108

شہادتِ امام حسین علیہ السلام کا عملی پیغام

شہادتِ امام حسین علیہ السلام کا عملی پیغام

عاشق حسین یتو
سلطان پورہ پٹن بارہمولہ کشمیر۔
بنی امیہ اپنے ظاہری اسلام کے ذریعہ لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے۔ واقعہ کربلا نے ان کے چہرے پر پڑی اسلامی نقاب کوالٹ دیا، تاکہ لوگ ان کے اصلی چہرے کو پہچان سکے۔ ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ نے انسانوں و مسلمانوں کو یہ درس بھی دیا کہ انسان کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے اور دین کامکھوٹا پہنے فریبکار لوگوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔
شہادت امام حسین علیہ السلام کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے۔ محبت حسین علیہ السلام، تعلق حسین علیہ السلام اور نسبت حسین علیہ السلام کو رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے عمل، حال اور حقیقت میں بدل دیا جائے، اسے حقیقی زندگی کے طور پر اپنایا جائے یہی نسبت اور تعلق ہمارا اوڑھنا بچھونا ہو۔ اس نسبت اور تعلق کو حقیقی زندگی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ پہچان لیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے؟ یزید نے اسلام کا کھلا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی۔ مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں۔ وہ اسلام کا نام لیتا تھا، بیعت بھی اسلام پر لیتا تھا، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز پڑھتا ہوں، اسلام کا کھلا انکار تو ابولہبی ہے، یزیدیت یہ ہے کہ اسلام کا نام بھی لیا جائے اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے، اسلام کا نام لیا جائے اور امانت میں خیانت بھی کی جائے، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت مسلط کی جائے، اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے اور اسلام کے مقدس نام کو پامال کیا جائے۔ یزیدیت، اسلام سے منافقت اور دجل و فریب کا نام ہے۔ اسلامی نظام کے ساتھ دھوکہ کرنے، امانتوں میں خیانت کرنے، بیت المال میں خیانت کرنے اور قومی ذرائع اور دولت کو اپنے تعیشات پر خرچ کرنے کا نام یزیدیت ہے۔ روح حسین علیہ السلام آج ہم سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ میری محبت کا دم بھرنے والو! میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہی ہے یا میری محبت میں آج تم پھر کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں آج تم پھر وقت کے یزیدوں کو للکارتے ہو یا نہیں۔ روح حسین علیہ السلام آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے، آج پھر ایک نیا معرکہ کربلا برپا ہوتا دیکھنا چاہتی ہے اور تمہارے صبرو استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے۔ روح حسین علیہ السلامدیکھنا چاہتی ہے کہ کون اسلام کا جھنڈا سر بلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے۔ شہادت امام حسین علیہ السلامکا سبق یہ ہے کہ دیکھو! کیا تمہارے دور کے حکمران اسلام کا نام لینے میں مخلص ہیں؟ کیا وہ اسلامی نظام کو نافذ کرنے اور بپا کرنے میں مخلص ہیں؟ کہیں وہ اسلام کی امانت میں خیانت تو نہیں کررہے یا اسلامی نظام کے نفاذ میں دھوکہ تو نہیں کررہے؟ اگر وہ اسلام کا نام بھی لیتے ہیں اور منافقت اور دجل و فریب بھی کرتے ہیں توجان لو کہ ان کا کردار یزیدیت کا کردار ہے۔ حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے، حسینی لشکر کے غلام بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو۔ اس کے لئے خواہ تمہیں اپنا مال، اپنی جان اور اپنی اولادیں ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑیں۔سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب ہے، یزید کی نامزدگی اسلام کی نظام شورائیت کی نفی تھی، لٰہذا امام حسین نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی ، حریت فکر اور خداکی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی ۔

امام حسین کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لیے تاریخ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں