0

قبلہ، “بیت المقدس” سے “کعبہ” کی طرف کیوں تبدیل ہوا؟

حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی نے ایک تحریر میں قبلہ کو “بیت المقدس” سے “کعبہ” میں تبدیل کرنے کی وجہ کا جواب دیا ہے، جسے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

مختصر جواب:

ہجرت کے چند ماہ بعد تک، یہودی مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے پر برا بھلا کہا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد بنی سالم میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بازو پکڑ کر آپ کا رخ کعبہ کی طرف کر دیا اور قبلہ بدلنے کا حکم صادر ہو گیا۔ یہودیوں کو یہ واقعہ سن کر بہت دکھ ہوا کہ اب وہ مسلمانوں کو کس بہانے سے اذیت کریں لہذا وہ مختلف بہانے ڈھونڈنے لگے۔ خدا نے انہیں فیصلہ کن جواب دیا کہ “اس پورے جہان عالم کا مشرق و مغرب خدا کا ہے اور اس کی توجہ کے بغیر کوئی بھی جگہ اپنا کوئی ذاتی عزت و وقار نہیں رکھتی”۔

تفصیلی جواب:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت کے بعد تیرہ سال مکہ میں اور ہجرت کے بعد مدینہ میں چند ماہ تک اللہ کے حکم سے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی۔ بعد ازاں اللہ کے حکم پر ہی قبلہ تبدیل ہوا اور مسلمانوں کو کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔

مدینہ میں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے عبادت کرنے کی مدت کے بارے میں مفسرین میں اختلاف ہے، جو سات سے سترہ مہینے تک بیان کی گئی ہے۔ اس دوران یہودی مسلمانوں کو طعنہ دیتے تھے کہ وہ اپنا قبلہ نہیں رکھتے اور وہ ہمارے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔

یہ طعن و تشنیع مسلمانوں کے لیے باعث اذیت تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے حکم کا انتظار کرتے رہے، یہاں تک کہ ایک دن جب آپ مسجد بنی سالم میں نماز ظہر ادا کر رہے تھے اور اس میں سے بھی دو رکعت نماز بیت المقدس کی طرف رخ کر کے ادا کر چکے تھے کہ حضرت جبرائیل (ع) نازل ہوئے اور دورانِ نماز آپ کا بازو پکڑ کر آپ کا رخ کعبہ کی طرف موڑ دیا۔ (مجمع البیان، جلد اول، صفحه ۲۲۳؛ «مستدرک الوسائل»، جلد ۳، صفحات ۱۷۰ و ۱۷۱، حدیث ۳۲۹۲ (چاپ آل البیت)؛ «بحار الانوار»، جلد ۱۹، صفحه ۱۹۶، و جلد ۸۱، صفحات ۶۱ و ۶۲؛ تفسیر «قمی»، جلد ۱، صفحات ۶۲ و ۶۳ (مؤسسه دار الکتاب)۔

یہودی اس تبدیلی پر ناراض ہوئے اور پھر بھی اپنی عادت سے مجبور ہو کر مختلف بہانے تراشنے اور اعتراض کرنے لگے۔ پہلے وہ کہتے تھے کہ “ہم مسلمانوں سے بہتر ہیں کیونکہ ان کا اپنا کوئی مستقل قبلہ تک نہیں ہے اور وہ ہمارے پیروکار ہیں” لیکن جیسے ہی خدا کی طرف سے قبلہ کی تبدیلی کا حکم جاری ہوا تو انہوں نے اعتراض کرنا شروع کر دیا جیسا کہ قرآن کریم کی سورۃ النساء کی آیت نمبر 142 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:”سَیَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النّاسِ ما وَلاّهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتی کانُوا عَلَیْها” یعنی “عنقریب بے وقوف لوگ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو اس قبلہ (بیت المقدس) سے، جس پر وہ پہلے تھے، کس چیز نے روگردان کر دیا؟”۔

وہ کہنے لگے کہ آج مسلمان پہلے انبیاء کے قبلہ سے کیوں ہٹ گئے؟ اگر قبلہ اول درست تھا تو اس تبدیلی کا کیا مطلب ہے؟ اور اگر دوسرا صحیح ہے تو آپ نے تیرہ سال اور کتنے مہینے بیت المقدس کی طرف نماز کیوں پڑھی؟!

تو خداوند عالم اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ “قُلْ لِلّهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ یَهْدی مَنْ یَشاءُ إِلی صِراط مُسْتَقیم”۔ یعنی “اے پیغمبر (ص) کہہ دیجئے کہ اللہ ہی کے لیے ہے مشرق بھی ہے اور مغرب بھی۔ وہی جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرتا ہے (اس پر لگا دیتا ہے)۔ (سورہ بقرہ، آیت 142)۔

تو یہ چیز عذر و بہانہ طلب کرنے والوں کے خلاف ایک فیصلہ کن اور واضح ثبوت تھا کہ بیت المقدس، کعبہ اور ہر جگہ خدا کی ملکیت ہے، خدا کا کوئی ایک خاص گھر یا جگہ نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ خدا کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا جائے، جہاں خدا کا حکم ہو وہاں نماز پڑھو وہی مقدس اور محترم ہو گی اور اس کی توجہ کے بغیر کوئی بھی جگہ اپنا کوئی ذاتی عزت و وقار نہیں رکھتی۔

قبلہ بدلنا دراصل امتحان اور ارتقاء کے مختلف مراحل ہیں اور ہر ایک الٰہی ہدایت کا نمونہ ہے، وہ خدا ہی ہے جو لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (تفسیر نمونه، آیت الله العظمی مکارم شیرازی، دار الکتب الإسلامیه، چاپ 55، ج ۱، ص ۵۴۸)۔

آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی کی “تفسیر نمونہ” سے ماخوذ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں