0

شام سے سب سے آخر میں انخلاء کرنے والے سپاہ پاسداران انقلاب کے اہلکار تھے، جنرل سلامی

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے کاہ ہے کہ صہیونیزم کے ساتھ مقابلہ کرنے میں عرب ممالک میں سے شام کا کردار درخشان تھا۔ شام واحد ملک تھا جس نے امریکہ اور اسرائیل کے سامنے ہمیشہ مقاومت کی۔

سپاہ پاسداران انقلاب کے اعلی کمانڈروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل حسین سلامی نے کہا کہ مغرب اور اس کے اتحادیوں کے ایران کے ساتھ بنیادی تنازعات تین اہم مسائل پر مرکوز ہیں؛ ایران کے معنوی اثر و رسوخ کا خاتمہ، ایران کی دفاعی طاقت کو محدود کرنا اور ایران کی جوہری ٹیکنالوجی اور صلاحیتوں کو تباہ کرنا۔

انہوں نے کہا کہ مغربی طاقتیں ایران کے معنوی اثر و رسوخ کو ختم کرنے میں عمومی ذرائع سے ناکام ہوئیں، اس لیے انہوں نے اسلامی انقلاب جیسا ہی ایک متبادل ماڈل بنانے کی کوشش کی۔ تکفیری عناصر حقیقت میں مغربی طاقتوں کی جانب سے ایران کے معنوی اثر و رسوخ کو روکنے کا ماڈل تھے۔ تقریبا 300,000 تکفیری عناصر کو دنیا بھر سے اکٹھا کرکے عراق اور شام میں داخل کیا گیا۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ انہوں نے حجر بن عدی، صفین کے شہدا اور سامرا میں مختلف مقامات پر حملے کیے۔ تکفیریوں نے ہر اس مقام پر جو مسلمانوں کی دینی شناخت کی علامت تھا، ان پر حملے کیے۔

میجر جنرل سلامی نے کہا کہ تکفیری عناصر کے خطرے سے نمٹنا ایران کی جانب سے انسانیت کے لیے ایک عظیم خدمت تھی۔ اگر اس وقت مناسب اقدامات نہ کیے جاتے تو یہ شرپسند عناصر اپنے حملوں کے تسلسل سے تمام اسلامی ممالک پر قبضہ کر لیتے۔ ان حالات میں ہمیں عراق اور شام میں براہ راست فوجی مداخلت اور مشاورتی کردار ادا کرنا پڑا۔ اگر شہید قاسم سلیمانی نہ ہوتے تو ہماری ساری محنتیں رائیگاں جاتیں۔

انہوں نے کہا ہم نے پچھلے 13 سال کے دوران کوشش کی کہ حزب اللہ لبنان اور فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختار بنایا جائے۔ یہ ہمیشہ ہماری مسلم پالیسی رہی ہے کہ مقاومتی تحریکوں کو آزاد اور خودمختار بنایا جائے۔ کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ اسرائیل ہم پر حملہ کرتا ہے اور ہم جواب نہیں دیتے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہم نے گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران صیہونیوں کے کسی بھی حملے کو کسی بھی پیمانے پر بغیر جواب کے نہیں چھوڑا۔

انہوں نے کہا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شامی فوج کے بجائے ہمیں تکفیریوں سے جنگ کرنی چاہئے تھی۔ یہ معقول نہیں ہے کہ کسی ملک کی فوج اسلحہ ڈال دے اور اس کی جگہ ہم اپنی فوج کو دہشت گردوں کے ساتھ میدان میں جھونک دیں۔ شام کی مدد کے تمام راستے بند تھے اس کے باوجود دن رات مدد کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہمیں فخر ہے کہ سپاہ کے اراکین نے سب سے آخر میں شام ترک کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں