سال نو ٢٠٢٤ اور ہم
تحریر: محمد عمران نیپالی
متعلم: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہو گیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ہمیں عبادات، معاملات، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کر کے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؟
زندگی اللّٰه رب العالمین کا عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک ارجمند نعمت اور نادر امانت ہے، اس کا درست استعمال انسان کے لیے دنیوی و اخروی کامیابی وسرفرازی کا ذریعہ ہے، اور اس کا نامناسب (غلط استعمال) انسان کو ہلاکت و بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے، ہر سال کی طرح یہ سال (٢٠٢٣) بھی ہم سے رخصت ہورہا ہے، در حقیقت سال نو میں کچھ بھی نیا پن نہیں بلکہ سب کچھ گزرے سال کے طرح ہی ہے، شمش و قمر، لیل و نہار، زمین و آسمان سب کچھ وہی ہے اور گزرے وقت کی یادیں بھی ویسے ہی ہمارے ساتھ ہیں، سال کے آغاز کے موقع پر اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد غیروں کے طور طریقے اپنا کر انکے ساتھ خوب خوشیاں مناتے ہیں، وقت عزیز کا ناجائز و نامناسب استعمال کرتے ہیں، زندگی کے حسین لمحات کو لہو و لعب میں صرف کرتے ہیں، اسی موقع پر ایسے ایسے اعمال کرگزرتے ہیں جو انسانی معاشرے کے لیے مفید نہیں بلکہ حد درجہ مضر ثابت ہوتے ہیں، مثلاً آغازِ سال کے موقع پر ہمارے نوجوان تو نوجوان بوڑھے حضرات بھی نعوذ بالله خوشی مناتے ہوئے بڑی تعداد میں پٹاخے پھوڑتے اور آتش بازیاں کرتے نظر آتے ہیں، حتی کہ ناچ گانوں کی محفلوں میں بھی پیش پیش نظر آتے ہیں، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم آغازِ سال کے موقع پر کم از کم تھوڑا ہی وقت نکال کر اپنا محاسبہ کرتے کہ ہم نے اس سال کیا کھویا اور کیا پایا، ہمیں اس گزرے سال میں کیا کرنا چاہیے تھا اور کن چیزوں کا نہ کرنا ہمارے لیے بہتر تھا، ہم نے کن لوگوں کا بیجا دل دکھایا، اور کس قدر ہم سے گناہ سرزد ہوئے، ہم امر باالمعروف اور نہی عن المنکر پر کتنے فیصد عمل پیرا ہوئے، اور ہم کس قدر اعمالِ صالحہ اور اعمالِ سیئہ کیے، کیونکہ وقت عزیز کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی مانند ہے، جس سے اگر فائدہ حاصل کی جائے تو ٹھیک، ورنہ بہر حال برف تو پگھل ہی جاتی ہے، سالِ نو کا آغاز ہمیں اس بات کا پیغام دے رہا ہے اِس سے بڑھ کر میں یہ کہتا ہوں کہ ہمیں متنبہ کررہا ہے کہ ہماری عمرِ عزیز میں سے ایک سال اور کم کردیا گیا، اور ہم اپنی زندگی کے اختتام کے مزید قریب ہوگئے،
نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہو گیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ہمیں عبادات، معاملات، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کر کے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؟ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے، لیکن خود کی نظروں سے نہیں چھپا سکتا اور نہ ہی اس سے بچ سکتا ہے، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا “۔ ( ترندی ۴/ ۲۴۷ ابواب الزہد، بیروت ) ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔
اس لیے ہم سب کو ایمانداری سے اپنا اپنا مؤاخذہ اور محاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے؟ اسی کو اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں فرمایا: “وَأَنْفِقُوا مِنْ مَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِي أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلا أَخَرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ، وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ۔ ( سورہ منافقون: ۱۱،۱۰) ترجمہ: اور جو کچھ ہم نے تمھیں دے رکھا ہے، اس میں سے ( ہماری راہ میں ) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وہ کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے آپ تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتے کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہو جاؤں، لیکن جب کسی کا وقت مقررہ آجاتا ہے تو پھر اسے اللہ تعالی ہرگز مہلت نہیں دیتا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بخوبی واقف ہے۔
لہٰذا سال نو کا یہ پیغام سننے کے بعد ہماری فکر بڑھ جانی چاہیے، اور ہمیں بہت ہی زیادہ غور و خوض اور سنجیدگی کے ساتھ دی گئی زندگی اور وقت عزیز کا خوب خوب محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہمارے اندر کیا کمی، کمزوری، اور کون کون سی بری عادتیں اور منکرات پائی جارہی ہیں، اسے اپنی زندگی سے ہمیشہ ہمیش کے لیے ختم کردینے کا عزم مصمم کرنی چاہیے، ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں، بلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحاتِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم وارادے کا موقع ہے، اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے، اخیر میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو غیروں کی مشابہت سے بچائے اور آقائے نامدارمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے، آمین ثم آمین!!!
والسلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاته،