6d568dcd 72f2 4954 Bb0a 7de4a9c098eb 50

غزہ — ہم شرمندہ ہیں!

غزہ — ہم شرمندہ ہیں!

توصیف احمد وانی ڈائریکٹر سید حسن منطقی اکیڈمی اونتی پورہ پلوامہ کشمیر انڈیا

اے غزہ اور اہلِ غزہ! ہم شرمندہ ہیں۔ ہم شرم سے گڑے جارہے ہیں، ہم اپنے ساتھ بھی نظریں نہیں ملا سکتے۔
” بِاَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ ” — گویا قیامت کے روز ہم سے تمہارے بارے میں جب پوچھا جائے گا ، اے ارضِ فلسطین !تجھے کس جرم میں قتل کیا گیا” تو مجرمین کی ایک صف میں ہم بھی کھڑے ہوں گے۔ ہم اپنے جرائم کا اعتراف ابھی سے کیے دیتے ہیں۔

غزہ! ہم شرمندہ ہیں— تیری یہ حالتِ زار ایک دن میں یہاں تک نہیں پہنچی — بلکہ برسوں اور عشروں کے پیہم مظالم نے تجھے اس حال میں پہنچایا ہے۔ تجھ پر ظلم ہوتا رہا اور ہم خاموش تماشائی بنے رہے۔ علامتی قراردیں پاس کرنے کے سوا ہم کچھ نہ کر سکے۔ جنھوں نے کچھ کرنا تھا، وہ تجھ پر ظلم کرنے والوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ سب اربابِ اختیار تیرے سینے پر صیہونیت کا خنجر کھونپنے والوں کے خاموش ساتھی تھے۔

غزہ — ہم شرمندہ ہیں۔ ہم ایک ہجوم ہیں، قوم نہ بن سکے۔ ایک ملت نہ بن سکے۔ ۔ جو قوم اپنا سبق بھول جاتی ہے، انہیں اغیار اپنا سبق پڑھانے آن وارد ہوتے ہیں— وہ سبق پڑھاتے ہی نہیں، سکھاتے بھی ہیں۔ ہمارے نصاب سے ” ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے، نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر” حذف کر دیا گیا۔ یہ فکری واردات ہمیں بہت دیر بعد معلوم ہوئی۔

صحن ِ حرم میں اللہ کے آخری نبیؐ نے ہمیں یہ سبق دیا تھا کہ کسی گورے کو کالے پر، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔ ہم نے اسی سرزمین پر اسی سبق سے روگردانی شروع کر دی۔ عربی اور عجمی کا فرق برقرار رکھا۔ گوری چمڑی دیکھ کر ہم نرم پڑ جاتے ہیں اور اپنے ہم رنگوں کے لیے رنگ رنگ کے قانون کا پھندا تیار رکھتے ہیں۔ عرب و عجم میں فرق ایک طرف — ہم عراقیوں، شامیوں اور فلسطینیوں میں بھی فرق روا رکھے ہوئے ہیں۔ اے غزہ! ہم شرمندہ ہیں!

ہمیں یہ سبق دیا گیا تھا کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔ ہم چھ کے چھ کلموں کے حافظ بنتے رہے لیکن کلمۂ حق کہنا بھول گئے۔ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی روایت دم توڑ گئی اور نتیجہ سانحۂ کربلا کی صورت میں ہمارے سامنے آگیا—تاریخ کے اوراق میں رقم یہ اُمت اِس سانحہ عظیم کا داغ اپنے دامن سے کبھی نہ دھو سکے گی۔

تا قیامت رہے گی شرمندہ
کربلا میں فرات کی خوشبو

ہم ملوکیت کے سامنے سرنگوں ہو گئے۔ ہم نے اپنے بادشاہوں کو اُولی الامر اور ظلِ الٰہ کا درجہ دیے رکھا۔ ملوکیت کو شعوری طور پر قبول کر لینے کی سزا یہ ملی کہ ہماری فکری نشو و نما مفقود ہو کر رہ گئی۔ حریتِ فکر، فکر کی نمو کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی ایک نوخیز کونپل کو کھلنے کے لیے آکسیجن ضروری ہوتی ہے۔ ہمارے اجتماعی فکر کی کلیاں عہدِ ملوکیت میں کِھل نہ سکیں۔ جبر اور استبداد کی مسموم فضا میں یہ کلیاں مرجھا گئیں۔ جنھوں نے جدو جہد کی، انہیں نوچ لیا گیا۔ بیربل اور ملّا دوپیازہ جیسے خوشامدی،چرب زبان ہمارے دانشور کہلائے، قاضی شریح جیسے ہمارے قاضی القضاۃ مقرر ہوئے، بادشاہوں کی خواہش پر منصورؒ اور سرمدؒ کے لیے قتل کا فتویٰ جاری رکھنے والے ہمارے مفتی قرار پائے۔ اے غزہ ! ہم شرمندہ ہیں— ہم اپنی ریاستوں میں جابر سلاطین کے سامنے کلمہ حق نہ کہہ سکے— اپنی ریاستوں سے باہر جاری جبر کی مذمت کیسے کر سکتے ہیں؟ دوسروں کی آزادی کے لیے آواز وہی اٹھا سکتا ہے جو اپنے گھر میں آزاد ہو۔ ہم اپنے جابر سلطانوں کے غلام بن گئے— ہمارے سلاطین استعماری طاقتوں کے غلام بن گئے— یوں ہم غلام ابنِ غلام ہیں۔ تیرے لیے آواز اٹھانے کے لیے مردانِ حُر درکار ہیں۔ اے غزہ! ہم شرمندہ ہیں— ہمارے درمیان مردانِ حُر نہ رہے— ہم نے حریت فکر کا راستہ ترک کر دیا— اس کی سزا کے طور ہم پر نکبت و اَدبار مسلّط ہو گئی!!

ہمیں یہ سبق دیا گیا تھا کہ مسلمان ایک جسدِ واحد کی طرح ہیں، کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا بدن اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ ہم نے اسے جسدِ واحد نہ رہنے دیا۔ عرب و عجم میں تقسیم ہونے سے پہلے ہی ہم اُمراء اور غرباء میں تقسیم ہو چکے تھے۔ اپنے دل میں اچھے اور برے کی تمیز ختم کرنے سے پہلے، ہم امیر اور غریب کی تقسیم کے دل سے قائل ہو چکے تھے۔ ہم نہ صرف خود ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے، بلکہ اپنے دین کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اگر ہم جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے پر کھڑے رہتے تو ہماری صفوں میں کوئی آمر پیدا نہ ہوتا، کوئی تخت نشین اپنا تخت بچانے کے لیے دین و ملّت کے ساتھ کھلواڑ نہ کرتا۔ لیکن ہم نے عظمت کا راستہ ترک کر دیا اور رخصت کا راستہ اپنا لیا۔ سَر دینے کی بجائے سَر بچانے کی روش عام ہو گئی۔ دَر آن حالے کہ رخصت ایک استثنائی راستہ تھا، عظمت کی راہ پر چلنا ایک فریضہ تھا۔ ہم نے اس فرض کو فرضِ کفایہ سمجھ کر کچھ لوگوں کے لیے چھوڑ دیا اور خود سہل راستوں کے مسافر بن گئے۔ ہم اپنے لیے مشکل فیصلے نہ کر پائے۔ عظیمت کے راستے کو چھوٖڑنے کی سزا ہزیمت تھی۔ ہماری ترجیحات بدل گئیں۔ سب لوگ اپنی روٹی روزی بچانے کی فکر میں پتلی گلی سے نکل گئے۔ انجامِ کار عظمت کے راستے پر چلنے والے شہید ہو کر اپنی باطنی منزل تک تو پہنچ گئے لیکن اُمّت نے اپنے امام کو کھو دیا اور ابھی تک راستے میں بھٹک رہی ہے۔ اے غزہ! ہم شرمندہ ہیں— ہماری شرمندگی کی داستان فرات کے کنارے سے لے کر تیرے مغربی کنارے تک پھیلی ہوئی ہے۔

ہم نبیﷺ کے فرمان کو بھول گئے، ہم اللہ کے قرآن کو بھول گئے۔ مغرب کے نصاب میں ہمارے ہیرو ایک ولن کے طور پر رقم ہیں، اور سارے مغربی نصاب کو ہم نے سائینس سمجھ کر ہ اپنے بچوں کو پڑھا دیا۔ ہم اپنی نوجوان نسل کے شعور کی رگوں میں یوں زہر اتارتے رہے۔ ہم خود ذمہ دار ہیں کہ اپنے بچوں کو ترقی یافتہ بنانے کے نام پر مغرب کا فکری اتحادی بناتے رہے۔ غزہ! ہم شرمندہ ہیں— ہمارا ایک جرم ، جرمِ ضعیفی بھی ہے!

اے غزہ اور اہلِ غزہ! ہم شرمندہ ہیں! ہمارے منصوبے تمہارے کام نہ آئے۔ ہم یہ بھول گئے کہ آج اگر یہ تمہارے کام نہ آسکے تو کل ہمارے بھی کام نہ آئیں گے۔

قرآن میں ہمارے لیے واضح فرمان موجود ہے کہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناؤ، یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ہم نے اس فرمان کو طاقِ نسیاں میں رکھ کر کبھی ترقی کے نام پراور کبھی مصلحت کے نام پر، اپنوں کو چھوڑ کر غیروں کو گلے لگاتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ،ایک کے بعد ایک، سب کے گلے کاٹتے رہے۔

اے غزہ! ہم شرمندہ ہیں!— تیرے لہو کے غازے میں ہماری غفلت اور لاپرواہی کا ہاتھ ہے۔ چالیس برس قبل حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک قول نوشتہ دیوار بن کر سامنے آچکا ہے: “دشمنانِ اسلام مُتحد ہیں اور مسلمان مُتحد نہیں۔ دوستوں کی لاپرواہی دشمن کی اصل طاقت ہے۔”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں