صبر، استقامت اور حال!
( توصیف احمد وانی پدگام پورہ اونتی پورہ )
تصوّف کے موضوع پر ایک ہزار برس قدیم دستاویز “کشف المحجوب” میں ایک عجب بات درج ہے۔ یوں تو عالی مقام حضرت علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کی کتاب میں مندرج ہر جملہ ہی غور کرنے والوں کے لیے ایک محیّر العقول مقالہ ہے، لیکن جنابِ حسن بصریؒ کا ایک مکالمہ عجب کیفیتِ وجد طاری کر رہا ہے۔ حسن بصریؒ براہِ راست باب العلم حضرت علی المرتضیٰؑ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ تابعین کے ذکر کے لیے مختص باب میں حضرت حسن بصریؒ کے تذکرے میں یہاں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک مرتبہ ایک اعرابی حضرت حسن بصریؒ کے پاس حاضرِ خدمت ہوا اور صبر کی بابت دریافت کیا۔ آپؒ نے فرمایا:
”صبر دو طرح کا ہوتا ہے: ایک بلاو مصیبت میں صبر کرنا ، اور دوسرا منکرات سے خود کو روکے رکھنا ۔ وہ بدو کہنے لگا کہ بلاشبہ آپؒ زاہد ہیں اور آپؒ سے بڑھ کر میں نے کوئی زاہد دیکھا ہے نہ صابر۔جناب ِ حسن بصریؒ نے کہا : ” لیکن میرا زہد ( دنیا سے بے رغبتی) دراصل ایک رغبت ہے اور میرا صبر بھی دراصل ایک بے صبری ہے۔ “ اُس بَدّو نے کہا:” یاحضرت! مجھے اس بات کی وضاحت کر دیجئے، آپؒ کی یہ بات سن کرمیری عقیدت ڈگمگارہی ہے۔“آپؒ نے فرمایا:” کسی مصیبت اور اطاعت کی صورت میں میرا صبر دراصل یہ بتا رہا ہے کہ میں آتشِ دوزخ سےڈر رہا ہوں اور یہ بے صبری ہی کی ایک صورت ہے۔ اسی طرح دنیا سے بے رغبتی ( زہد) دراصل آخرت سے رغبت کی وجہ سے ہے اور یہ بھی درحقیقت ایک رغبت ہی ہے۔ خوش نصیب وہ ہے جس نے اپنے زہدو صبر کا حصہ درمیان سے اُٹھا لیا، یہاں تک کہ اُس کا صبر خاص اللہ جل جلالہٗ کے لیے ہوگیا ، نہ کہ محض دوزخ کے خوف کی وجہ سے ، اور اِسی طرح اُس کا زہد بھی مطلق خدائے نعمت بخشن ہار کے لیے ہو گیا، نہ کہ جنّت میں پہنچے کے لیے۔ یہ بات خالص اخلاص کی علامت ہے۔“
صبر کے متعلق اِس قول میں نکات دَر نکات کا ایک جہان پوشیدہ ہے۔ معلوم ہوا کہ صبر بنیادی طور پر خود کو روکنے سے متعلق ہے۔ خود کو روکنا یقیناًایک بااِختیار بندے کا عمل ہے۔ یعنی صبر کرنے والا بے صبری بھی اختیار کر سکتا تھا لیکن اُس نے بے صبری کی بجائے صبر کا راستہ اختیا ر کیا۔ صبر کا راستہ اختیار کرنے والا طاقت ور ہوتا ہے۔ وہ انتقام لے سکتا ہے، وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر شکوہ کناں بھی ہو سکتا ہے، لیکن وہ خاموش رہا۔ اُس نے انتقام لیا نہ شکوہ اور شکایت کی۔ اگر وہ بے بس تھا، کمزور تھا ، فوری طور پر بدلہ نہیں لے سکتا تھا، تو وہ دل میں کینہ ، نفرت اور بغض بھی رکھ سکتا تھا۔ لیکن اس نے اپنے دل کو ان تمام منفی جذبات سے پاک رکھا ۔یہ منفی جذبات مخلوق کو فوری طور پر نظر نہیں آتے۔ ممکن ہے مخلوق اسے صابر ہی تصور کر تی، لیکن باطنی طور پر وہ ایک دنیا دار شخص کے طور پر شمار ہوتا ، جس کے مفادات پر جب ضرب پڑتی ہے تو وہ مشتعل ہو جاتا ہے۔ ظاہر میں اُس کے اعضاء و جوارح غصے کی شدت سے مسخ ہو نے لگتے ہیں۔ باطن میں نفرت، بغض اور کینے کے زیرِ اثر اُس کی صورت ، اُس کی مثالی صورت کریہہ المنظر ہونے لگتی ہے۔ وہ مخلوق کے لیے ناقابلِ قبول ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ خود سلامت رہتا ہے نہ مخلوق کو اُس کے ہاں سلامتی کا سائبان میسر آتا ہے۔ باالفاظ ِ دیگر غصے پر قابو پانا بھی صبر ہے۔ ظاہر میں حالات کے کشیدہ ہونے کے باوجود باطن میں کبیدہ خاطر نہ ہونا بھی ایک صبر ہے۔ کسی کی بداخلاقی کے جواب میں خوش اخلاقی برقرار رکھنا بھی صبر ہے۔ اپنے خیالات و جذبات کو ہر حال میں متواضع اورمتوازن رکھنا بھی صبر ہے۔ الغرض مصیبت کے عالم میں ہر قسم کے شکوہ و شکایت سے مجتنب رہنا صبر کہلائے گا۔
صبر کرنے والا خالق کا شکوہ مخلوق سے نہیں کرتا ہےاور مخلوق کا شکوہ خالق سے نہیں کرتا۔ خالق کا شکوہ مخلوق سے— نامساعد حالات و واقعات کا تذکرہ و تکرار ہے۔ خالق کا شکوہ مخلوق سے یوں بھی ہے کہ انسان اپنی بدقسمتی کا تذکرہ کرتا رہے— حالانکہ کسی انسان کو بدقسمت نہیں پیدا کیا گیا — ہر شخص خوش قسمت ہی پیدا ہوتا ہے، اگر وہ اپنی قسمت پہچان لے۔اِنسان عجب مخلوق ہے— حالات و واقعات کی وہ ترتیب جو اُس کی دانست میں بہتر ہے، بس اسے ہی وہ خوش قسمتی سمجھتا ہے اور کسی غیر معمولی ترتیب کو بدقسمتی پر محمول کرتا ہے۔ حالانکہ واقعات کی غیر معمولی ترتیب غیر معمولی امکانات بھی ساتھ لے کرآتی ہے۔ زندگی اور اس میں میسّر آنے والے افراد و واقعات سب کے سب خالق نے پیدا کیے ہیں— اور اسی نے یہ واقعات ترتیب دیے ہیں۔ اُس کی دی ہوئی یہ ترتیب ہی تقدیر ہے۔ اپنے مقدر کو مہمل سمجھنا اور موقع بموقع اس کا اظہار کرتے رہنا ،براہِ راست خالق کا شکوہ ہے۔
مخلوق کا شکوہ خالق سے — اس طرح ہوتا ہے کہ انسان مخلوق کی شکایت خالق سے کرتا رہے۔ مخلوق کی خالق سے شکایت بدعا کی صورت بن جاتی ہے۔ صبرکرنے والا بددعا نہیں کرتا۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ نہیں لیتا۔ اگر وہ آج بے بس ہے تو اپنا انتقام کل پر مؤخر نہیں کرتا— اور یہ کل ہر آنے والا کل ہے۔ صبر کرنے والا روزِ جزا بھی کسی کے لیے سزا کا طالب نہیں ہوتا۔ صبر کرنے والا دراصل معاف کرنے والا ہوتا ہے— ہمیشہ ہمیشہ کے لیے!
صبر کا دوسرا حصہ —منکرات سے بچنا، خود کو لہو و لعب سے بچانا ، دنیا کی ترغیبات و تحاریص سے اپنا دامن بچائے رکھنے پر مشتمل ہے۔ انسان ایک صاحبِ اختیار مخلوق ہے— وہ حکم عدولی کر سکتا ہے— وہ ممنوعات کی طرف لپک سکتا ہے، اسے یہ طاقت دی گئی ہے کہ چاہے تو روح کے تقاضو ں پر لبیک کہے اور چاہے تو روح کے تقاضوں کا پامال کرتا ہوا جسم کے تقاضوں کو مقدم جانے۔ لیکن صابرین یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ دل کی آزادی ، شہنشاہی کے راستے پر چلیں گے اور شکم پروری کے اس راستے پر نہیں چلیں گے جو سامانِ موت ہے۔ یوں امکانات کے جہان میں زندگی اور موت انسان کے اختیار میں ہے۔
اس کے بعد صبر کا تیسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جسے استقامت کہتے ہیں۔ یہ فیصلہ کر لینے کے بعد— کہ ہم نے عارضی زندگی کو ہمیشہ کی زندگی میں بدلنا ہے—شکم کے شکنجے سے نکل کر دل کی دنیائے بسیط میں داخل ہونا ہے— موت سے نکل کر زندگی میں قدم رکھنا ہے— اپنے اِس فیصلے پر ثابت قدم رہنا جہانِ معانی کا ایسا آسمان کھولتا ہے جس کا مطالعہ و مشاہدہ پیٹ کے بل زمین پر رینگنے والوں کو میسر نہیں۔ دراصل صبر ایک ایسا منظر ہے جو بے صبر وں پر منکشف نہیں ہوتا ہے۔ برداشت اور صبر میں فرق ہے۔ برداشت باالکراہت ہے، صبر بالرضا!
لالچ میں لتھڑے ، نفرت کے بھنور میں گھرے، کینے میں لپٹے، حسد کے مارے— دراصل بے صبری کے مارے ہوئے ہوتے ہیں۔ اِن پر زمینی مناظر بھی کھل نہیں پاتے۔ یہ صرف اُنہی مناظر کے مسافر ہوتے ہیں جہاں اِن کے مفادات کی تکمیل کا کوئی سامان اور اِمکان موجود ہو۔ صبر پر استقامت تسلیم و رضا کا منظر کھول دیتی ہے۔ تسلیم و رضا کے منظر کا شاہد ہی مشیّت ِ الٰہی کے رازوں کا امین ہوتا ہے۔
خواجہ حسن بصریؒ کے قول کا یہ حصہ کہ ” خوش نصیب ہے وہ جس نے اپنے زہد و صبر کا حصہ درمیان سے اُٹھا لیا” بہت عمیق معانی کا حامل ہے۔ دائیں اور بائیں خوف اور حزن ہے، سزا کا خوف اور جزا کا لالچ ہے— آگے اور پیچھے ماضی اور مستقل ہے— صرف درمیان میں لمحہِ حال ہے— جہاں وہ یک آن اپنی مشیت کے نَو بہ نَو جلووں کے ساتھ خود جلوہ آراء ہے— ! الآن کما کان — حال سے متمسک ہونے والا ہی صاحبِ حال ہے۔ صاحب ِ حال متلوّن نہیں ، متمکن ہے— مستقیم الحال ہے۔
صبر کرنے کا اَجر— معیّتِ اِلٰہی ہے— ہمہ حال قربِ الٰہی ہے۔ اِن اللہ مع الصابرین— یہاں ” مع” صرف ساتھ نہیں ، بلکہ ساتھ ساتھ ہے۔ اللہ کی معیت صبر کرنے والوں کے ساتھ مخصوص ہے۔
ظلم کرنے والا ظالم ہوتا ہے۔صبر کرنے والا مظلوم ہوتا ہے۔ حق چھیننے والا ظالم ہوتا ہے— یہ حق، مال عزت آبرو بھی ہے اور استحقاق بھی— مظلوم حق پر ہوتا ہے— مظلوم کے ساتھ حق ہوتا ہے، بلکہ حق مظلوم کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ کبھی ظالم نہیں بنتا— طاقت مل جانے کے بعد بھی وہ ظلم کرنے والوں میں شامل نہیں ہوتا۔ ظالم کے پاس مادّی قوت ہوتی ہے۔ مظلوم کے پاس اخلاقی طاقت ہوتی ہے۔ مادّی قوّت رُو بہ زوال ہوتی ہے۔ اخلاقی قوت لازوال ہے۔ حکمت ِ خداوندی میں لکھا جا چکا ہے کہ اخلاقی قوّت مادی قوّت پر غالب آ کر رہے گی— لیکن اس کا مظاہرہ اور مشاہدہ فوری نہیں ہوگا— اس کے لیے صبر بھی سے کام لینا ہوتا ہے۔ مادّی قوت مالکِ کاینات کی نعمتوں میں سے ہے — نعمتوں کو زوال ہے اور نعمتوں کے متعلق سوال ہوگا۔ اخلاقی قوت ذاتِ خداوندی کی طرف سے انعام ہے— انعام ِ خداوندی لازوال ہے۔
صاحبِ نعمت اور صاحبِ انعام میں فرق ہے۔ صاحبِ نعمت نعمتوں تک محدود ہے— صاحبِ انعام اپنے صبر کی وجہ سے منعم کی ذاتِ لامحدود کے قریب ۔ صاحبِ انعام ذاتِ حقیقی کی طرف متوجہ ہے — معیّتِ الٰہی کی آغوش میں ہمہ حال محوِ آرام !!