Download 50

طوفان الا قصٰی؛ آیات کی روشنی میں

طوفان الا قصٰی؛ آیات کی روشنی میں

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

اگر کتب خانے میں موجود تاریخی کتابوں کا مطالعہ کریں تو ان کے اوراق میں اس قدر ہولناک و دل سوز جنگوں کی لرزہ خیز داستانیں ملیں گی جنھیں انسان بُھلا نہیں پائے گا۔ جنگ اگرچہ انسانی فطرت کا حصہ نہیں سمجھی جاتی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود انسان قدیم۔

زیادہ تر جنگیں بادشاہوں، ریاستوں اور حکومتوں کے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر شروع ہوئیں لیکن اب اس نظریے پر جنگ نہیں ہوتی۔ اب جنگیں لڑیں نہیں جاتی بلکہ جنگیں ذاتی مفاد کے لیے منصوبہ بندی طریقے سے کروائی جاتی ہیں۔ اپنا اسلحہ فروخت کرتے ہیں اور اپنے ملک کی معیشت کو مضبوط کرتے ہیں۔ کئی ممالک مل کر کسی ملک پر قابض ہوتے ہیں اور اس ملک کے وسائل کو لوٹ تے ہیں۔ عرب ممالک کے ساتھ کچھ اسی طرح کی چال چلی جا رہی ہیں۔ امریکی زور اور زبردستی سے پیٹرول اور گیس کمیشن پر دوسرے ملکوں کو بیچتا ہے، شیخ ہاتھ پہ ہاتھ رکھے کٹھ پتلی بادشاہ بنے ہیں۔ علاوہ ازیں، آج کل مغربی ممالک اور امریکہ کی سائنس اور ٹیکنالوجی کا معیار کم پڑ گیا ہے۔ اس کے مقابلے چین، روس اور ایران کی ٹیکنالوجی ان مغربی ملکوں اور امریکہ کے مقابلے بہتر اور سستا ہے۔ عالمی مارکیٹ پر چین، روس اور ایران کا قبضہ ہے یہی وجہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دو تین دہائیوں کے بعد امریکہ دہشت گردوں کی بحالی، تربیت، اسلحہ اور فنڈنگ کے ذریعے اپنی نئی تدبیر کا استعمال کرتا رہا ہے۔ اب یہ امریکی شیطانی حرکتیں آشکار ہو چکی ہیں۔ امریکہ کا ستارہ گردش میں اور یوں پیشن گوئیاں ہو رہی ہیں کی اس کا ستارہ ڈوبنے کو ہے۔

مذکورہ بالا تحریر کے علاوہ اس آیت مبارکہ پر غور و فکر کریں “و قاتلو افی سبیل اللہ” خدا کی راہ میں جنگ کرو۔ اس آیت میں تین بنیادی نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو جنگ کے موقع کی اسلامی منطق کو مکمل طور پر واضح کرتے ہیں۔ اسلامی جنگوں کے اصلی مقصد اور ہدف کو واضح کرتا ہے۔ انتقام، جاہ طلبی، حصول اقتدار، کشور گشایی، مالٍ غنیمت اور دوسروں کی زمینوں پر قبضہ ان سب مقاصد کے لیے جنگ کرنا اسلام کی نگاہ میں مذموم ہے۔ جنگ کے بنیاد پر صحیح ہے یہ امور لازمی ہے کہ قارئین کرام کے لیے تحریر کی جائے۔ ذہن نشین کریں کہ صرف راہٍ خدا میں اور قوانین الٰہی کے نافذ کرنے کے لیے جہاد کرنا صحیح ہے یعنی حق، عدالت اور توحید کے لیے اور ظلم و فساد، انحراف اور کجروی کے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے جہاد درست ہے۔

مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں فلسطینیوں کی جنگ “طوفان الا قصٰی” حق، عدالت، توحید، ظلم، فساد، انحراف اور کجروی کے رَو سے درست ہے۔

اسرائیل نے 70 سال سے حقوق چھین رکھی ہے، عدل و انصاف کی پامالی ہے، قبلۂ اوّل اور مسجد اقصٰی پر قابض اور جارحیت پر آمادہ ہے، ظلم، تشدد اور بربریت کی انتہا کر رکھی ہے، فساد برپا کئے ہوئے ہے، سبھی قوانین سے انحراف اور کجروی ہے اس کے علاوہ زمینی، فضائی اور بحری محاصرے ہیں، خوراک، دوائیاں اور ضروریات کے ساز و سامان پر زبردست پابندی عائد کر رکھی ہے۔

