائی تھی۔ کہ کوئی بھی صالح اور کامل جماعت جب بھی انسانوں کی بھلائی کے لئے کمر بستہ ہوتی ہے تو وہ شعوری بنیادوں پر تربیت یافتہ جماعت ہوتی ہے۔جو صف در صف کھڑی رہتی ہے جس میں ایک شخصیت کے چلے جانے سے اس کے فکر، نظریہ اور ویژن میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی بہترین حکمت عملی کے تحت آگے بڑھتی ہے۔
دور حاضر میں انسانیت کی پستی کا جو حال ہے اس کے مسائل کا موازنہ فرعون، نمرود ، شداد اور ابوجہل کے نظاموں سے کرنا زیادہ مشکل نہ ہوگا۔
کہ آج بھی انسانیت تباہی کے دہانے پر کھڑی سسکیاں لے رہی ہے۔ اور ان مسائل کا حل خواہشات یا جدوجہد کئے بغیر دعا کر لینے سے نہیں ہوگا۔ اب کسی نبی کی بعثت نہیں ہو گی کہ کوئی آئے گا اور انسانی مسائل کو حل کرے گا۔
آج انبیاء اور صحابہ کرام کی زندگیوں کے انقلابی پہلوؤں کو سامنے رکھ کر مستقبل کے لئے حکمت عملی طے کرنا ہو گی۔ کیونکہ قوموں کی ترقی ہمیشہ شعور پر مبنی تربیت یافتہ قیادتوں پر موقوف ہوا کرتی ہے۔ جس کے لئے صبرو استقامت کے ساتھ محنت اور جدوجہد درکار ہوتی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں سمجھنا ہو گا کہ دور حاضر میں جو قیادتیں حکمرانی کر رہی ہیں وہ کتنی باشعور اور تربیت یافتہ ہیں۔ ہمیں تاریخ کا صحیح مطالعہ کرنا ہو گا۔ شیخ کامل کی رہنمائی میں دین کی صحیح پہچان کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط پیدا کرتے ہوئے شعوری بنیادوں پر تربیت کے مراحل سے گزر کر جماعت تیار کرنا ہو گی۔ اور معاشرے کے نوجوانوں کے اند ر شعور اور قومی سوچ کوبیدار کرکے ان کی قابلیت میں نکھار پیدا کرنا ہو گاجس سے ایک کامیاب لیڈر شپ پیدا ہو۔
ان ہی بنیادوں پر عدل و انصاف پر ایک مروجہ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو دینی شعور کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے! آمین
مآخذ:
(1)قرآنی شعور انقلاب
از مولانا عبیداللہ سندھی
(2)سیرت رسول کریم
از مولانا حفظ الرحمٰن سیو ہاروی
(3)سماجی انصاف اور اجتماعیت
از مولانا غلام مصطفٰی قاسمی