فلسطین پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی مجرمانہ ہے
سرینگر// جموں و کشمیر تبیان قرآنک ریسرچ سینٹر کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید عابد حسینی کا کہنا تھا کہ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت پر انسانی حقوق کے عالمی ادارے برسوں سے خاموش ہیں، لیکن اس پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ وادی کشمیر میں فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے پر انتظامیہ نے پابندی لگا دی ہے اور علماء کرام کو گرفتار کیا گیا۔
حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید عابد حسینی کا تعلق جموں و کشمیر کے ضلع سرینگر سے ہے۔ وہ جموں و کشمیر تبیان قرآنک ریسرچ سینٹر کے سربراہ ہیں اور سرینگر میں امام جمعہ کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آغا سید عابد حسینی مذہبی و سیاسی امور پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔
فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے مولانا آغا سید عابد حسینی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل نے فلسطین پر مظالم و بربریت کی حد کر دی ہے، جس کی تمام باضمیر افراد و حکومتوں نے مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک ہندوستان کی حکومت کو اپنے گذشتہ موقف پر رہ کر فلسطینیوں کا ساتھ دینا چاہیئے اور کشمیری عوام کو اپنے جذبات کو آزادی کے ساتھ اظہار کرنے دینا چاہیئے، نہ کہ یہاں کی عوام اور قیادت کو پابند سلاسل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت پر انسانی حقوق کے عالمی ادارے برسوں سے خاموش ہیں، لیکن اس پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ وادی کشمیر میں فلسطینیوں کی حمایت میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے پر انتظامیہ نے پابندی لگا دی ہے اور علماء کرام کو گرفتار کیا گیا۔
مولانا آغا سید عابد حسینی نے کہا کہ اسرائیلی وحشیانہ و سفاکانہ بمباری جس میں معصوم بچوں، اسپتالوں، اسکولوں ایمبولنسز کو نشانہ بنایا گیا، کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اجتماعی و انفرادی طور پر مختلف ذرائع سے فلسطین کاز کی حمایت کرنی چاہیئے اور اجتماعی طور پر اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیئے۔
آغا عابد حسینی نے کہا کہ فلسطینی عوام حق کے محاذ پر کھڑے ہیں اور اپنے بنیادی حقوق کی بازیابی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے دفاع میں پوری دنیا کی حکومتوں کو فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے سے روک رہا ہے، لیکن دوسری طرف خود امریکہ میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے اور وہ انہیں روکنے سے قاصر ہے۔
ہم فلسطین کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟
تبیان قرآنک ریسرچ سینٹر کے سربراہ نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ہر کوئی اپنے کو اور دوسروں کو کوستا ہے اگر چہ فلسطین کے لئے اپنے احساسات کا اظہار کرنے کا ایک مناسب طریقہ جلسہ و جلوس ہی ہے مگر جب کرنے نہیں دیتے اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں میری نظر میں آج اگر کوئی بھی مذکورہ چیزوں میں سے کوئی ایک بھی انجام دے تو وہ یقینا ان کے حامیوں میں شمار ہوگا۔
1. سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کے حق میں پوسٹ، کمنٹ، لائک اور شئیر
2. روزانہ فلسطین کی صحیح خبروں کی جستجو
3. غلط پروپگنڈوں کا سدباب
4۔ گھر میں فلسطین پر گفتگو
5۔ دوستوں کے ساتھ حالات حاضرہ پر گفت و شنید
6۔ فلسطین کی تاریخ کا مطالعہ
7۔ فلسطین کے متعلق مسلمان دانشمندوں کے خیالات کی اشاعت
8۔ فلسطین کے متعلق غیر مسلم دانشمندوں کے خیالات کی اشاعت
9۔ فلسطینیوں کی مجاھدت اور صبر و تحمل کی پرچار
10. فلسطین کی کامیابی کے لئے نذر و نیاز
11. انکی مالی معاونت
12. فلسطین کے مظلوموں اور رزمندگان اسلام کے لئے دعای خیر
13. مفلر کے بدلے چفی کا استعمال
14. شھیدوں کی تصویریں گھر میں لگانا
15. مختلف دلخراش کلپس پر اپنا اظہار خیال کرنا
16. دعای جوشن صغیر رزمندگان کی طرف سے پڑھنا
17. رزمندگان اسلام کی طرف سے صدقہ دینا
18. موجودہ حالات پر مقالات اشعار اور داستان وغیرہ لکھنا
19. جب تک جنگ ہے اپنی خوشی کو محدود کرنا
20. اپنے گھر پر سیاہ پرچم لہرانا
21.اسرائیل کی نابودی کے لئے دعا
22.اسرائیل کے پروڈکٹس کا بیکاٹ کرنا
23. اسرائیل کے حامیوں کی شناخت حاصل کرنا
24. مسلمانوں کی کمزوریوں کی شناخت کرنا
25. امام زمان کے لئے دعای فرج پڑھنا
قران واضح طور پر بیان کرتا ہے وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ اور عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے، اپنے لئے یہ تمنا کرنا يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا، کاش ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے اور کامیابی کی عظیم منزل پر فائز ہوجاتے۔اور مخصوصا خود کو معنوی طور عبودیت میں اور مادی طور علم و اقتصاد میں قوی اور مستحکم بنانا تاکہ غزہ جیسے پیش آئے واقعہ پر اپنے مدد آپ کر سکیں۔