اگر ان آیت مبارکہ پر تدبر و تفکر کریں “الذّین یُقاتٍلو نکم” ان سے لڑو جو تم سے جنگ کریں۔ اب دنیا کیا کہے گی کہ صہیونیوں نے گزشتہ پانچ دہائیوں میں 1،50،000 معصوم فلسطینیوں کو شہید کر دیا، قیدی بنا کر ان پر مظالم، زد و کوب اور طرح طرح کی تکالیف دیں۔ جب سب کچھ چھین لیا، ان کے ماں، باپ، بیٹے، بیٹی، بھائی، بہن، میاں اور بیوی کو قتل کیا، رہنے کا مکان چھینا، کاشتکاری کی زمین پر قابض ہوئے گویا ہر طرح سے تباہ و برباد کر دیا تو صرف جان بچی، اب انہیں ایسا محسوس ہوا کہ ان کے لیے سارا جہاں اندھا، گونگا اور بہرا ہو گیا ہے تو اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے اور بے غیرت، بے حیا، بے شرم، ذلیل، عیاش عرب حکمرانوں کو احساس دلانے کے لیے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ آور ہوکر تاریخ رقم کی، اس فقرے “ہیہات منا الذلہ” پر عمل کیا۔

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کی جنگ اب تیسری عالمی جنگ کا رُخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس جنگ میں اب تک جو ملک شامل ہو چکے ہیں ان کے نام ہیں: فلسطین، عراق، شام، لبنان، یمن، اسرائیل، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، اردن، ترکیہ، مصر، قطر، کینیڈا، ایران، روس، چین اور شمالی کوریا وغیرہ ہیں۔ اس میں عیاش، بے غیرت و بے حیا 57 مسلم حکمران ہیں جو خاموشی سے قاتل اسرائیل کو تیل، گیس اور ایندھن جہاز، ہیلی کاپٹر اور ٹینک کے لیے سپلائی بحال کئے ہوئے ہیں جس سے بم اور گولے برسا کر بچوں اور خواتین کو شہید کروانے کے مرتکب و مجرم ہیں۔ اب تک 26،000 معصوم جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ 10،000 لا پتہ ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 60،000 سے تجاوز کر چکی ہے۔

جنگی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اگر دو گروہوں میں جنگ چل رہی ہے۔ ایک گروہ کے پاس مادی ذرائع کثیر تعداد میں موجود ہیں جبکہ دوسرے گروہ کے پاس مادی ذرائع کا فقدان ہے۔ اس کے پاس فوج نہیں ہے، اسلحہ، ساز و سامان جیسے بمبار طیارے، ہیلی کاپٹر، ڈرون، میزائل، ریڈار اور تربیت یافتہ کرنل و جنرل بھی نہیں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جنگ کا فاتح کسے قرار کیا جائے گا۔ جنگی محاذ کے نامہ نگار کا نظریہ یہ ہوگا کہ جس کے پاس مادی وسائل کی فراوانی ہے وہی جنگ میں جیت حاصل کرے گا۔ جنگی محاذ آرائی میں فتح کے لیے مادی وسائل کافی ہے۔ اس کے علاوہ یہ دیکھنا ہوگا کہ فوجی جنگ لڑنے کو آمادہ ہیں، ان میں ہمت و motivated ہیں، جنگ لڑنے کی صلاحیت، جوش، ولولہ، اسپرٹ، قوت و inspiration ہے۔ ایک اہم نکتہ کا تذکرہ لازمی ہے کہ وہ جنگ لڑنے کا ارادہ ہے رکھتے ہیں یا نہیں، نیت کیا ہے اور جذبۂ فدا کاری سے لبریز ہے یا نہیں اور سب سے بڑا کارفرما کردار، حب الوطنی ہے کہ نہیں۔ جو اسلحہ سے لیس ہے، اس کا حوصلہ و ہمت کا معائنہ ضروری ہے۔ دنیا اسرائیل اور فلسطین جنگ کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ ۱۱۵ دن جنگ کے آغاز کو ہوا لیکن اسرائیل ایک بھی ہدف حاصل نہیں کر سکا جیسے فلسطین کے سینئر رہنما کی گرفتاری یا قتل، زیر زمین سرنگوں کو پکڑنا، اپنے یرغمال فوجیوں کی رہائی یا غزہ پر مکمل فتح مگر ان میں سے ایک بھی ہدف عبور نہیں کر پایا۔ صیہونی افواج نے بچوں، خواتین، مکان، مسجد، اسکول، کالج، یونیورسٹی، کتب خانہ، کلیسا، اور ہسپتال پر بم اور گولے برسائے۔ اسے جنگی جیت نہیں کہتے بلکہ جنگی جرائم کا ارتکاب کہا جائے گا۔ چونکہ اس جنگ میں شیطانٍ بزرگ، امریکہ بھی شامل ہے، یہ ہر ملک پر حملہ کرتا ہے اور کرتا رہا ہے لیکن امریکہ ایک ملک، ایران پر حملہ نہیں کرتا اور بقول رہبر معظم انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای رضوان اللہ یہ حملہ نہیں کرے گا۔ اب تو یہ بات اظہر المنشمس ہے کہ جنگ صرف اسلحہ سے نہیں لڑی جاتی ہے۔ یہ تفتیش و تذکرہ کی ضرورت ہے کہ ان کی فوج میں جنگ لڑنے کا جذبہ، حوصلہ و ہمت ہے یا نہیں۔ ان میں مادہ پرستی ہے۔ خصوصی و خفیہ ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ امریکی اور اسرائیلی فوج میں خالص امریکی یا اسرائیلی فوج نہیں ہے۔ اس میں ایسے فوجی ہیں جو نیشنلیٹی حاصل کرنے اور ملازمت کی غرض سے شامل ہو گئے ہیں۔ حالانکہ دوسرے ملک کے فوجی اکثریت میں ہیں۔ یہ واضح ہے کہ یہ لڑ نہیں سکتے۔ ایران، اسرائیل اور امریکہ میں لڑنے کا جذبہ ایک جیسا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ وہ تو حماس، حوثی و حزب اللہ سے نہیں مقابلہ نہیں کر سکے۔ ان میں ہر ایک مجاہد کے حوصلہ و ہمت کا معیار اتنا اعلٰی ہے کہ وہ لڑ نہیں سکتے۔

فلسطین اور اسرائیل جنگ میں یمن کا ہمدردانہ، یگانہ اور دلیرانہ مداخلت پوری دنیا، خصوصی طور پر اسلامی ملکوں کے رہنماؤں اور وہاں کی عوام الناس کو دنیا کے سامنے رسوا کر دیا ہے۔ ایمانی و اخلاقی فریضہ تو یہ تھا کہ فلسطینیوں کی ہر طرح سے مدد کریں اور اگر یہ نہیں کیا تو کم از کم جنگ بندی کی کوشش کرتے۔ بہر کیف، یہ آلٍ سعود، نمرود و یہود عمل و کردار میں یکسانیت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب نے یمن پر آٹھ سال تک جنگ مسلط کر رکھی تھی۔ اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ غریب ملک پر خوراک، دوائیاں اور ضروریات کے ساز و سامان کی برآمدگی پر محاصرہ کر رکھا تھا۔ بھوک سے کافی تعداد میں جاں بحق ہوئے۔ لیکن پروردگار کی جود و کرم و مدد سے گزرے عرصے میں دفاعی میدان میں قابل قدر و ستائشی قوت و صلاحیت پیدا کی کہ اب امریکہ اور مغربی ممالک کو یمن کھلم کھلا چیلنج کرتا ہے کہ اگر اسرائیل ہمارے بھائی پر ظلم و ستم، بمباری، اور ضروریات خوراک اور ادویات کا محاصرہ ختم نہیں کیا تو ہم بھی بحیرہ احمر (Red Sea) سے ہر وہ جہاز جو اسرائیل کے لیے سامان لیکر جانے والا اور وہاں سے آنے والے جہازوں کو نشانہ بنائے گا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ ممالک اپنے اسلحہ کے زور پر آگے آئے، یمن کو دھمکایا اور پھر اس پر زبردست طریقے سے بمباری کی۔ امریکہ اور اس کے ساتھ دیگر ممالک یمن کی ہمت و حوصلہ پست نہ کر سکے بلکہ فلسطینیوں کی مدد کا وعدہ دہرایا۔ ان کے جہازوں پر بھی ڈرون اور میزائلوں سے ایسے حملے کر رہے ہیں کہ دنیا آنکھ پھاڑ کر دیکھ رہی ہے کہ یمنی کے پاس خدا داد مدد ہے۔

نیٹو کا خواب تھا کہ یمن پر قبضہ کرنا ہے۔ اس خواب کو یمنی نے ریزہ ریزہ کردیا۔ تاریخ رقم کرتے ہوئے اتنا شدید اور زوردار حملہ کیا کہ نیٹو، امریکہ اور یورپی یونین کا مشترکہ حملہ کو ناکام بنا دیا۔ بیشک اللہ ہی قادر مطلق ہے۔ وہی کامیاب ہوگا جس کے ساتھ اللہ کی مدد شامل حال ہوگی۔ آج ہر سمت سے اُن غیرت ماؤں کو سلام، تبریک و تہنیت پیش کئے جا رہے ہیں جنھوں نے ایسے شجاع، نیک، نڈر، صالح، صابر، شاکر، زاہد اور اللہ پر توکل کرنے والے بچوں کو جنم دیا جو شہادت کو اپنی فتحیابی اور خوشنودی الٰہی قرار دیتے ہیں۔

یمنی نے یہودی، نصاریٰ، مجوسی و بت پرستوں، ظالموں، غاصبوں، مکاروں، دغابازوں کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں بحیرہ احمر کا محاصرہ کر ہر تکلیف، مصیبت اور صعوبتیں برداشت کرنے اور قربانی نوش فرمانے کے لیے آمادہ ہیں کیونکہ یہ صیہونی، ظالم، جابر و غاصب نے معصوم بچوں، عورتوں، ضعیف اور مریضوں کے لیے دودھ، پانی، خوراک اور دوائیاں نہ پہنچنے کے لیے زمینی، فضائی اور بحری محاصرے کر رکھے ہیں۔

لوگ یمنی کے ایمان، ہمدردی اور بہادری کے قصیدے پڑھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر جذبۂ ایمانی حاصل کرنا ہو تو یمنی سے حاصل کریں۔ آیات فرقان کی روشنی میں مکمل طور پر اسرائیل پر حملہ طوفان الا قصٰی جائز و درست ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں