2013279 84

سیرتِ حضرت زینب (س) انسانیت کا درمان

سیرتِ حضرت زینب (س) انسانیت کا درمان

تحریر: مولانا حسن رضا قمی

تاریخ کے صفحات میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا ان ہستیوں میں سے ہیں کہ جنہوں نے سورج کی مانند طلوع کیا اور اس کی روشنی نے مکمل انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ خداوند متعال کا خاص لطف و کرم ہے کہ جس نے انسانیت کی ہدایت کے لئے ان پاکیزہ ہستیوں کو ذریعہ قرار دیا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کے لئے بھی اسوہ کی حیثیت رکھتی ہیں کہ جن کے نقش قدم پر چل کر انسانیت کو راہ نجات مل سکتی ہے۔

تاریخ کے صفحات میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا ان ہستیوں میں سے ہیں کہ جنہوں نے سورج کی مانند طلوع کیا اور اس کی روشنی نے مکمل انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ خداوند متعال کا خاص لطف و کرم ہے کہ جس نے انسانیت کی ہدایت کے لئے ان پاکیزہ ہستیوں کو ذریعہ قرار دیا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کے لئے بھی اسوہ کی حیثیت رکھتی ہیں کہ جن کے نقش قدم پر چل کر انسانیت کو راہ نجات مل سکتی ہے۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نسب، علم، عبادت، عفت، شجاعت، صداقت و صبر میں اپنی ثانی نہیں رکھتی۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ایک نمایاں خصوصیت ظالم اور اس کے ظلم کے سامنے ڈٹ جانا ہے۔ آج کی اس دنیا میں جہاں ہر طرف ظلم و ستم نظر آرہا ہے اس اسوہ کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ جس کے سامنے اس کے خاندان کے افراد کو بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا اور ظلم اس قدر بڑھ گیا کہ جسے دیکھ کر خود ظالم بھی خوف محسوس کرنے لگا لیکن اسی وقت اس ہستی کے منہ سے یہ جملہ صادر ہوا” ما رایت الا جمیلا”۔ آج اگرچہ غزہ میں اس قدر ظلم ڈھانے کے بعد ظالم خود کو طاقتور اور کامیاب سمجھ رہا ہے اور یہ سوچ رہا ہے کہ اب کسی کو سر اٹھانے کو جرات نہیں ہوگی لیکن یہ اس کا خام خیال ہے چونکہ ظلم ہمیشہ خود ظالم کی ہی کمر توڑ دیتا ہے۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ایک اور نمایاں خصوصیت مصائب پر صبر کرنا ہے۔ قرآن مجید میں صابرین کے لئے متعدد مقامات پر مختلف الفاظ کے ساتھ مدح کی گئی ہے اور ایک مقام پر فرمایا ان اللّٰه مع الصابرین یعنی خداوند صبر کرنے والوں کے ہمراہ ہوتا ہے۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا نے واقعہ کربلا میں اپنے عزیز ترین افراد کو اپنے سامنے شہید ہوتے دیکھا خصوصا اپنے بھائی کہ جس کے متعلق فرماتی ہیں کہ میں اپنے بھائی حسین علیہ السلام کے بغیر نہیں رہ سکتی لیکن خداوند متعال کی خوشنودی کی خاطر ان تمام قربانیوں کے سامنے صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا کہ جس کے متعلق ان کے زیارت نامہ میں آیا ہے لقد عجبت من صبرک ملائکۃ السماء کہ جس کے صبر کو دیکھ کر ملائکہ آسمان بھی حیرت میں مبتلا ہیں۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کہ جو واقعہ کربلا سے پہلے ایک اچھی اور مطمئن زندگی گزار رہی تھیں لیکن ان کی تربیت نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ وہ اسی طرح مطمئن زندگی گزارتی رہیں اور ظالم اپنا ظلم انجام دیتا رہے بلکہ انہوں نے اپنی مرضی سے اس زندگی کو چھوڑ کر اپنے بھائی کے ساتھ کربلا جانے کو ترجیح دیا۔ پس آج کی نسل بشریت کو اس اسوہ کے نقش پا پر چلنے کی اشد ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں