0

سردار اسماعیل قاآنی کے بارے میں دلچسپ تبصرے؛ خبریں حقیقت یا افسانہ؟

مزاحمتی محاذ کے اعلٰی رہنماؤں اور کمانڈروں کے بارے میں غاصب صیہونی ذرائعِ ابلاغ اور اس کے آلہ کار اور مزدور میڈیا کی جھوٹی خبروں اور افواہوں سے پردہ اٹھ گیا ہے۔

غاصب صیہونیوں کی جنگی میدان میں مسلسل ناکامی اور شکست، یعنی آپریشن وعدہ صادق 2 اور جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج کے زمینی حملے میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد صیہونی حکومت نے نفسیاتی حربے یا میڈیا وار کے ذریعے مزاحمتی محاذ کے خلاف جھوٹی اور بے بنیاد خبریں گھڑنے کی پوری کوشش کی ہے، تاکہ مذکورہ محاذ پر ہونے والی رسوا کن شکست کو چھپا سکے اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال سکے۔

اسلامی جمہوریہ ایران اور مزاحمتی محاذ کے خلاف صیہونی حکومت کے گمراہ کن پروپیگنڈے کا واضح ترین نمونہ سپاہ پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل اسماعیل قاآنی کے بارے میں افواہیں اور جھوٹی خبریں ہیں۔

صیہونیوں نے بعض عالمی اور علاقائی ذرائع ابلاغ کی مدد سے گزشتہ ہفتے کے دوران جنرل قاآنی کے بارے میں متعدد جھوٹی خبریں شائع کیں:

سب سے پہلے 3 اکتوبر کو بیروت کے نواحی علاقے ضاحیہ پر بم حملے میں سید ہاشم صفی الدین کے ساتھ جنرل قاآنی کی شہادت کا دعویٰ کیا گیا، جس پر ان کی دال نہ گلی تو دوسری افواہ یہ پھیلائی کہ جنرل قاآنی شدید زخمی ہیں، پھر اس کے فوراً بعد ہی انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ پکڑے گئے ہیں اور اب ایک نہایت مضحکہ خیز خبر میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ جنرل قاآنی کو ممکنہ جاسوسی کے جرم میں تہران میں گرفتار کیا گیا ہے!!!!

یاد رہے کہ صیہونیوں کے جھوٹ اور نفسیاتی حربے کا مقصد، لبنان کے جنوبی محاذ پر مزاحمتی محاذ کی میدانی فتوحات پر پردہ ڈالنا اور اپنی مایوسی کو کم کرنا ہے۔

جنرل قاآنی کے بارے میں دشمن کے پروپیگنڈوں کی وجہ سے عوام کی قابلِ ذکر تعداد متاثر ہوئی، تاہم ان کو کچھ دیر سوچنا چاہیے کہ بیروت میں جنرل قاآنی کی شہادت کی خبروں کو ایک ہفتہ گزرنے سے پہلے ہی صیہونی حکومت کے آلہ کار ذرائع ابلاغ نے اپنی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سپاہ پاسدارانِ انقلاب نے جنرل قاآنی کو ممکنہ جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

مزاحمتی محاذ کے حامیوں کو اس خبر پر بھی غور کرنا چاہیے؛

نام نہاد صحافیوں کی خبروں میں اتنا تضاد تھا کہ جس صحافی نے بیروت میں صیہونی حملے میں جنرل قاآنی کی شہادت کی خبر دی تھی، اسی نے یہ خبر دی کہ جنرل قاآنی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ہمراہ اگلے دن بیروت میں تھے۔

جب سپاہ پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ کے مشیر نے رہبرِ انقلابِ اسلامی امام خامنہ ای مدظلہ کی جانب سے جنرل قاآنی کو نشان فتح دینے کا اعلان کیا تو غاصب صیہونی حکومت کے آلہ کار اور مزدور مزید خبریں تراشنے لگے کہ جنرل قاآنی کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ایک مغربی ویب سائٹ نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ تفتیش کے دوران جنرل قاآنی کو دل کا دورہ پڑا ہے۔

سوشل میڈیا صارفین کا ردّعمل اور معنی خیز تبصرے

جنرل قاآنی کی بیروت میں مبینہ شہادت، سپاہ پاسداران کے ہاتھوں مبینہ گرفتاری اور دل کے مبینہ دورے کی من گھڑت خبریں دینے کے بعد صیہونی حکومت کے حامی ذرائع ابلاغ سرگرداں ہیں، ان متضاد خبروں کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں اسرائیل کے حامی میڈیا کا خوب مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔

ایک صارف نے لکھا ہے کہ جنرل قاآنی چند روز پہلے لبنان میں صیہونی فوج کے حملے میں شہید ہو گئے تھے، دو دن بعد اچانک زخمی ہو گئے اور آج سپاہ پاسدارانِ انقلاب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد زیر تفتیش ہیں!!!

ایک اور صارف نے لکھا ہے کہ 6 دن پہلے جنرل قاآنی کو بیروت بم دھماکے میں قتل کر دیا گیا تھا!” جب کہ تین دن پہلے قاآنی جاسوس تھا اور اسرائیل میں ہے! آج خبر آئی ہے کہ قاآنی کو گرفتار کیا گیا اور دورانِ تفتیش ان پر فالج کا حملہ ہوا!

واضع رہے کہ یہ بے سرو پا خبریں درحقیقت دشمنوں کی مایوسی کی علامت ہیں۔

ایک صارف نے ان خبروں کو جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان دنوں صرف جنرل قاآنی کے لیے ہی نہیں، بلکہ ہمیں ایران کے اعلیٰ عہدے داروں کے بارے میں ہر قسم کی غیر متوقع خبروں کا انتظار ہے!” کیونکہ ہائبرڈ جنگ میں، وہ (دشمن) پہلے ہدف کے بارے میں افواہیں پھیلا کر لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کرتے ہیں اور پھر اگلے مرحلے میں اسے ہٹانا ان کے لئے کم خرچ ہوگا۔

ایرانی کمانڈروں کی شہادت کی افواہیں اور نفسیاتی جنگ

تقریباً دس دن پہلے بیروت میں غاصب صیہونی فورسز کے بہیمانہ حملے میں جنرل قاآنی کی شہادت کی افواہیں گردش کرنے لگیں تو ایران میں خاموشی کی فضاء چھا گئی تھی، کہیں سے بھی اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا گیا؛ متعلقہ حکام کی یہ خاموشی، پالیسی کا حصہ تھا، دشمن روایتی ہتھیاروں کی مدد سے جنگ ہارنے لگے تو نفسیاتی حربوں پر اتر آئے۔

ان مواقع پر جذبات پر کنٹرول کرتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھنے سے ہی دشمن کے عزائم ناکام ہوتے ہیں۔

سمنان کے امام جمعہ اور نمائندہ ولی فقیہ حجت الاسلام مرتضٰی مطیعی نے اس حوالے سے کہا کہ وعدہ صادق 2 آپریشن کی شاندار کامیابی کے بعد دشمن نفسیاتی جنگ پر اتر آئے ہیں۔

ایرانی کمانڈروں کی شہادت کی افواہیں اسی نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں۔ غاصب صیہونی عناصر عوام کے دلوں میں رعب اور وحشت ایجاد کرکے ان کی صفوں میں دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں، لہٰذا عوام کو ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ پر ایک سال کی جارحیت کے مقابلے میں فلسطینی عوام اور مزاحمت کی بہادری کے بعد غاصب صیہونی حکومت کو اپنا وجود خطرے میں نظر آرہا ہے۔ طوفان الاقصٰی اور وعدہ صادق آپریشن نے غاصب صیہونی حکومت کے کھوکھلے دعوؤں کی قلعئی کھول دی ہے اور دنیا پر واضح ہو گیا ہے کہ غاصب اسرائیل کی بنیادیں بہت کمزور ہیں۔

کمانڈروں کے قتل کی افواہیں جنگی حربوں کا تاریخی حصہ

مغربی ایشیاء کے امور کے ماہر سید رضا صدر الحسینی نے غاصب صیہونی حکومت کے حامی میڈیا کی جانب سے مزاحمتی محاذ کے کمانڈروں کے بارے میں افواہوں کے حوالے سے کہا ہے کہ دشمن کی جانب سے اعلٰی کمانڈروں کے زخمی یا قتل ہونے کی افواہ پھیلانا قدیم زمانے سے جنگی حربوں کا حصہ رہا ہے۔

جب کسی اہم کمانڈر کا قتل ہوتا ہے تو میدان جنگ میں موجود سپاہیوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ لبنان پر غاصب صیہونی حملوں کے دوران اسرائیلی اور امریکی حکام نے حملے کے فوراً بعد مزاحمتی رہنماؤں اور اعلیٰ کمانڈروں کے حوالے سے خبریں پھیلائیں، حالانکہ حملے کے مقام پر مذکورہ رہنماؤں کی موجودگی کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔

ان خبروں کے بعد مزاحمت کے حامی مزاحمتی کمانڈروں اور رہنماؤں کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں اور مختلف ذرائع سے خبریں لیتے ہیں اس طرح دشمن کو اپنے ہدف کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ دشمن کے جاسوس ایسے موقع پر نہایت مستعد ہوتے ہیں، اس کی واضح مثال: حزب اللہ لبنان کے اعلٰی رہنما سید ہاشم صفی الدین کی مبینہ شہادت کی خبر ہے۔

ان کی شہادت یا زخمی ہونے کی افواہ سن کر کچھ لوگ، جن میں ان کے قریبی افراد بھی ہو سکتے ہیں؛ ان کی صحت کے بارے رابطہ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے بارے میں اہم خبریں ملتی ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ جنرل قاآنی کے بارے میں بھی ایسی ہی صورتحال درپیش ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ 72 گھنٹوں سے مختلف قسم کی افواہیں زیر گردش ہیں، لہٰذا ہمیں مزاحمتی کمانڈروں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں