149

مجھے پہچانو! میں جنت البقیع ہوں

بقیع کی فریاد

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

مجھے پہچانو! میں جنت البقیع ہوں؛ میری گود میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش کے پالے آرام کر رہے ہیں ۔ آل سعود نے گنبد و بارگاہ منہدم کر کے اپنے لئے جہنم کی راہ ہموار کر لی۔ ان کے خیال خام میں میں ویران و خاموش ہوں لیکن عصمت الہیہ کے آفتاب و ماہتاب کی چمک اور دمک سے میں آج بھی روشن و منور ہوں۔ کرامت و عبادت اور علم و صداقت کے روشن مناروں سے آج بھی لوگ حصول ہدایت میں مصروف ہیں ۔ گلستان عصمت و طہارت کے پھولوں اور کلیوں کی خوشبو سے میرا بدن مہک رہا ہے اور اس خوشبو کو ہر باایمان اور طاہر مشام محسوس کر رہا ہے۔

چودہ سو سال سے میرا تذکرہ مسلمانوں کے زباں زد خاص و عام ہے ، فرزندان توحید علامت توحید کی بنا پر میرا احترام کرتے ہیں ۔ پہلے مجھ میں خار دار درخت تھے لیکن جب حکم خدا سے اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی تو خار کو پھول اور پتھر کو موم کر دینے والے رسولؐ رحمت کے حکم سے خار دار درختوں کو کاٹ کر مجھ سے جدا کر دیا گیا۔ انصار و مہاجرین میں سے ہر ایک نے مجھ پر اپنے لئے گھر بنوایا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی جناب عثمان بن مظعون ؓ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کا آخری مسکن میں ہی قرار پائی ۔ اس کے بعد جب دلبند رسولؐ ابراہیم ؓ نے فدیہ حسینی کا شرف حاصل کرتے ہوئے اس دنیا سے رحلت فرمائی تو حضورؐ نے یہ فرما کر میرے شرف میں اضافہ کر دیا کہ ابراہیمؓ کو میرے سلف صالح عثمان بن مظعونؓ سے ملحق کر دو۔ دفن ابراہیمؓ کے بعد مدینہ منورہ میں جو بھی اس دنیا سےکوچ کرتا اسکا آخری مسکن میری آغوش ہی ہوتی۔ امیرالمومنین علیہ السلام کی والدہ مہمان کعبہ جناب فاطمہ بنت اسد ؑ ہوں یا حضورؐ کے چچا عباس، پھوپھیاں صفیہ و عاتکہ وغیرہ ۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب اللہ کے نبی ؐ ہمارے یہاں تشریف لاتے تھے اور مجھ میں مدفون لوگوں کو سلام کرتے اور ان کے حق میں دعا کرتے تھے۔ آپؐ نے آب وحی سے دھلی اپنی زبان مبارک سے فرمایا: ‘‘بقیع سے ستّر ہزار (70000) افراد محشور ہوں گے جنکے چہرے چودہویں کے چاند کی طرح روشن و منور ہوں گے اور وہ بغیر کسی حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ ’’

28؍ صفر سن 11 ہجری کو جب حضورؐ کی وفات ہوئی ، اس کے بعد ان کی اکلوتی یادگار بیٹی پر مصائب کے پہاڑ ڈھائے گئے ، زمانہ یہاں تک بدل گیا کہ لوگوں ان کے گریہ سے اپنے امور میں خلل محسوس ہونے لگا تو بی بیؑ نے اپنے والد ماجد کی عزاداری اور اپنے حزن و ملال کے اظہار کے لئے میرا ہی انتخاب کیا اور میرا وہ حصہ بیت الحزن کے نام سے مشہور ہوا۔ اگر اہل دل ہیں تو آج بھی آپ کو میرے ذرے ذرے سے بی بی ؑ کا نوحہ ومرثیہ سنائی دے گا ۔ ‘‘صبت علی مصائب لو انھا ۔ صبت علی الایام صرن لیالیا’’

اور اسی عالم میں اپنے والد کی وفات کے 75 یا 95 دن بعد صدیقہ، مظلومہ، شہیدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے بھی جام شہادت نوش فرماتے ہوئے اس دنیا سے کوچ کیا ۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے حسب وصیت شب کی تاریکی میں چند خاص لوگوں کی موجودگی میں آپؑ کو دفن کیا اور ہمارے سینے پر چالیس نئی قبروں کے نشان بنا دئیے کہ جب صبح میں لوگوں کو پتہ چلا تو میرے یہاں آئے اور میری توہین و بے حرمتی کرنی چاہی لیکن صابر مشکل کشاء نے مجھے بے حرمتی سے بچا لیا اور دشمن میرے یہاں سے مایوس لوٹ گیا۔

سن 50 ہجری میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سبط اکبر کریم اہل بیتؑ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام زہر دغا سے شہید ہوئے تو مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام نے ان کے تیروں سے زخمی جنازے کو دفن کیا جس کے بعد میں خلد بریں کی عکاس بن گئی کیوں کہ جنت کے جوانوں کے ایک سردار کو دوسرے سردار نے مجھ میں دفن کر کے میرے شرف کو منزل معراج عطا کر دی۔

امام حسن علیہ السلام کے دفن سے میرے شرف میں ضرور اضافہ ہوا لیکن بعد دفن مظلوم کربلا نے اپنے بھائی کے فراق میں جو نوحہ پڑھا، اس کے احساس سے آج بھی میں لرزہ بر اندام ہوں ۔ مظلوم کربلا نےاپنے بھائی کے غم میں فرمایا: ‘‘اب جب کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو کفن پہنایا اور دفن کیا ہے تو کیسے زندگی میں کبھی خوش ہو سکتا ہوں ، کیسے اب خود کو کبھی آراستہ کر سکتا ہوں اور دنیا کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو سکتا ہوں ۔ اب اس کے بعد ہمیشہ میں آپؑ کے غم میں آنسو بہاؤں گا ، آپ کا غم میرے لئے طولانی ہے۔ مصیبت زدہ وہ نہیں کہ جس کا مال لوٹ لیا گیا ہو بلکہ مصیبت زدہ وہ ہے جس کابھائی مر گیا ہو۔ ’’

28؍ رجب سن 60 ہجری کو جب قبلہ ایمان امام حسین علیہ السلام نے قبلہ عبادت کی جانب کوچ کیا تو کوچ سے پہلے میرے یہاں آئے اور اپنے بھائی اور دیگر اعزہ کی قبروں سے با حالت گریہ رخصت ہوئے اور جب اہل حرم کا لٹا قافلہ واپس مدینہ آیا تو ہاشمی خواتین جناب ام البنینؑ کی قیادت میں میرے یہاں آتی تھیں اور شہداء کربلا کی عزداری کرتی تھیں یعنی جو بیت الحزن شہادت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے تعطیل ہو گیا تھا وہ فرزند فاطمہؑ کے غم میں دوبارہ آباد ہو گیا۔

ائے عباسؑ کی وفا کا نعرہ لگانے والو! ائے عباس ؑ کا علم اٹھانے والو! عباس ؑ اور ان کے تینوں بھائی کربلا میں دفن ہیں لیکن مادر عباسؑ ام البنین ؑ جب بھی اپنے چاروں بیٹوں کی عزاداری کرتی تو پہلے میرے سینے پر ان کی قبروں کے نشان بناتی تھیں ۔ یعنی ان کے جسموں کی امین سرزمین کربلا ہے لیکن ان کے غم میں ان کی ماں کی آنکھوں سے جاری ہونے والے اشکوں کی امین میں ہوں۔

امام زین العابدین علیہ السلام ، امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام شہید ہوئے تو ان کے آخری مسکن کا شرف بھی مجھے ہی حاصل ہوا۔ مذکور معصوم ذوات مقدسہ کے علاوہ حضور ؐ کی اکثر ازواج، اصحاب ، بنی ہاشم کی نامور شخصیات بلکہ اس وقت سے لے کر اب تک مدینہ یا اس کے قرب و جوار میں جو بھی اس دنیا سے کوچ کرتا ہے اسے میرا ہی جوار نصیب ہوتا ہے۔

بنی امیہ کے دور حکومت میں تو کچھ نہ ہوا لیکن جب بنی عباس بر سر اقتدار ہوئے تو ہمارے یہاں تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی قبروں پر گنبد بارگاہ تعمیر ہوئے، چاروں معصوم اماموں کی قبریں ایک ہی ضریح میں تھیں۔ اسی طرح دوسری قبروں پر بھی حسب شخصیت گنبد و بارگاہ تعمیر ہوئے۔ اسی طرح بیت الحزن بھی تعمیر ہوا جو مسجد فاطمہ ؑ کے نام سے مشہور ہوا۔

میرا شرف و فضیلت کسی پر پوشیدہ نہیں ہے، میں ملائکہ کی رفت و آمد کی جا ہوں۔ (مختلف الملائکۃ) ، صرف ملائکہ ہی نہیں بلکہ معصوم ائمہ علیہم السلام نے بھی ہمیشہ میرے یہاں تشریف لا کر میرے شرف میں اضافہ کیا۔ میرے سینے پر معصومین ؑ کے قدموں کے نشان ہیں۔

لیکن افسوس صد افسوس ! خیبر کے شکست خوردہ یہودی ، مباہلہ کے ناکام و نامراد نصاریٰ کی اولاد نے کچھ نام نہاد مسلمانوں میں اپنی استعماری اور اسکتباری فکر (مغربی سیاست) کے تحت ایک نیا فرقہ جنم دے کر اپنا انتقام لینے کی ناکام کوشش کی ۔ نتیجہ میں نجدی حکام آل سعود و آل خلیفہ وجود میں آئے۔

وہ اسلام اور اسکی تعلیمات کو تو نہ ختم کر سکے لیکن مجھے ویران کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 8؍ شوال سن 1344 ہجری کو مجھے ایسے منہدم کیا گیا کہ جو بھی دیکھتا وہ یہی سمجھتا کہ جیسے ہمارے یہاں زبردست زلزلہ آیا ہو۔ آل سعود کے ظلم و ستم اور سفاکیت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ، سعودیہ میں مذہبی آزادی کا فقدان، شیعوں کا قتل عام، آیۃ اللہ محمد علی عمری ؒ کی 45 سالہ اسیری اور آیۃ اللہ شیخ باقر النمر ؒ کی مظلومانہ شہادت ہمارے مدعا پر دلیل ہے۔ آج بھی قطیف جیسے شیعہ نشین علاقوں میں سعودی مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ بنام توسیع مساجد نہ جانے کتنے اسلامی آثار ختم دئیے گئے۔ شہداء کے خون ، یتیموں کے آنسوں اور بیواؤں کی آہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

میری ویرانی کی خبر سنتے ہی پاکیزہ نفوس اور شریف خون جوش میں آگئے۔ ہندوستان، عراق، ایران، انڈونیشیاء، ترکی اور دیگر ممالک میں میری آبادی اور تعمیر جدید کے لئے احتجاجات و اقدامات ہوئے اور روز عزا منایا گیا۔

آل سعود برباد/ چراغ دین محمدی روشن باد

میں اپنے چاہنے والوں کے احتجاجات و اقدامات نہیں بھول سکتی۔ لیکن اب میں خود بھلا دی گئی ہوں ۔ بولنے والے تو بہت ہیں لیکن میرے سلسلہ میں خاموش ، لکھنے والے تو لکھ رہے ہیں لیکن میں طاق نسیاں کا شکار، کسی کو میری فکر نہیں ۔ میں بھی وہی نوحہ پڑھ رہی ہوں جو چودہ سو سال پہلے مظلومہ صدیقہ طاہرہ نوحہ فرماتی تھیں۔ ‘‘صبت علی مصائب لو انھا ۔ صبت علی الایام صرن لیالیا’’

لیکن یاد رہے اگر کوئی میرے حق میں نہ بھی بولے، کچھ نہ لکھے اور میری فکر نہ کرے۔ تب بھی مجھے یقین ہے کہ جب غیبت کی بدلی چھٹے گی اور ہمارے صاحب و وارث تشریف لائیں گے وہ ضرور اپنے آباء و اجداد کے روضے تعمیر کرائیں گے۔

ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں کوئی بھی میرا چاہنے والا نہیں ہے، میرے چاہنے والے بھی ہیں لیکن ان میں سے بعض کے آپسی اختلافات نے میرے مسئلہ کو مذہبی و عقیدتی سے سیاسی بنا دیا ہے ، نتیجہ میں اگرچہ وہ سب میرے لئے ہی بولتے ہیں لیکن ان کے افتراق نے احتجاج کو کمزور کر دیا ہے۔ ائے میرے چاپنے والو! ائے میری محبت کا دم بھرنے والو! ائے میرے حق میں آواز بلند کرنے والو! کم از کم میرے لئے تو ایک ہو جاؤ تا کہ تمہاری آواز ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرے نہیں بلکہ متحد احتجاج ہو جو ظلم کی بنیادیں ہلا دے۔ تم خود کو نہیں بلکہ مجھے محور بناؤ۔

مجھے پہچانو! میں جنت البقیع ہوں

میری گود میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش کے پالے آرام کر رہے ہیں ۔ آل سعود نے گنبد و بارگاہ منہدم کر کے اپنے لئے جہنم کی راہ ہموار کر لی۔ ان کے خیال خام میں میں ویران و خاموش ہوں لیکن عصمت الہیہ کے آفتاب و ماہتاب کی چمک اور دمک سے میں آج بھی روشن و منور ہوں۔ کرامت و عبادت اور علم و صداقت کے روشن مناروں سے آج بھی لوگ حصول ہدایت میں مصروف ہیں ۔ گلستان عصمت و طہارت کے پھولوں اور کلیوں کی خوشبو سے میرا بدن مہک رہا ہے اور اس خوشبو کو ہر باایمان اور طاہر مشام محسوس کر رہا ہے۔

لہذا میری فریاد ہے، ائے فرزندان توحید! علامت توحید میں ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والو! سرکار کے جگر کے ٹکڑوں کا آخری مسکن میں ہوں۔ ائے قاریان قرآن! قرآن ناطق میرے گلشن کی بہار ہیں۔ ائے خدا سے کرم کی بھیک مانگنے والو! کریم اہلبیتؑ امام حسن علیہ السلام میرے سر کا تاج ہیں۔ائے شوق سجدہ اور ذوق عبادت کا مظاہرہ کرنے والو! سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام میرا شرف ہیں۔ ائے علم و دانش کے پرستارو! باقرالعلوم امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنی میزبانی کا مجھے شرف بخشا ہے۔ ائے صدق پسندو! کونوا مع الصادقین کے مصداق کامل قرآن ناطق امام جعفر صادق علیہ السلام میرے پاس ہیں۔ لہذا یاد رہے تحریر و تقریر اور تفکر کا ایک اہم عنوان میں (جنت البقیع ) ہوں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں