عصر انتظار اور ہم
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
انقلاب ہی لانا ہے تو علمی انقلاب لائیں فکری انقلاب لائیں اخلاقی انقلاب لائیں یہ تقاضائے انتظار ہے امید کہ اس عصر انتظار میں ہم وہ کر سکیں جو ہمارے امام کی منشا کے عین مطابق ہو۔
آج کے دور کو کوئی جدید و ماڈرن دور سے تعبیر کرے یا ٹیکنالوجی کے دور سے ایک منجی بشریت کا منتظر، اس دور کو عصر انتظار سے تعبیر کرتا ہے، اس کی نظر میں یہ دور علمی ترقی کا ہو یا سائنس کی کرشمہ سازیوں کا یا ٹیکنالوجی کی عظیم پیشرفت کا، کوئی بھی عنوان آج کے ترقی یافتہ دور کے لئے کیوں نہ ہو، ایک منتظر کے لئے اسی وقت اس میں معنی پیدا ہوتے ہیں جب وہ اسے انتظار سے جوڑتا ہے، ایسے میں اگر اس دور کو بھلے ٹیکنالوجی کا دور کہا جائے، لیکن ایک منتظر کے لئے اس ٹیکنالوجی کا کوئی مطلب نہیں ہے جو مادہ سے گھوم کر مادہ پر ختم ہو جائے اور اسے کسی بڑے مقصد تک پہنچنے کا وسیلہ نہ بنایا جا سکے، اسی طرح دنیا میں یہ روز روز جو انکشافات ہو رہے ہیں اور علمی ترقی ہو رہی ہے، اس کے بھی کوئی معنی نہیں ہیں اگر اس علمی ترقی کو انسان کی حقیقی روحانی ترقی سے نہ جوڑا جائے، سائنس کی جولانیاں بھی لا یعنی ہیں اگر انکی تہوں میں خالق علم و حکمت کا شکریہ نہ ہو اور سائنس کے ذریعہ انسان اپنے رب تک نہ پہنچ سکے تو بھلے دنیا سائنس کو کتنا بڑا ہوا بنا لے، لیکن ایک منتظر کے لئے اسی وقت یہ مثبت اور لائق تعریف ہوگی، جب یہ اعلٰی ترین مقصد کے لئے وسیلہ بنے، لہذٰا ایک منتظر موجودہ دور کو کسی ایک عنوان کے ماتحت نہ لا کر بس ایک ہی عنوان کے تحت دیکھتا ہے اور وہ ہے عصر انتظار۔ اسکا عقیدہ یہ ہے کہ ہم عصر انتظار میں جی رہے ہیں اب اگر انسانی معاشرہ کی علمی ترقیاں اسکے انتظار میں نکھارنے کا سبب ہیں تو بہت خوب، اگر سائنس کی ہنر نمائیاں اسکے انتظار کو بارور بنانے کا سبب ہیں تو بہت خوب، اگر دنیا کے انکشافات اسکے انتظار میں کچھ رنگ بھرنے کا سبب ہیں تو بہت خوب ورنہ ان سب کی کوئی حیثیت نہیں ہے، کہ اگر انکا سلسلہ روحانیت سے نہ ہو تو یہی ساری چیزیں انسانیت کی تباہی کا سبب ہیں جبکہ انتظار انہیں اس روحانی پیشوا سے جوڑنے کا سبب بنتا ہے جسے منجی بشریت کہا جاتا ہے، جس سے جڑ کر زندگی کو ایک نئے معنی ملتے ہیں۔
آخر انتظار کیوں ؟
با اینکہ ہم عصر انتظار میں جی رہے ہیں اور ہمیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہیئے لیکن جب بھی ہمارے درمیان امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ الشریف کے انتظار کی بات ہوتی ہے تو بہت سے جوانوں کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات گردش کرنے لگتے ہیں کہ آخر انتظار کیوں ؟ وہ بھی اتنا طویل انتظار اور پھر انتظار کے معنی کیا ہیں ؟ اس لئے کہ انتظار کے سلسلہ سے بھی معاشرہ میں مختلف معنی بیان ہوتے ہیں کوئی انتظار کا مطلب محض امام (ع) کی سلامتی کی دعاوں اور اور ان سے توسل میں جانتا ہے تو کوئی اس کے معنی کو ظہور امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے جوڑتا ہے اور عصر غیبت میں آپکے ظہور کے لئے مکمل آمادگی کو انتظار سمجھتا ہے، جبکہ انتظار ایک فطری امر ہے جس کے لئے اثبات کی ضرورت نہیں بلکہ انسان اپنے وجود کے سلسلہ پر اگر غور کرے گا تو کیفیت انتظار کو پورے وجود پر طاری پائے گا، انسان طالب چین و سکون ہے، اسے تحفظ چاہیئے، اسے امن چاہیئے اسے مشکلوں سے نجات چاہیئے تو کیسے ممکن ہے کہ پروردگار نے یہ ساری خواہشیں انسان کے وجود میں رکھی ہوں لیکن ایک ایسے منجی کا انتظام نہ کرے جو پروردگار کے مطلوب معاشرہ کو تشکیل دے کر بتائے کہ الٰہی قوانین کا مکمل نفاذ کیونکر ایک انسان کو وہ سب کچھ دیتا ہے جس کی تشنگی پروردگار نے انسان کے وجود میں رکھی ہے۔
ادیان و مذاہب میں انتظار ایک مشترکہ قدر:
شک نہیں کہ ”انتظار“ انسانی فطرت میں شامل ہے اور ہر قوم و ملت اور ھر دین و مذہب میں انتظار کا تصور پایا جاتا ہے، انتظار کے اندر جو چیز اسے اہم بناتی وہ یہ ہے کہ انسان انتظار کس کا کر رہا ہے؟ اب رہ جاتی ہے بات اس شخصیت کے انتظار کی جسکی آمد کا انتظار ہر قوم و ملت میں ہے تو ظاہر سی بات ہے اسکی اپنی ایک عظمت ہے اور اس کی اپنی ایک جلالت ہے۔ اس لئے کہ منجی آخر کا تصور ہر قوم و مذہب میں پایا جاتا ہے اور ہمارے لئے یہ بہت اہم اس لئے ہے کہ اس سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث وارد ہوئی ہیں اور اسی بنیاد پر تقریباً اسلام کے تمام فرقے اس سلسلہ میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، نیز اس سلسلہ میں احادیث بھی متواتر ہیں۔
عقیدہ انتظار باعث ارتقاء یا زوال:
ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس قسم کے شبہات چھیڑے بھی ہیں کہ انتظار کی بنیاد پر سارے کام ٹھپ ہو جاتے ہیں اور ایک طرح ساری قوم ایک فرد واحد کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے اس کی ساری امیدیں اس بات سے وابستہ ہوتی ہیں کہ ہم جس کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ آئیگا تو کچھ ہوگا جسکی بنیاد ہر قوم تنزلی کی طرف جاتی ہے اور جدوجہد نہیں کر پاتی، جہاں تک اس شبہے کی بات ہے تو یہ ایک منفی طرز فکر کا عکاس ہے اس لئے کہ نہ صرف یہ کہ انتظار کی کیفیت میں انسان مکمل طور پر بیدار ہوتا ہے بلکہ ہر طرح کی غفلت برتنے تک سے پرہیز کرتا ہے اور وہی کچھ انجام دینا ہے جو اس کے منتظر کو مطلوب ہو، اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیئے کہ انتظار کہتے کسے ہیں۔
مفہوم انتظار:
لغت میں انتظار کے معنی کسی کی راہ تکنے اور کسی کی آمد کے لئے چشم براہ ہونے کے بیان ہوئے ہیں۔ انتظار روح کي ایسی کيفيت ہے جو انسان کی آمادگي کا سبب بنتي ہے جبکہ اس کے مخالف مفہوم مایوسی کا ہے، جتنی شدت کا انتظار ہوگا اتنی ہی انسان اس کی تیاری بھی کرے گا۔ انسان جب کسی منجی کا انتطار کر رہا ہے تو جہاں وہ عدل و انصاف پر مبتنی معاشرہ کی تشکیل کا خواہاں ہے بالکل سیدھی سی بات ہے کہ موجودہ صورتحال سے راضی نہیں ہے اور ظلم و جور کا مخالف ہے، لہذٰا ایک منتظر کی زمہ داری ہے کہ وہ ظلم و ستم، فتنہ و فساد اور برائی کرنے والوں کی کسی بھی طرح کی اعانت اور ہم آہنگی سے پرہیز کرے اور، اپنے نفس کی اصلاح کرے تاکہ جسمانی اور روحانی، مادی اور معنوی لحاظ جس کا انتظار کر رہا ہے اسکی توقعات پر پورا اتر سکے۔ اس لئے کہ ”انتظار“ ہمیشہ منتظر کی اہمیت کے ساتھ انسان کی قدر و قمیت کو بیان کرتا ہے اب اتنظار چاہے معمولی ہو یا بڑا ایک چیز ہر انتطار میں مشترک ہے اور وہ انتظار کرنے والے کی اپنی آمادگی و تیاری ہے۔
عصر انتظار میں ہماری زمہ داری:
الحمدللہ ہم عصر انتظار میں جی رہے ہیں وہ عصر انتظار جس میں دشمن اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ حق کے مقابل کھڑا ہے، اور ہمیں اس طرح میدان میں ڈٹے رہنا ہے کہ محاذ کمزور نہ پڑنے پائیں، قدم پیچھے نہ ہٹیں اور اس وقت تک دشمن کے مقابل ڈٹے رہیں جب تک ہمارا مولا و آقا پردہ غیب ہٹا کر نہ آ جائے، ایسے میں دشمن کے سامنے اپنی صفوں کی شیرازہ بندی اور ان میں اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان علماء و مراجع کے احکامات کے مطابق آگے بڑھیں، جنہیں ہمارے امام (ع) نے اپنا جانشین قرار دیا ہے اور زمانہ غیبت میں امت کی باگ ڈور ان کے حوالے کی ہے۔ آج بخوبی ہم مرجعیت کی طاقت کو محسوس کر سکتے ہیں، جو لوگ زیارت کربلا سے مشرف ہوئے ہیں وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ عراق کے حالات کیا ہیں، کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب کسی بے نام شہید و مدافع حرم کی لاش طواف کے لئے نجف اشرف یا حرم امام حسین علیہ السلام میں نہ آتی ہو، یہ جو ہم سکون کے ساتھ زیارت کر پا رہے ہیں یہ انہیں شہیدوں کے خون کا صدقہ ہے جنہوں نے عصر انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا گوارا نہیں کیا اور مراجع و علماء کے حکم پر اپنا گھر بار، بال بچوں کو چھوڑ کر تکفیری دہشت گردوں سے مقابلہ کے لئے محاذ جنگ پر نکل پڑے، آج ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی زمہ داری کو ادا کرنا ہوگا جسکی جتنی توانائی اور وسعت ہے اسے بروئے کار لا کر شیعت کے دفاع میں آگے بڑھنا ہوگا، ہم سب کو اس طرح آگے بڑھنا ہوگا کہ تکفیری دہشت گردوں سے لڑنے والے جوان آج خود کو تنہا نہ سمجھیں۔
سخت ترین حالات:
آج ہم انتہائی سخت حالات سے گذر رہے ہیں، تمام استعماری طاقتیں تکفیری گروہوں کے ذریعے پوری دنیا میں شیعہ نسل کشی میں سرگرم عمل ہیں اگر اس درمیان انکے اقدامات میں شدت نہیں دکھتی تو اسکا سبب ہماری مرجعیت کی با بصیرت قیادت ہے جس نے تکفیریت کے بڑھتے ہوئے طوفان کو بروقت اپنی حکمت عملی اور ایمانی فراست سے نہ صرف روکا بلکہ اتنی دور کھدیڑ دیا کہ وہ ہمارے مقامات مقدسہ پر حملہ آور نہ ہو سکیں اس کے باوجود جب بھی موقع ملتا ہے سامراج کی چھتر چھایہ میں تکفیرت کا افعی اپنا زہر ڈال دیتا ہے جیسا کہ حالیہ ایران اور عراق نیز افغانستان میں ہمارے بڑے اجتماعات کو نشانہ بنایا گیا سو ایسے دور میں ہم سب کو بیدار و ہوشیار رہ کر جینے کی ضرورت ہے یہ وہ دور ہے جس میں ہر ایک کو اپنی زمہ داری نبھانی ہوگی ہر ایک کو اپنے وظیفہ کو پہچانتے ہوئے اس پر عمل کرنا ہوگا، دامے درہمے سخنے جس سے جو بھی ممکن ہے وہ انجام دے اور جس سے کچھ ممکن نہ ہو وہ دعاء کرے۔ یوں تو بظاہر عراق کی سرزمین تکفیری ٹولوں پر اب تنگ ہو چکی ہے اور وہ بھاگنے پر مجبور ہیں ترکی اور شام کے گمنام علاقوں میں چھپ چھپا کر جینے پر مجبور ہیں اس کے باجود بھی انہیں جیسے جیسے موقع ملتا ہے دہشت گردانہ کاروائیوں کی انجام دہی سے نہیں رکتے، ایسے میں یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہیئے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے ،یہ اور بات ہے کہ فی الحال پے در پے شکستوں کی وجہ سے دشمن اپنی طاقت کی تجدید میں مشغول ہے اور دوبارہ جنگ کے نئے نقشہ کو سامراجی طاقتوں کے اشاروں پر تیار کر رہا ہے ایسے میں ہم سب کی زمہ داری ہے کہ اپنی صفوں کو متحد رکھیں اور فکری اختلافات کو ایک دوسرے کی دشمنی میں تبدیل نہ کریں کہ ہمارا دشمن ہی ہم سے دشمنی کے لئے کافی ہے اپنے دوستوں کو دشمنوں کی صفوں میں کھڑا نہ کریں۔
موجودہ دور میں پوری دنیا کے اندر تشیع کے لئے بہت سخت حالات ہیں با این ھمه تشیع کے خلاف ہونے والی تمام تر سازشوں کے باوجود مکتب تشیع میں وسعت پیدا ہو رہی ہے، شک نہیں ہے کہ اس وقت ہم انتہائی سخت دور سے گذر رہے ہیں، پوری دنیا میں مکتب تشیع پر ہر طرح کی یلغار کی جا رہی ہے عالمی استعماری طاقتیں اور عربی ضمیر فروش ممالک سب مل کر تکفیری ٹولیوں القاعدہ اور داعش کی درپردہ و کھلے عام حمایت کر رہے ہیں تا کہ اسلام حقیقی کا مقابلہ کریں۔ آج پوری دنیا میں منصوبہ بند طریقہ سے شیعہ نسل کشی پر کام ہو رہا ہے، سعودی عرب ہو کہ بحرین و پاکستان، یمن ہو کہ نائجیریا و افغانستان ہر جگہ محبان حیدر کرار کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے، ایسے میں آج کے اس عصر انتظار میں ہمیں اپنے امام سے عہد کرنا ہوگا کہ ہم آپکے واقعی منتظر ہیں اور اسی لئے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے اپنے بھائیوں کا قتل عام نہیں دیکھ سکتے، یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آج کچھ لوگوں نے اس فکر انتظار ہی کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے، انکا کہنا ہے دنیا سے یہ قتل و غارت گری تبھی ختم ہوگی جب امام عصر ع کا ظہور ہوگا، اس طرح کی فکر رکھنے والوں سے ہمارا سوال ہے کہ اگر دنیا میں امن و امان امام (ع) کی آمد کے بعد قائم ہوگا تو کیا ہمیں اپنی طرف سے قیام امن کی کوششیں نہیں کرنا چاہیئیں؟ جبکہ اگر دیکھا جائے تو عصر غیبت میں ہماری زمہ داری کچھ اور زیادہ ہے کیونکہ عصر حاضر میں جبکہ استعماری حکومتیں اپنے ناپاک حربوں سے بالعموم مسلمان اور بالخصوص نوجوان نسل کو انکی زمہ داریوں سے دور کرنے پر کمر بستہ ہیں، ان استعماری طاقتوں کا اصل نشانہ جوانان ملت ہیں، لہذٰا ہمیں مفہوم انتظار کی صحیح تشریح پیش کرنا ہوگی اور استعمار کی ناپاک سازشوں کا توڑ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے بنیادی عمل (عمل انتظار) کی پرواز کو پہچانیں اس کے معنی کو سمجھیں۔
انتظار کے معانی و مفہوم جاننے کے بعد ضروری ہے کہ ہم اپنی زمہ داریوں کو سمجھیں اور قوم کے فرد فرد کو بتائیں کہ ہم اس لئے ظلم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں کہ ہم حقیقی معنی میں منتظر ہیں، اگر ہم روایات میں فضیلت انتظار اور اس کے ثواب پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ انتظار محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کا نام نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو پھر سب سے افضل عمل انتظار نہ قرار پاتا جبکہ اگر ہم روایات پر نظر ڈالیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ انتظار سے متعلق کہیں رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں کہ “انتظار میری امت کے تمام اعمال سے افضل ہے اور وہ یوسف زہرا حجۃ ابن الحسن امام مہدی (عج) کے ظہور کا انتظار ہے”۔ تو کہیں امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں” جو شخص نظام ولایت کا قائل ہوتے ہوئے حکومت حق کا منتظر ہو، اس کی مثال ایسے شخص جیسی ہے جو پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے راہ خدا میں جہاد میں مصروف ہو، نیز فرماتے ہیں کہ منتظر کی مثال اس شخص جیسی ہے کہ جیسے رسول اکرم (ص) کے ہمراہ درجہ شہادت پر فائز ہو بلاشبہ اسلام کی نظر میں جو شخص امام (عج) کی آمد اور انکی حکومت کا منتظر ہو وہ اعلٰی فضیلتوں اور روحانی بلندیوں کا حامل ہے، لیکن واضح رہے کہ ان درجات کے لئے آزمائشوں کے راستے سے گذرنا پڑتا ہے، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ انتظار کس طرح کیا جائے۔؟ کیا انتظار سے مراد یہ ہے کہ مسلمان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں اور ان کے آس پاس گناہ و جرم، ظلم و جبر اور فساد انفرادی و اجتماعی سطح پر پھلتے پھولتے رہیں۔؟ کیا انتظار فرج کا مطلب یہ ہے کہ جب تک امام (عج) تشریف نہیں لاتے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اسلام کے اہم تربیتی، اصلاحی اور اجتماعی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر ظلم و ناانصافی کے خلاف جدوجہد کو منسوخ کر دیا جائے اور ان اسلامی قدروں کو لغو و مہمل قرار دیا جائے۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے کہ مکتب انتظار، جمود، سکوت، ٹھہراو، مصلحت پسندی، مغربی و استعماری حکومتوں کی نوکری اور غلامی، فن خواجگی کا مکتب نہیں ہے، بلکہ انتظار دراصل شعوری عروج، حرکت، کربلائی روش، انقلاب، عزم پیہم و سعی مسلسل، بے باکی، کے ساتھ نظام شہنشاہیت و ملوکیت کے خلاف سراپا احتجاج بن جانے کا نام ہے۔
انتظار چُپ سادھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ نظامِ امامت و نظامِ ولایت لیکر آنے والے کے زبردست استقبال سے شروع ہوتا ہے، اب یہ استقبال گھروں کی چار دیواری کے اندر نہیں کیا جاتا بلکہ اسکے لئے گھروں اور خانقاہوں سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ جس کا عملی ثبوت امام خمینی رہ نے انقلاب اسلامی ایران کے ذریعہ دنیا کو دیا, ہمیں گھروں سے نکل کر مقدمات ظہور فراہم کرنے ہونگے اور تابناک و روشن نظامِ ولایت کے لئے کوشش کرنی ہوگی، تب ہمارا انتظار واقعی انتظار کہلائے گا دور حاضر میں عالم اسلام پر ہونے والے استعماری و سامراجی حربوں سے ہمیں آگاہ ہونا ہوگا اور پھر اس کے ازالے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی، موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان آپسی رسہ کشی، گروہ بندی، فرقہ واریت، حکمرانوں کی انا پرستی عروج پکڑ رہی ہے، جو دشمنان دین کے لئے باعث مسرت ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغرب و صہیونی طاقتیں مسلمانوں کو پیروں تلے روندے جا رہی ہیں اور ہر آئے دن ہمارے مقدسات کی توہین و پامالی کی جاتی ہے اور ہم سے کچھ بن نہیں پڑتا، یہ مر جانے کا مقام ہے کہ دور حاضر میں مسلمانوں کے اندر بے انتہاء غیر اسلامی رسم و رواج، توہمات و اوہام پرستی، بدعتیں و خرافات رائج ہیں, جنہیں سیدھے سادے لوگ عین دین سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں، سماج کی صورتحال سے ہمارا یہ تغافل اور معاشرہ میں پھیلتی بدعتیں و غیر آئینی رسومات کیا ہماری اور امام کی قربت اور ان کے ظہور میں مانع نہیں ہیں؟ ہمیں اس پر غور کرنا ہوگا اگر ہم خود کو جانِ جہاں امام زماں کا حقیقی منتظر تصور کرتے ہیں اور امام کے سپاہی بننے کی آرزو دل میں رکھتے ہیں تو ہمیں ایسی بدعتوں اور خرافات سے خود کو ہر حال میں دور رکھنا ہوگا جو دینی تعلیمات کو مسخ کرنے کے درپے ہیں تاکہ ہم امام زمانہ (عج) کے حقیقی پیروکار ثابت ہوسکیں۔ عصر حاضر کی مشکلات اور ان کے حل کے لئے علماء کرام، دانشوران قوم و ملت کے ساتھ قوم کے فرد فرد کو آگے بڑھنا ہوگا، اگر ہم نے مفہوم انتظار کو اس کی حقیقت کے ساتھ سمجھ لیا تو وہ دن دور نہیں جب ہر طرف حسینیت کا سرخ پرچم لہرا رہا ہوگا اور دنیا ظہور منتقم خون حسینی کو آواز دے رہی ہوگی کہ بس آجاو اور عالمی حکومت عدل قائم کر کے انسانیت کے انتظارِ مسیحا کو اس کے معنی دے دو۔
انتظار اور اس کا وزن:
انتظار کا وزن اس کے متعلق سے بخوبی واضح ہے ، جس شخصیت کا ہم انتظار کر رہے ہیں انتظار میں اسی کے مطابق شدت و وسعت ہونا چاہیئے چونکہ متعلق انتظار کی بنیاد پر کیفت انتظار تبدیل ہوتی ہے اسکا وزن معین ہوتا ہے، ایک عام مصلح کے انتظار کا وزن اور ہے، ایک گھر، محلہ، خاندان، شہر اور صوبہ اور ملک میں امن و امان کا پیغام لانے والے کا انتظار اور ہے اور ساری دنیا میں پرچم امن بلند کرنے والے کے انتظار کا وزن کچھ اور ہے۔ ایک مسافر کے سفر سے واپسی کا انتظار اسکا انداز الگ ہوتا ہے، ایک بہت ہی عزیز دوست کے پلٹنے کا انتظار اسکا انداز مختلف ہے۔ پھلوں کے پکنے کی فصل کا انتظار یا فصل کاٹنے کے وقت کا انتظار اسکا انداز بھی نوعیت کے اعتبار سے الگ ہے لیکن ہر انتظار کی کیفیت متعلق انتظار پر منحصر ہے اور ہر انتظار میں ایک طرح کی آمادگی ضروری ہو تی ہے، ایک انتظار میں مہمان نوازی کا سامان فراہم کیا جائے، دوسرے میں بعض دوسرے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر ایک میدان کی الگ الگ ضرورتیں ہیں اگر ایک فوج اپنے دشمن سے مقابلہ کرنا چاہے تو اسکی ایک تیاری ہوتی ہے اس کے لئے ایسے اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اس جہاد کے لئے مناسب اور کارگر ہو، اسی لحاظ سے مورچہ بنائے، اور لشکر کے ساز و سامان میں اضافہ کرے۔ لشکر کا حوصلہ بلند کرے اور ہر فوجی کے دل میں مقابلہ کے شوق و رغبت کو بڑھائے، اگر فوج میں اس طرح کی آمادگی نہیں ہے تو وہ دشمن کے حملہ کی منتظر نہیں۔ ایک عالمی مصلح کے انتظار کے معنی یہ ہیں کہ انسان معاشرہ کی اصلاح کے لئے مکمل طور پر فکری، اخلاقی اور مادی و معنوی لحاظ سے تیار رہے، پوری دنیا کی اصلاح کرنا اور ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا کوئی کھیل نہیں ہے، یہ عظیم مقصد ہے، ایسے عظیم مقصد کے لئے اسی لحاظ سے تیاری بھی ہونی چاہئے۔ ایسے مقصد کے لئے اپنی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ فکری، اخلاقی اور اجتماعی طور پر ایک بہترین منصوبہ بندی کی جائے، اور حقیقی انتظار کا یہی مطلب ہے، کیا پھر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسا انتظار قوم کی تنزلی کا سبب ہے۔؟
شاید یہی وجہ ہے کہ ایک انتظار کرنے والا محض اپنے بارے میں نہیں سوچ رہا ہوتا ہے وہ پوری قوم کو دیکھ رہا ہوتا ہے جیسا ایک بہادر جنگجو و مجاہد صرف یہ نہیں دیکھ ریا ہوتا ہے کہ وہ کتنا کامیاب ہے بلکہ اپنی کامیابی کے ساتھ اسے اپنے لشکر کی کامیابی کی فکر بھی رہتی ہے، اس لئے اس کے بظاہر کامیاب ہونے کے بعد بھی لشکر اگر ناکام ہو گیا تو وہ بھی ناکام ہی کہلائے گا، چنانچہ صحیح طور پر انتظار کرنے والے افراد کی زمہ داری یہ نہیں ہے کہ صرف اپنی اصلاح کرلی جائے اور بس، بلکہ دوسروں کی حالت بھی دیکھنی ہوگی، اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کے لئے کوشش کرنا ہوگی، کیونکہ جس عظیم انقلاب کا انتظار کررہے ہیں وہ ایک انفرادی منصوبہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں تمام پہلووٴں سے انقلاب آنا ہے، جس کے لئے پورے معاشرہ میں ایک ھم آہنگ حرکت ضروری ہے۔ جس طرح ایک مقابلہ کرنے والے لشکر میں کوئی بھی ایک دوسرے سے غافل نہیں ہوسکتا، بلکہ ہر فوجی کی یہ زمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جہاں بھی کمی دیکھے تو فوراً اس کی اصلاح کرے، جس جگہ سے نقصان کا احتمال پایا جاتا ہو اس کا سدّ باب کرے اور ہر طرح کے ضعف و ناتوانی کو تقویت پہنچائے، کیونکہ بہترین کارکردگی اور تمام لشکر میں یکسوئی اور ہم آہنگی کے بغیر یہ عظیم منصوبہ عملی کرنا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا حقیقی منتظرین پر اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
منتظرین کی ایک بڑی زمہ داری ہے کہ زندگی کے مختلف شعبہ ہای حیات میں اس طرح خود کو آمادہ و تیار رکھیں کہ امام علیہ السلام کو بعد از ظہور جہاں بھی ہماری ضرورت ہو ہمیں اس محاذ پر جانے میں کوئی تامل نہ ہو کہ ہم نے خود کو ہر طرح تیار کیا ہوا ہے علمی سیاسی اقتصادی ہر محاذ پر ہم اپنے امام کا ساتھ نبھا سکتے ہیں۔ البتہ امام کے ظہور کی مکمل تیاری اسی وقت ممکن ہے جب ہم فکری و ثقافتی اعتبار سے بھی ہر طرح سے خود کو لیس کر چکے ہوں اور آمادہ و تیار ہوں، فکری اور ثقافتی آمادگی کا معنی یہ ہے کہ لوگوں کی فکر بلند ہو جائے۔ خود ان کو یہ سمجھ میں آنا چاہیئے کہ قومیت، نسل پرستی و عصبیت کے ، انسان کی زندگی میں کوئی معنی نہیں ہیں۔ رنگ و زبان میں اختلاف ہونا انسان کی قدر و قیمت میں کوئی دخالت نہیں رکھتا۔ ہم سب الگ الگ نسلوں، خطوں ملکوں اور شہروں و قبیلوں سے ہونے کے باوجود ایک ہی قبیلہ کے باشندہ ہیں اور وہ ہے قبیلہ انتظار اور بس اسی کے ساتھ اجتماعی طور پر بھی ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کے اندر یہ شعور بیدار ہو سکے کہ جب تک ہماری اجتماعی طاقت نہیں ہوگی ہرگز ہم اپنے دشمن پر کامیاب نہیں ہو سکتے، لیکن اگر اجتماعی شعور ہے تو تعداد میں کمی کے باوجود ہم دشمن کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں جیسا کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ کیا، یہی وجہ ہے اسرائیل آج دنیا میں 57 نام نہاد اسلامی ممالک کے ہوتے ہوئے کسی سے ڈرتا ہے تو وہ حزب اللہ وہ انقلاب اسلامی کی حامل سرزمین ہے ،اس لئے یہ وہ لوگ ہیں جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں کہ جب مولا آئیں گے تو خود ہی سب ٹھیک ہوگا ہمارا کام تو تعجیل فرج ع کی دعاء کرنا ہے اور بس بلکہ یہ اپنے امام ع کا پرچم ہاتھوں میں اٹھائے شاہراہ شہادت پر نکل پڑے ہیں کہ اپنے مولا سے ملحق ہوں انہیں پتہ ہے ہمیں کب کیا کرنا ہے۔
کاش ہمارے اندر بھی یہی معرفت اور بصیرت پیدا ہو جائے اور ہم شاہراہ علم و حکمت پر اپنے وطن عزیز میں نکل پڑیں کہ *العلم سلطان* ہمارے ملک کا محاذ اور میدان دوسری جگہوں سے مختلف ہے یہاں اسلحہ ہاتھ لیکر اٹھنے کی ضرورت نہیں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے ہم دیکھیں وہ ہمیں کس محاذ پر شکست دینا چاہتا ہے ہم غور کریں گے تو میں نظر آئے گا ہم علمی و فکری میدان میں پسپا ہوتے جا رہے ہیں یک بعد دیگرے ہمارے مورچے ہم سے چھن رہے ہیں لہٰذا ضروری ہے علم کے میدان میں روزگار کے میدان میں معیشت کے میدان میں منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھیں جس ملک میں ہم جی رہے ہیں اسکا تعلق مشرق وسطی سے نہیں کہ وہاں کا نظام الگ ہے تقاضے الگ ہیں برسہا برس فقہاء و مراجع نے کام کیا ہے شہادتوں کا چمن یوں ہی نہیں لہلایا ہے اس کے پیچھے علمی و فکری زمیں کی تیاری میں علماء نے کوششیں کی ہیں آج بہت سے جذباتی نوجوان یہ کہتے نظر آتے ہیں ہمارے یہاں بھی انقلاب آسکتا ہے ہمیں بھی کچھ سبق شہیدوں سے لینا چاہئے اس سے بےخبر کہ ہر انقلاب سے پہلے اپنے وجود کو بدلنا ضروری ہے اپنی روح میں انقلاب لانا ضروری ہے ہمارے ملک کے تقاضے کچھ اور ہیں دوسرے مقامات کے تقاضے کچھ اور ہیں شہادت اپنے شرائط کے ساتھ ہو تو ہی زندگی جاوید سے عبارت ہے ورنہ خود کشی ہے ہماری بعض انقلابی نما سیاسی قیادت کا رجحان رکھنے والے متشدد فکر کے حامل افراد سے گزارش ہے ملک کے حالات کو سمجھیں دشمن کی چال کو دیکھیں اپنی تعداد پر غور کریں اپنی قومی قیادت کی اڑتی پرخچیوں کو دیکھیں وقف کے املاک کی غارت کو دیکھیں اپنی سیاسی و معاشری ساکھ کو دیکھیں اس پر بھی غور کریں کہ ہندوستان میں 1790 میں کنتور کے علاقے میں آنکھیں کھولنے والے امام خمینی رض کے دادا کیوں ہجرت کر کے ایران گئے ان کے پوتے نے جو کام ایران میں کیا کیا اس کی ضرورت ہندوستان کو نہ تھی ؟ امام خمینی رض کے والد گرامی سید مصطفی ہندی کیوں قتل کئے گئے ؟ ان کا جرم کیا تھا ؟ جس خانوادے نےہندوستان سے ایران جا کر ایک عظیم سپوت کی تربیت کی جو ایک عظیم انقلاب کا معمار بنا۔
کیا اسے ہندوستان کے شیعوں کی فکر نہیں تھی؟ یہ سب چبھتے ہوئے سوالات ضرور ہیں لیکن ان پر غور کریں گے تو بہت کچھ واضح ہوگا خدا کے واسطے عقل کے ناخن لیں خدارا خودکشی کا بازار بنام شہادت گرم کر کے جوانوں کو نہ ورغلایا جائے۔
انقلاب ہی لانا ہے تو علمی انقلاب لائیں فکری انقلاب لائیں اخلاقی انقلاب لائیں یہ تقاضائے انتظار ہے امید کہ اس عصر انتظار میں ہم وہ کر سکیں جو ہمارے امام کی منشا کے عین مطابق ہو۔
حوالہ جات:
1۔ زبیدی، تاج العروس، ج7، ص539
2۔ موسوی اصفهانی، مکیال المکارم، ج2، ص218
3۔ بحار الانوار ج 52 ص