بسم اللہ الرحمن الرحیم
حجتہ الاسلام والمسلمین، خطیب اہلبیت علیہ السلام ، عالم دین ،
شہید آغا سید محمد حُسین الموسوی رحمت اللہ علیه بڈگام کشمیر
نیک سیرت ، عالم دین،فرزند صالح آقاے سید محمد عقیل الموسوی قبلہ کی خواہشات قلبی کو عملی طور انجام دیکر آپ قبلہ کے والد بزرگوار ، عالم باعمل حجتہ الاسلام شہید آغا سید محمد حسین الموسوی ؒ کے دلخراش چالیسویں سالگرہ کےموقعہ پر میں ملک ظہور مہدی ساکنہ گنڈ خواجہ قاسم کشمیری نے اپنے جلیسانہ و ذمہ دارانہ فرائض کو اپنا منظور نظر بناکر از جواز آقاے سید محمد عقیل الموسوی قبلہ آپ قبلہ کے والد بزرگوار شہید آغا سید محمد حسین الموسوی ؒ کی چالیسویں سالگرہ کے موقعہ پرمختصر سوانح حیات کو منظر عام پر لانے کا شرف حاصل پایا۔
تالیف وترتیب : ملک ظہور مہدی کشمیری 9797-100057
المشتہر : حضرت مرزا ابولقاسم رحمتہ اللہ علیہ میموریل مشن
مرحوم و مغفور ،معتبر روحانی، سماجی ،سیاسی و قومی رہنما ، روشن ضمیر،محسن ملت شیعہ، مولف و مصنف ،مفکر و مدبر ، فصیح البیان ، گوہر افشاں خطیب اہلبیت رسول اکرمﷺ ،عاشقان دین حضرت احمد مجتبی محمد مصطفی ﷺ حجتہ الاسلام والمسلمین ،شہید آغا سید محمد حسین الموسوی طاب ثراہ سادات موسویہ اور سلسلہ حضرت قطب الاقطاب سید محمد شمس الدین عراقی(اراکی) رحمت اللہ علیہ کی اولاد سے ہیں۔ عالم باعمل حضرت حجت الاسلام والمسلمین ، الحاج آقاے سید محمد حسین الموسوی الصفوی النجفی طاب ثراہ 4 محرم سال 1361 ہجری مطابق 21 جنوری 1942 عیسوی کو حضرت شمس العارفین حجت الاسلام والمسلمین آقا سید احمد الموسوی کے عہد ریاست میں متولد ہوئے چنانچہ موصوف آپ ؒکے دادا تھے آپکی والدہ حضرت کہف الانام حجت الاسلام الحاج آقا سید یوسف الموسوی کی دختر نیک اختر تھیں۔ آپ ؒجبکہ صغیر السن تھے جناب سلمان التقی الحاج امان اللہ ہونزوی سے تلمذ کیا۔جب سال 1370 ہجری مطابق 1950 عیسوی میں جامعہ باب العلم کا افتتاح ہوا اس وقت آپ ؒکی عمر آٹھ سال کے قریب تھی ۔ اس وقت سے آپ ؒنے مولوی ، مولوی عالم اور مولوی فاضل کے مدارج طے کئے اور مزید اپنے نانا سے بھی کسب فیض کیا ۔جب آپؒ لائق و فائق نظر آنے لگے تو میں نے آپ ؒکو تابع منظوری صدر محترم مرحوم جامعہ باب العلم میں درس دینے کی اجازت دی ۔ اس کے بعد جب آپ ؒ کو آباء کرام کے نقش قدم پر گامزن ہونے کے لئے مزید تحصیل علم کا شوق دامن گیر ہوا تو آپ ؒنے عتبات عالیات جانے کی خواہش ظاہر کی ۔ اگر آپکے جانے میں رکاوٹیں کھڑی ہو گئیں لیکن میں نے(حکیم علی جلال الدین میثم قدس سرہ) آڑے آکر ان دشواریوں کو حل کرکے آپ کے والد ماجد حضرت حجت الاسلام والمسلمین الحاج آقا سید مصطفے الموسوی ؒکو انہیں اجازت عطا کرنے کے لئے عاجزانہ درخواست کی جو کہ منظور ہو گئی اور آپ تحصیل علم کے لئے نجف اشرف عراق کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہاں پر آپ ؒنے مقدمات علمیہ پر نظر ثانی کی اور سطح تمام کیا۔ اس ضمن میں آپ ؒ نے مشاہیر اور علماء اجلاء سے تلمذ کیا ۔ آپ ؒنے معقولات و منقولات میں کمال حاصل کیا اور حضرت آیت اللہ العظمی الحاج الامام السید محسن الحکیم ، حضرت آیت اللہ العظمی روح اللہ الموسوی الخمینیؒ، حضرت آیت اللہ الکبری الحاج سید ابوالقاسم الخوئیؒ اور آیت اللہ فی العالمین الحاج آقا سید باقر الصدر سے کسب فیض و کمال کیا اور آپ آیت اللہ شہید سید مصطفی خمینی رحمت اللہ علیہ کے خواص میں شامل ہو گئے۔ آپ ؒنے انقلاب اسلامی کو آگے بڑھانے میں کافی کام کیا اور خط و کتابت اور لٹریچر کے ذریعہ ہم کو بھی اسی زماننے سے آگاہ رکھا ۔ آپ ؒنے امام خمینی ؒکی تالیفات جیسے تحریر الوسیلہ اور حکومت اسلامیہ کے بے شمار نسخے روانہ کئے اور حلقہ خواص و دانشجویان میں ایک ولولہ پیدا کیا ۔ اس سے قبل جبکہ حضرت امام حکیم رحمت اللہ علیہ مرجع تقلید تھے ۔ آپ ؒکو ان کےعلمی و ادبی دربار میں خاص مقام حاصل تھا اس لئے آپ نے عراق کی بعثی حکومت اور اسرائيل و صہیونیوں کے خلاف کافی کام کیا اور عراق عرب میں چھ سال کا عرصہ صرف کرکے علماء و مراجع کرام سے اجازت طلب کرکے اپنے وطن کی طرف اپنے سفر کو مقرر کیا مگر یہاں پر آپ ؒ کو لوگوں کے روبرو آنے کے مواقع زیادہ میسر نہیں ہوئے اور آپ ؒ گوشہ عزلت میں پڑے رہے ۔ بالاخرہ جب آپؒ 1982ء میں حسن آباد(سرینگر) کشمیر میں امام جمعہ مقرر ہوئے تو لوگوں کو آپ ؒکی قدر و قیمت، میعار علم و حکمت اور گوہر افشانی معلو م ہوگئی اور رفتہ رفتہ آپ ؒکے گوہر افشاں بیان اور مواعظہ و خطبات کا چرچا زبان زدعام ہو گیا اور لوگ آپ ؒکے حلقہ بگوش ہوگئے۔ آپؒ اس دوران دوبار ملک ایران تشریف لے گئے اور آپ قبلہ نے عالمی ائمہ جمعہ کانفرنس میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا جو کہ تہران میں منعقدہ تھی اور آپؒ امام امت(حضرت آیتہ اللہ عظمیٰ حضرت امام خمینی ؒ) اور علماء و سران دولت کی ملاقات سے بہرہ مند ہوئے۔ آپ ؒ نے اوڈینہ اور سونہ پاہ میں نماز جمعہ قائم کرائی اور موضع شالنہ میں ایک دینی مدرسہ کے لئے ایک عالیشان عمارت تعمیر کرکے اس میں درس و تدریس کا انتظام انصرام کیا ۔ آپ قبلہ جامعہ باب العلم کو ایک عظیم الشان، نور درخشاں درسگاہ بنانے کے متمنی تھے چنانچہ آپ قبلہ نے جامعہ کے اساتذہ کی کافی زیادہ حوصلہ افزائی کی اور ان کی تنخواہوں میں معتید بہ اضافہ کیا ۔ آپ قبلہ اساتذہ کی قدر و منزلت سے آگاہ تھے اور آپ قبلہ نہایت جرائت مند قومی رہنما تھے۔ آپ قبلہ اخلاقیات میں معتبر تھے ۔ آپ ؒ نے لوگوں، مومین کو کافی انس دیا اور ان کے ساتھ ایسے اخلاق کا مظاہرہ کیا جو کہ تاریخی مثالی ہے ۔ آپ ؒ کے حلقہ احباب کافی وسیع اور آپ کا دسترخوان کرم عادت سے زیادہ مبسوط تھا۔ آپ ؒدوستوں اور اہل علم کی محفلوں کے زیب و زینت اور متاع تھے۔ آپؒ ایک عظیم میر کارواں اور قومی سالار تھے اور یہ آپ قبلہ کے ان ابتدائی چھوٹے چھوٹے قدموں کی انتہا تھی ،جن کی آپ صغیر سن ہی سے نشاندہی کرتے آئے تھے ۔ چنانچہ مثل مشہور ہے کہتے ہیںہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کیونکہ جب آپؒ ابھی صغیر السن ہی تھے، آپ کے مخایل سے شہامت اور سعادت ٹپکتی اور آپؒ کے بیان سے سیاست اور انقلاب کی بو مہکتی تھی ، اس کے علاوہ آپؒ کی قوت ادراک بھی عجیب تھی اور حافظہ بھی بلا کا ۔ تعلّم کے دوران جب آپ ؒشرائع الاسلام” کی بحث میراث پڑھتے تھے تو آپؒنے مجھے(حکیم علی جلال الدین میثم قدس سرہ) کودو تین بار ٹوکا کہ آپ نے تقسیم اور حساب غلط کیا۔ جب میں ان سے پوچھتا کیسے ؟تو آپ اپنی خدا داد ذہانت سے واضح کرتے اور میں چار و نا چار اعتراف کرتا تھا۔ اس لئے میں آپؒ کو درس دیتے وقت کافی چوکنا رہتا اور اس کے لئے خاص تیاری اور محنت کرتا تھا۔ کیا خوب کہا ہے حضرت علامہ سر محمد اقبال رحمت اللہ علیہ نے : محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند حکماء کا قول ہے کہ سانپ کا بچہ اپنی ماں سے زہر لیتا ہے ، میں بھی اپنے شاگردوں کو سیاست اور انقلاب کا زہر گھول گھول کر پلاتا تھا چنانچہ صدر مرحوم مجھ سے کہا کرتے تھے تمہارے شاگردوں نے میرا جینا دو بھر کردیا ہے تم ان کو درس دیتے ہو یا سیاست سکھاتے ہو۔ کی شود بی شیر مسکه کی شود بی پیر پیر انگریرزں کا قول ہے”Poets are born” شاعر ماں کے شکم ہی سے شاعر ہوتا ہے۔ سید جمال الدین افغانی جو کہ در اصل اسد آبادی ایرانی ہیں کی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ جب آپ کمسن تھے تو ان کا کھیل یہ ہوتا تھا کہ گھوڑے پر سوار ہو کر فرانس یا یورپ یا عالمی سفر کے ارادے سے بستی سے باہر تک جاتے تھے اور ان کے ہمجولی ان کو الوداع کرنے کے لئے ساتھ نکلتے تھے۔ اسی طرح جب عزیز القدر آقا سید محمد حسین رحمت اللہ علیہ فارغ التحصیل ہو گئے تو آپؒ دن رات ایک حیرت انگیز انقلاب کے خواب دیکھنے میں مگن رہتے تھے اور ہم کو ایسی دور کی باتیں بتاتے تھے کہ ہم حیران رہ جاتے ۔ کبھی جامعہ باب العلم کو یونیورسٹی بناتے تھے اور کبھی انجمن شرعی کو عالمی شیعہ کانگریس بناتے اور کبھی انگریزی ، اردو روزنامہ نکالنے کی فکر کا ماپ تول کرتے اور کبھی شیعوں کی دنیا سنوارنے کی ترکیبیں بتاتے اور ہم ششدر و حیران ہو کر آپ ؒکی عقل رسا اور بلند نگاہ کا مطالعہ کرتے رہ جاتے۔ آپؒ کی اس شعلہ نوائي اور نکتہ سنجی نے ہم سب کو آپ ؒکا والہ شیدا بنایا تھا اور مجھے ہر وقت انگریزی کا یہ شعر یا آتا تھا۔ Twinkle, twinkle, little star, How I wonder what you are. بالاخرہ انہوں نے ان گتھیوں کو سلجانا شروع کیا جن میں فرقوں سے الجھاو تھا۔ کیونکہ آج تک ہمارے راہبر سیاست کا نام لینے سے گھبراتے تھے مگر یہ کس کو معلوم تھا کہ انہی حضرات کے صلب سے وہ لوگ آئيں گے جو کہ سیاست ہی کا دودھ پی کر جوان ہوں گے۔ چنانچہ یہاں پر(حکیم علی جلال الدین میثم قدس سرہ) کا ایک واقعہ کاذکر کرنا لازمی ہے کہحکیم علی جلال الدین میثم قدس سرہ نے ایک دن آپ ؒ سے پوچھا ، مولانا کیاوجہ ہے کہ آپ ؒنے زندگی کے دو سال مجاہد منزل میں گزارے تو آپ ؒ نے کہا اس لئے کہ میں سیاسی داو پیچ سیکھنا چاہتا تھا میں نے کہا کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے تو آپ ؒنے کہا ایک دفعہ علامہ شیخ بہائی شاہ کے دربار میں تھے تو چند ساحروں نے شیخ کو ڈرانے کے لئے طوفان نوح کا منظر دکھایا اور سارا عالم آب اور باراں اور موج تلاطم میں تبدیل ہو گیا تو شیخ بہائی رحمت اللہ علیہ نے ان کا سحر توڑنے کے لئے دوسرا سحر بکار لایا اور نوح کی کشتی کا منظر پیش کیا اور بادشاہ اور رفقاء کو اس میں سوار ہونے کو کہا آپ علم ضلال اور باطل سےآگاہ تھے ، میں اسی لئے یہ جھوٹی سیاست سیکھنا چاہتا تھا تاکہ جب میں سیاست میں کودوں گا تو اس وقت ان کے یہ داو پیچ میرے قدموں کو متزلزل نہ کرسکیں ۔ چنانچہ بالاخر آپؒ نے جب سیاسی کردار اپنایا تو آپؒ نے سب سے اول وحدت کا نعرہ بلند کیا اور اس قوم کو جو صدیوں سے لڑتی آرہی تھی ایک جھنڈے کے نیچے جمع کیا اور قوم کے روشن مستقبل کی نشاندہی کی اور اس میدان میں اس طرح کودے کہ ایک دن جب آپؒ ؒاور حجتہ الاسلام والمسلمین مولانا افتخار حسین انصاری قبلہ سیاسی گفتگو میں محو تھے تو میں نے کہا کہ مجھے مولانا حسن عباس فطرت نے بتایا کہ میں نے ایک دن مولانا ذیشان حیدر سے کہا کہ آپ شیعوں میں نہایت زیرک ثابت ہوئے تو آپ نے کہا دوسرا ہے بھی کون۔ اس پر دونوں صاحبان نے مجھ سے پو چھا ، آپ کے کہنے کا کیا مطلب ہے ؟ میں نے کہا جب آپ دونوں محو گفتگو تھے میں یہ سوچتا تھا کہ انصاری صاحب زیادہ ہوشیار ہیں یا موسوی صاحب تو مولانا نےمیری بات کی داد دی اور کہاواقعی ایسا ہی ہے ۔ رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے غرض آپ ؒکسی مشکل سے کبھی نہیں گھبراتے نہیںتھے اور آپؒ کی صحت اور قوت بھی قابل رشک تھی اور آپ ؒکی عمر ابھی بیالیس سال کی تھی کہ باد اجل نےآپؒ جیسے شمع فروزاں کو یکا یک گل کردیا۔ آه این چگونه سیل که مارا زسرگذشت تنها زسرمگوی ز دیوار و در گذشت آپؒ اچانک مشکوک حالت میں بیمار ہوگئے….. جس کی وجہ سے آپؒ کو پہلے سرینگر کے بڑے ہسپتال میںعلاج و معالج کے غرض سے داخل کیا گیا اس کے بعد آپؒ کو آل انڈیا میڈیکل انسٹچوٹ کی طرف علاج و معالج کے غرض سےمنتقل کیا گیا مگر افسوس صد افسوس آپ ؒکافی علاج معالجہ کے باجود کے باوجود جانبہ نہ ہو سکے اور مورخہ 13جمادی الاول سال 1404 ہجری بمطابق 17فروری سال 1984 عیسوی شب جمعہ المبارک بوقت شام 9 بجے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور سفر آخرت کی طرف اللہ کی مرضی کے مطابق اپنے روح کو پرواز کرنے کا موقع عطا کیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون آپ ؒکی خبر شہادت سے تمام شیعہ قوم ہل گئی اور بڈگام میں لاکھوں زن و مرد چشم پرنم و ماتم کناں جمع ہو گئے اور ایسا جگر سوز ماتم بر پا ہو گیا جو کہ سابق مثالی وفاتوں سے یکسر تھا اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہی تھااور لوگ آپ کی دائمی جدائی میں برابر اشکبار اور نالہ و شیون میں مشغول ہی تھے اور آپ کے خانہ آباد اور مزار پر ماتم ہی ہورہا تھا کہ گذشتہ ماہ ذی الحجہ1404 ہجری کو دوسرا عظیم سانحہ رونما ہوا کہ آپؒ کا فرزند ارجمند سید صفی الدین جسکی عمر اٹھارہ سال کی تھی داعی اجل کو لبیک کہہ گیا اورحضرت صدر محترم پر غم و الم کا دوسرا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔اناللہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم کے پس ماندگان میں دو فرزند اور چار لڑکیاں اور ایک ستم دیدہ اور غم زدہ باپ اور چند ایک بھائی اور بہنیں رہ گئيں اور یہ قوم کی انتہائی بدنصیبی تھی کہ اس قوم کا عظیم مذہبی اور سیاسی و سماجی حریت پسند ،انقلابی رہنما ہمارے درمیاں نہ رہااور ہم کف افسوس ملتے رہے ۔ دعا ہے حق تعالی آپؒ کو چہاردہ معصومین پاک ؑ کی شفاعت نصیب فرمائیں۔