طوفان الاقصٰی کا آغاز ۷ اکتوبر، ۲۰۲۳ کو ہوا۔ یہ مسلسل پانچ مہینے سے جاری ہے۔ طوفان الاقصٰی مرکب لفظ ہے۔ طوفان کا معنی و مفہوم ہے آندھی، مصیبت اور سانحۂ عظیم۔ لفظ اقصٰی کا مطلب ہے بیت المقدس۔ طوفان الاقصٰی کے اغراض و مقاصد اور اس کی اہمیت سمجھنے کے لئے مسجد اقصٰی کی فضیلت اور عظمت کو سمجھنا ہوگا۔
تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
جس زمین پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطین کا علم
تیرے اعدا نے کیے ایک فلسطین برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطین آباد
مسجد اقصٰی، مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے۔ یہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کے لیے تیسرا سب سے مقدس ترین مقام ہے، یہ مسجد فلسطین کے شہر یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اسلام کا قبلہ اوّل ہونے سے لیکر اس منزل تک جہاں نبی اکرم ﷺ نے رات کے سفر (معراج) کے دوران تمام انبیاء کی نماز باجماعت پڑھائی، مسجد اقصٰی اسلام کی شب شے خاص تاریخی یادگاروں میں سے ایک ہے۔
قرآن مجید میں خالق کائنات کا ارشاد ہے، وہ ذات پاک ہے جو لے گئی ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصٰی (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔ بخاری، احادیث نبوی میں بھی مسجد اقصٰی کا ذکر اور فضیلت تواتر سے ملتی ہے۔
جس طرح مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی اہمیت ہے ٹھیک اسی طرح مسجد اقصٰی میں نماز ادا کرنے کی اہمیت ہے۔ اسی نظریے کو اگر اس انداز سے لکھا جائے کہ جس طرح مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی حفاظت و تقدس فرض ہے اسی طرح مسجد اقصٰی کی حفاظت ہر امت مسلمہ پر فرض ہے۔ یہ کوئی کہہ کر اپنے ذمہ سے بری نہیں ہو سکتا کہ مجھکو معلوم نہیں، میں دور اور دوسرے ملک کا باشندہ ہوں۔ میں تو پڑوسی بھی نہیں۔ یہ تو ایمان کا مسئلہ ہے۔ اس مقام پر ایک روایت کے ذریعے راقم اپنی بات کو مربوط کرنے چاہتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ سے ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ کیا میں ایمان والا ہوں۔ تاجدارؐ انبیاء نے فرمایا کہ ایمان ابھی تم لوگوں کے صرف منھ تک ہے، جبکہ ایمان کا تعلق دل سے ہے۔ گویا نام سے لوگ مسلمان تھے اور ابھی ہیں جیسا کہ طوفان الا قصٰی کے نمودار ہونے سے زمانے کے سامنے عیاں ہو گیا۔ پروردگار سمیع البصیر ہے۔
مسجد اقصٰی سے وابستہ ایک پہلو کی وضاحت و تشریح ضروری ہے۔ دین کی پیروی کے لیے ‘الصادق و الامین’ ہونا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے وحی ہونے سے قبل صادق اور امین کا لقب حاصل کیا تھا۔ آپؐ کے جانی دشمن بھی اقرار کیا اور اس صفت سے پہچانا۔ لہٰذا لوگوں نے سمجھا کہ دین کی تبلیغ اور فروغ صادق اور امین سے شروع ہوتا ہے۔ جبکہ دینداری کی ابتدا صادق اور امین سے نہیں ہے۔ اس مقام پر طلب توجہ ہے۔ بلکہ شروعات رحمٰن و رحیم سے ہے۔ جب تک کوئی بندہ خدائے رحمٰن و رحیم کا مظہر نہیں بنتا وہ دیندار ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے واسطے نہایت سنجیدہ و اہم پہلو یہ ہے کہ اپنے اندر جانچ کرنا ہوگا کہ آیا اپنے اندر سختی نہ ہو۔ اگر اپنے اندر بے رحمی اور سختی کا وجود موجزن ہو حتّٰی کے جانوروں یا پرندوں کے لئے۔ یہ وضاحت کرتا ہے کہ آپ میں ابھی دین شروع نہیں ہوا ہے۔
کسی مسلمان میں ابھی دین کا آغاز ہوا ہے یا نہیں اس کو مثال کے ذریعہ دیکھایا جائے تو بہتر ہوگا۔ مولانا جلال الدین رومی نے ایک عارف کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بہت عبادت گزار تھا۔ اس کی سبھی عبادتیں ذائع ہوگئیں۔ اس نے اللہ پاک سے شکایت و گلا کی کہ میں نے اتنی زیادہ عبادتیں کیں وہ برباد کیوں اور کیسے ہو گئیں؟ ایک بلی وجہ بنی۔ وہ بلی پیاس سے جاں بحق ہو رہی تھی، تمھارے پاس وضو کے لیے پانی تھا۔ تم نے کہا میں وضو کروں چاہے بلی مر جائے جبکہ تم تیمم کر سکتے تھے۔ اگر تمھارے قلب میں رحم ہوتا تو تم تیمم کرتے۔ جس کے دل میں رحم نہیں ہے وہ اللہ کا دین حاصل نہیں کر سکتا۔ بے رحم آدمی کبھی بھی رحمت العالمین کی سمت میں نہیں آسکتا۔ بے رحم انسان، رحمت العالمین کی امت سے باہر ہے۔
یہ قطعی علامت نہیں ہے کہ تم ایمان والے ہو: اللہ، پیغمبر، رسول اور آسمانی کتابوں کو مانتے ہو۔ نماز پڑھنا، روزہ رکھنا اور حج کرنا یہ بھی علامتیں نہیں ہیں کہ تم ایمان والے ہو۔ یہ بھی علامت نہیں ہے کہ تم خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور مسجد اقصٰی کے متولیان میں سے ہو اور مدینہ منورہ و مکہ مکرمہ یا سعودی عربیہ کی تمام مساجد کے امام کی بحالی کرتے ہو۔ اصل میں یہ دیکھا جائے گا کہ تمھارے میں صفات خدا وند عالم”رحمٰن و رحیم’ ہے یا نہیں؟ آج پوری دنیا پانچ مہینے سے مشاہدہ کر رہی ہے کہ عرب و مسلم ممالک کے حکمران کے دلوں میں کوئی رحم نہیں ہے۔ جب ایمان ہوتا تو رحمدل ہوتے، ترس کھاتے، مدد کرتے، ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے، ظالم کا ساتھ نہ دیتے، اس کے جہاز کے لیے اندھن مہیا نہ کرتے جس سے وہ معصوم بچے، عورتوں، ضعیفوں اور مریضوں پر بم برسا رہا ہے وہ ٹینک کے لیے پیٹرول نہیں دیتا جس سے یتیموں، بیواؤں، بھوکوں اور پیاسوں پر گولے برسا رہا ہے، وہ ان گاڑیوں کے لیے ڈیزل نہیں دیتا جس سے وہ نوزائیدہ بچوں کا دودھ، پانی، خوراک اور ادویات کو روکنے کے لیے محاصرہ نہ کرتا۔ ان ظالم، دہشت گرد، درندہ و نسل کش کی مدد نہ کرتا۔ آج پوری دنیا میں جیسے برطانیہ، امریکہ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا و اٹلی، اور یورپی ممالک اور یورپی یونین میں لاکھوں افراد سڑک پر نکل کر اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن بے شرم، بے حیا، بے غیرت، دغاباز، عیاش، ذلیل، بے ایمان، ابو جہل، ابو لہب و ابو سفیان کی نسل ظالم، درندہ صیہونیوں کی کی مدد کر رہا۔ یہ خود ساختہ اعاظٍم، شیخ السلام، اور شیخ الشیوخ شیطانٍ مجسم ہے۔
دنیا میں چند مسلم ممالک ہیں جو فلسطین کے شانہ بشانہ، قدم سے قدم ملا کر قربانی پیش کر رہے ہیں۔ ان ملکوں میں ایک ایسا ملک ہے جو عالمی سپر پاور ملک سے ٹکرانے کی ہمت رکھتا ہے اور وہ ہے ایک کمزور، غریب اور آٹھ سال ملعون، سعودی عربیہ و ان کے اتحادیوں سے لڑا جس میں چار لاکھ افراد شہید ہوئے، بھوک، پیاس اور دواؤں کی قلت میں اپنی جانیں گنوائیں لیکن ہمت نہ ہارے، اور فاسق و فاجر کے آگے بیعت نہ کی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے پاس کربلا کا پیغام تھا جو سن ۶۱ ہجری، کربلا، عراق کے میدان میں نواسۂ رسولؐ کی آواز گونجی تھی “مجھ جیسا، تجھ جیسا کی بیعت نہیں کر سکتا ہے” جنگ لشکر، کثیر تعداد اور اسلحہ سے نہیں جیتی جاتی بلکہ ایمان، ہمت اور حوصلے سے فاتح قرار پاتا ہے۔
وہ یمنی حوثی جو دشمنوں کے جہازوں کو ٹھوک رہا ہے، مار رہا ہے، بحیرہ احمر میں غرق کر رہا ہے، للکار رہا ہے کہ آؤ، سامنا کرو اور مقابلہ کرو۔ اس بہادر اور جانباز ملک کا نام ہے “یمن”۔ دنیا میں جب بھی مڈل ایسٹ کو یاد کیا جائے گا تو تاریخ میں یمن کو ضرور یاد کیا جائے گا۔ تاریخ کی کتاب میں یمن کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ اگر غزہ کی مدد کے لیے کسی ملک کا نام لیا جائے گا کہ کسی ملک نے قدم سے قدم ملاکر، کندھے سے کندھا ملا کر جنگ کی، مدد کے لیے کھڑا ہوا، دشمن کو سبق سکھایا تو وہ نام یمن کا ہی لیا جائے گا۔ یمن نے اب تک 70 جہازوں کو نشانہ بنایا ہے۔ کچھ جہازوں کو قبضے میں لیا، کچھ جہازوں کو غرق کر دیا، کچھ جہازوں کو جلا کر راکھ کر دیا اور کچھ کمپنیوں نے بحیرہ احمر سے اپنے جہازوں سے کاروبار منسوخ کر دیا ہے۔
اب یمن امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، مغربی ممالک، نیٹو اور دہشت گرد ملکوں کو جینے نہیں دےگا۔ دنیا کا کوئی بھی سپر پاور، ایٹمی ملک، سائنس و ٹیکنالوجی میں سے مزین، اسلحوں میں خود کفیل، ڈرون اور فائٹر جیٹ بنانے والے ملک ہی کیوں نہ ہوں، اسے اعلانیہ کہہ رہا ہے کہ ہم مقابلہ کے لیے تیار ہیں۔ اور جس طرح سے ان ظالم ملکوں کو شکست دی ہے اس کا نتیجہ اور اثرات دور تک مرتب ہونگے۔
یہ بڑا المیہ ہے، کافی سنگین معاملہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے یمن پر بڑا حملہ شروع کر دیا ہے۔ اب تک 300 سے زیادہ یمن پر بمباری کیا ہے۔ یہ حملہ 12 جنوری سے شروع کیا ہے جو سب تک جاری ہے۔ امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کی محبت میں کر رہا ہے۔ تاریخ نویس لکھیں گے کہ امریکہ اور برطانیہ کتنا بے شرم، بے حیا، بے غیرت، دغلا و مکار ہے کہ انسانی حقوق کا دم بھرتے ہیں، عورتوں و بچوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن غزہ میں معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل ہو رہا ہے اور ایسا کرنے میں یہ دونوں ملک جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ لیکن دوسری طرف حوثیوں نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ چاہے جتنا بمباری یمن پر کرنا چاہتے ہیں کر لے، یہاں تک کہ ایٹم بم بھی گرا دے لیکن بحیرہ احمر و دیگر ساغر کی راہیں اس وقت تک پابندی کے زیر اثر رہیں گی جب تک اسرائیل محاصرہ ختم نہیں کرتا اور ہمارے بھائیوں کو پانی، خوراک، ادویات اور مختلف ضروریات کے سامان پہنچنے کے لیے محاصرہ ختم نہیں کرتا ہے۔ تب تک حوثی (انصار اللہ) اسرائیل کے خلاف محاصرہ کرنے کے پابند ہیں۔ یہ ہیں مسلمان یہ ہے ان کا ایمان، قرآن کریم اور احادیث پاک کی روشنی میں!