رہبر انقلاب اسلامی : دفاع مقدس نے استقامت کی سرحدیں وسیع تر کردیں
ایران// رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ دفاع مقدس تاریخ انقلاب کا ایک اہم اور ممتاز دور ہے فرمایا ہے کہ دفاع مقدس نے استقامت کی سرحدوں کو وسیع تر کردیا ۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ کی صبح شہداء کے اہل خانہ، فنکاروں، مصنفین، امدادی کارکنوں، سابق فوجیوں ، دفاع مقدس کے سرگرم کارکنوں اور را ویان دفاع مقدس سے ملاقات میں مقدس دفاع کو اسلامی انقلاب کی تاریخ کا ایک شاندار اور اہم باب قرار دیا۔
آپ نے دفاع مقدس کی عظمتوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سخت جنگ میں ایرانی قوم کی استقامت، ملک کی ارضی سالمیت کے تحفظ ، ایرانی قوم کی توانائیوں کے ابھر کر سامنے اور غیر جغرافیائی سرحدوں کے وسیع تر ہونے کے ساتھ ہی ملک کے اندر اور پوری دنیا میں استقامت کی جڑوں کے مضبوط ہونے پر منتج ہوئی ۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ مقدس دفاع نے ہماری سرحدوں کو وسعت عطا کی ہے فرمایا کہ اس کا مقصد جغرافیائی سرحدیں نہیں ہیں بلکہ اس نے مزاحمت کی سرحدوں سمیت ہماری فکری اور معرفت کی سرحدوں کو وسعت دی ہے اور آج استقامت فلسطین، شام، عراق نیز دیگر علاقوں میں جڑ پکڑ چکی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ دشمن عوام کی قربانیوں کی بدولت رونما ہونے والے منفرد، عظیم اور اہم انقلاب کی سرکوبی اور ایران کی ارضی سالمیت کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دفاع مقدس ایران کی تاریخ کا ایک شاندار اور اہم باب ہے اور ہمیں اس کے صیح اداراک اور اسے آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے-
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر ہماری آنے والی نسلیں دفاع مقدس کے اہم اور بامعنی پہلوؤں کو جان لیں اور یہ بھی جان لیں کہ ایرانی قوم نےکس طرح سے اس چوٹی کو سر کیا ہے اور وہاں وہ پوری قوت اور افتخار کے ساتھ کھڑی ہے تو اس شناخت میں عظیم درس ہیں کہ جس کی روشنی میں عظیم کارنامے انجام دیئے جا سکتے ہيں-
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مقدس دفاع نے استقامت کو دنیا میں متعارف کرایا، اور اس کو استحکام بخشا ہے فرمایا کہ ایران کا خطے کے ممالک میں کوئی فوجی اڈہ نہیں ہے، البتہ معنوی طور پر وہ ضرور موجود ہے اور اسی معنوی اور فکری موجودگی نے امریکہ اور کچھ ملکوں کو وحشت زدہ کردیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ دشمن کا مسئلہ اب بھی اسلامی جمہوریہ ہے فرمایا کہ دفاع مقدس کے دوران دشمن کا اصل اور اہم ہدف علاقائی سالمیت نہیں تھی بلکہ دشمن ایرانی عوام کے لائے ہوئے اس منفرد انقلاب کی سرکوبی چاہتا تھا –
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ دفاع مقدس کے دوران پوری دنیا ایران کے خلاف جنگ میں اتر گئی تھی ، فرمایا کہ اس وقت کی تمام بڑی طاقتیں بشمول امریکہ، یورپی ممالک اور مشرقی بلاک، ہر ایک نے اسلامی انقلاب کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی۔
آپ نے فرمایا کہ ایرانی قوم اس غیر مساوی جنگ میں فتح سے ہمکنار ہوئی اور اس نے اپنی عظمت وشکوہ دنیا کو دکھا دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں ایران کی کامیابی نے بہت حدتک بعد کی ممکنہ جارحیتوں کا سدباب کردیا ۔
آپ نے فرمایا کہ دشمن نے بارہا یہ اعلان کیا کہ جنگ کا آپشن میز پر ہے لیکن وہ میز سے نہ اٹھ سکا کیونکہ اس نے آٹھ سالہ جنگ میں ایرانی قوم کو پہچان لیا تھا اور جان گیا تھا کہ وہ جنگ شروع تو کرسکتا ہے لیکن پھر اس کو ایرانی عوام ختم کریں گے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ملت ایران کے کارناموں کا اثر دور دراز کے ممالک پر بھی پڑا ہے فرمایا کہ ایرانی قوم کے کارنامے مشرقی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے خطے میں آئيڈیل بن گئے ہیں۔