Download 63

مسئلۂ فلسطین اور مزاحمتی محاذ کی کامیابی

مسئلۂ فلسطین اور مزاحمتی محاذ کی کامیابی

تحریر: عادل فراز

’طوفان الاقصیٰ‘ کے بعد مزاحمتی محاذ نے جس حکمت عملی کے ساتھ استعماری طاقتوں کے ساتھ پنجہ آزمائی کی ہے ،اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ۔یہ جنگ حماس اور اسرائیل کے درمیان نہیں ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں موجود مزاحمتی محاذ اور استعماری نظام کے مابین ہے۔جنگ کی ابتدامیں عالمی رائے استعمار کے حق میں تھی اور اب جب کہ جنگ بندی کا صورپھونکاجانے والاہے ،عالمی رائے یکسر بدل چکی ہے ۔اگر عالم اسلام نے امام خمینیؒ کے سیاسی نظریے پر عمل کرتے ہوئے مسئلۂ فلسطین کے حل کی کوشش کی ہوتی تو آج ہزاروں فلسطینیوں کا بہیمانہ قتل نہ ہوتا۔مگر جس وقت امام خمینی نے قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ’یوم قدس‘ منانے کی اپیل کی تھی،اس وقت مسلمان ایران اور سعودی عرب کے زیر اثر دوحصوں میں بٹ گئے ۔اکثر مسلمانوں نے اس نعرے کو خالص ایرانی نعرہ قراردے کر ’عالمی یوم قدس‘ سے دوری اختیارکی ،اس کا نتیجہ یہ ہواکہ مسئلۂ فلسطین عالمی سطح پر اس طرح پیش نہیں ہوسکاجس طرح ہوناچاہیے تھا۔اگر امام خمینی کی جدوجہد اور حکمت عملی نہ ہوتی تو مسئلۂ فلسطین کب کا ختم ہوچکاہوتا ۔مگر ایران نے اس مسئلے کو ناصرف زندہ رکھا بلکہ نئی زندگی بخشی ۔اب جبکہ مسلمانوں عرب ملکوں کی بزدلی اور منافقانہ کردار کو باالمشافہ دیکھ چکے ہیں،انہیں احساس ہورہاہے کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل مزاحمتی محاذ کی حمایت ہے ۔اس لئے مسلمانوں کی عام رائے عرب ملکوں کے تئیں بدل چکی ہے اور اب عالمی ملّی قیادت مزاحمتی محاز کی طرف منتقل ہوچکی ہے ۔اگر یہ مزاحمتی محاز نہیں ہوتا تو آج غزہ اسرائیل کے قبضے میں ہوتا اور جس مقاومت نے اسرائیلی فوجوں کو مسلسل ناکامی سے دوچارکیاہے ،وہ موجود نہیں ہوتی ۔

غزہ پر حملے کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط ،اس حقیقت کو تو اب تک اسرائیلی وزیر اعظم باورکرچکے ہوںگے ۔کیونکہ حماس سے مقابلے کے بجائے غزہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ نتین یاہو نے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لئے کیا تھا۔حماس کےحملے کے بعدعالمی رائے اسرائیل کے حق میں بدل چکی تھی ۔اسرائیلی وزیر اعظم نے عالمی ہمدردی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کیونکہ اسرائیل میں ان کی مقبولیت دن بہ دن گھٹتی جارہی تھی ۔ان پر ایسے الزامات عائد ہورہے تھے جس کی بنیاد پر وہ عوامی حمایت کھوتے جارہے تھے۔اس لئے انہوں نے اپنی مقبولیت برقراررکھنے کے لئے غزہ پر حملے کا حکم دیدیا تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرسکیں ۔جنگ کی ابتدا میں وہ اپنی حکمت عملی میں کامیاب نظر آرہے تھے کیونکہ عالمی حمایت کے ساتھ اسرائیلی عوام کی حمایت بھی انہیں مل رہی تھی ۔لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے اس حمایت کو گنوادیا،کیونکہ حماس نے بڑی تعداد میں اسرائیلی لوگوں کو یرغمال بنالیا تھا۔دوسری طرف غزہ میں انسانی قتل عام پر عالمی رائے بھی بدلنا شروع ہوگئی تھی ۔حقو ق انسانی کی تنظیمیں فعال ہوچکی تھیں اور دنیا کی اکثریت غزہ کےلوگوں کی حمایت میں سڑکوں پر تھی ۔خاص طورپر عورتوں اور بچوں کے منظم اور بہیمانہ قتل نے عالمی رائے کو غزہ کے حق میں پوری طرح بدل دیا۔دوسری طرف وہ ملک جو اسرائیل کے حلیف تھے وہ بھی عوامی دبائو کے زیر اثر جنگ بندی کے مطالبے پر مجبور ہوچکے تھے ۔برطانیہ ،فرانس اور امریکہ جیسے ملکوں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے تھے جن کی بنیاد پر ان کی رائے میں بھی تبدیلی رونما ہوئی۔امریکہ جس نے اس سے پہلے دو بار جنگ بندی کی قرارداد کو سلامتی کونسل میں ویٹو کیاتھا،اس بار اس کا رویہ بھی بدلا ہوانظر آیا ۔اس نے جنگ بندی کی قرارداد کی حمایت میں ووٹ تو نہیں دیا لیکن اسرائیل کی حمایت سے بھی دوری اختیارکرلی ۔امریکہ کے اس بدلے ہوئے رویے نے نتین یاہو کے ہوش اڑادئیے کیونکہ ان کی فوج امریکی حمایت کے بغیر ایک لمحہ میدان میں نہیں ٹک سکتی ۔۷ اکتوبر کے بعد امریکہ نے اسلحے کی بڑی کھیپ اسرائیل روانہ کی اور دیگر حلیف ملکوں کو بھی اسرائیل کی مدد پر آمادہ کیاتھا۔لیکن اب حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں اور اسرائیل پر جنگ بندی کا دبائو بڑھ رہاہے ۔

’طوفان الاقصیٰ‘ کا ایک بڑافائدہ یہ ہواکہ فلسطین میں حزب اختلاف کمزور پڑگیاہے ۔حماس جو اس سے پہلے غزہ تک محدود تھا،اب اسکی مقبولیت کا دائرہ پورے فلسطین کو اپنی گرفت میں لے چکاہے ۔حماس کی مقبولیت مستقبل میں اسرائیل کے لئے مزید خطرناک ثابت ہوگی ،اس کا اندازہ یقیناً اسرائیلی وزیر اعظم کو بھی ہوگا ۔غزہ سے باہر نکلنے کے بعد اسرائیل کے لئے مزید مشکلات بڑھ جائیں گی ۔کیونکہ حماس کسی بھی حال میںغزہ کو اسرائیل کے سہارے نہیں چھوڑے گا ۔جبکہ اسرائیل کی کوشش یہ ہوگی کہ وہ غزہ کو اپنے نظام کے تحت رکھے ،لیکن یہ ناممکن ہے ۔غزہ پر حملے کے وقت اسرائیلی وزیر اعظم نے جو دعوے کئے تھے وہ جھوٹے ثابت ہوئے ۔انہوں نے کہاتھاکہ جنگ کا خاتمہ حماس کے خاتمے سے مشروط ہے ۔لیکن چھ ماہ گذرنے کے بعد بھی اب تک حماس کو ختم نہیں کیاجاسکا۔حتی ٰ کہ اسرائیلی فوجیں اپنے یرغمال شہریوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔اسرائیلی وزیر اعظم نے غزہ پر کنڑول کا دعویٰ بھی کیاتھا ،جس میں انہیں اب تک کامیابی نہیں ملی ۔اسرائیلی فوجوں کو غزہ میں ہر محاذ پر ناکامی ہاتھ لگی ہے۔انہوں نے صرف بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیاہے ،اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کے پاس کوئی قابل ذکر حصول یابی نہیں ہے ۔

۷ اکتوبر ’طوفان الاقصیٰ‘ کے بعد تقریباً ۲۰ لاکھ لوگوں نے رفح کی طرف نقل مکانی کی تھی ۔رفح میں حقوق انسانی کی تنظیموں نے پناہ گزین کیمپ قائم کئے جہاں بے گھر لوگوں نے پناہ لی ۔لیکن جب نتین یاہو نے اعلان کیاکہ وہ حماس کے خاتمے کے لئے رفح پر بھی حملہ کریں گے ،اس وقت پوری دنیا سہم اٹھی تھی ۔اس اعلان پر اسرائیل کے حلیف ممالک بھی برافروختہ ہوئے اور انہوں نے اسرائیل پر جنگ بندی کا دبائو بنایا۔خاص طورپر امریکہ جو اب ظاہری طورپر اسرائیل سے ناراض نظر آرہاہے کیونکہ نتین یاہو امریکی صدر کے مطالبے پر بھی کان نہیں دھر رہے ہیں،اس لئے امریکہ سلامتی کونسل میں اسرائیل کی حمایت سے گریز کررہاہے ۔جس وقت سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پیش کی جارہی تھی اسی وقت اسرائیلی فوجیں رفح پر حملہ کررہی تھیں ۔اس حملے میں ایک بارپھر طبی ڈھانچے کو خاص طورپر نشانہ بنایاگیاتاکہ زخمیوں کا علاج ممکن نہ ہوسکے ۔رفح میں موجود پناہ گزین اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ان کے پاس نقل مکانی کا متبادل بھی موجود نہیں ہے کیونکہ انہیں رفح کراسنگ سےگذرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ایسے میں اندیشہ یہ ہے کہ اگر اسرائیلی حملے جاری رہے تو رفح انسانوں کے قبرستان میں بدل جائے گا۔دیکھنایہ ہے کہ سلامتی کونسل جنگ کی قرارداد کو کیسے قابل عمل بناتاہے کیونکہ اب اگلامرحلہ اسرائیل کو جنگی مجرم ثابت کرنے کا ہے ،جس کے لئے مختلف ملک سرگرم ہیں۔

’طوفان الاقصیٰ ‘ کے بعد دنیا دوخیموں میں بٹ گئی تھی لیکن اب دوسرا خیمہ بھی پہلے خیمے کے قریب آچکاہے ۔یعنی وہ خیمہ جو اسرائیل کے حق میں تھااس میں بھی سیندھ لگ چکی ہے۔اس کے علاوہ عالمی سطح پر اسرائیل کی دفاعی اور فوجی ساکھ کو بڑانقصان پہونچاہے جس کی تلافی عنقریب ممکن نہیں ہے ۔اسرائیل کا دفاعی نظام جو ’آئرون ڈوم ‘ کے بھروسے پر قائم تھا،اس کی ہوانکل چکی ہے ۔اس کی فوجی طاقت نے غزہ میں دم توڑدیا اور رہی سہی کسر بحر احمر میں حوثیوں نے پوری کردی ۔ان تشویش ناک حالات میں اسرائیلی وزیر اعظم کو جارحیت کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہاہے کیونکہ شکست خوردہ ظالم کا آخری حربہ بے گناہ انسانوں کا قتل کرکے اپنی ہاری ہوئی ذہنیت کوتسلی دینا ہوتاہے ۔عنقریب غزہ میں جنگ بندی کا صورپھونکا جائے گا ۔اس کے بعد اسرائیلی فوجیں غزہ سے باہر نکلنے پر مجبور ہوجائیں گی ۔حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر معاہدہ ہوگالیکن حماس غزہ کو اسرائیل کے سپرد نہیں کرے گا،کیونکہ غزہ کو اسرائیل کے سپرد کرنے کا مطلب اسرائیل کی شکست کو فتح میں بدلنے کے مترادف ہوگا۔جنگ بندی کے بعد صورت حال میں برقی تبدیلی رونما ہوگی ۔مسئلۂ فلسطین جو اب تک ناقابل حل رہاہے ،دنیا کو مزید اپنی طرف متوجہ کرے گا ۔یہ وہ وقت ہے کہ اگر مزاحمتی طاقتیں اسی طرح استقامت کا مظاہرہ کرتی رہیں گی ،تو مسئلہ فلسطین کا حل ان کی مرضی کے مطابق ہوگا۔اسرائیلی ریاست کا وجود خطرے میں ہے اس کا اعتراف خود صہیونی تجزیہ نگار کررہے ہیں ۔وہ اسرائیلی جو عربی النسل ہیں ،ان کے مؤقف میں بھی تبدیلی رونما ہوئی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مزاحمتی محاذ مسئلۂ فلسطین کے حل اور اسرائیلی ریاست کے خاتمے کے لئے کونسی حکمت عملی کا انتخاب کرتاہے ۔اس وقت دنیا کی نگاہیں امریکہ اور اسرائیل سے زیاہ مزاحمتی محاذ پر ٹکی ہوئی ہیں ،کیونکہ خطے میں امن کا مستقبل اسی محاذ کے ہاتھوں میں ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں