رزقِ حلال کی اہمیت
توصیف احمد وانی
ڈائریکٹر سید حسن منطقی اکیڈمی اونتی پورہ پلوامہ کشمیر انڈیا
دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے ہر شخص کو معاشی جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور اس کے لیے ہر انسان ایک پیشہ اختیار کرتا ہے۔ پیشے کے انتخاب میں سمجھ بوجھ سے کام لینا انتہائی ضروری ہے‘ کیونکہ اگر ایسا پیشہ اختیار کر لیا جائے جس کے ذریعے حرام یا مشکوک روزی ملتی ہو تو اس سے بڑا خسارے کا سودااور کوئی نہیں۔ آدمی جو کماتا ہے اس سے اپنے اور اپنے خاندان کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کی چیزیں فراہم کرتا ہے۔ جس طرح ہر چیز کی اپنی مخصوص تاثیر ہوتی ہے اسی طرح حلال روزی سے جو شخصیت نشوونما پاتی ہے ‘اس کے لیے نیکی اور بھلائی کے کام کرنے آسان ہو جاتے ہیں‘ جبکہ حرام خورشخص کا جھکائو برے کاموں کی طرف رہتا ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کا دل آمادہ نہیں ہوتا‘ یا نیکی کے کام اسے آسان ہونے کے باوجود مشکل نظرآتے ہیں۔ بقول غالب : ؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی!
ایک صاحب متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے ‘ان کی اولاد نیک ‘پارسا اور خوش اطوار تھی۔ لوگ ان سے پوچھتے تھے : کیا وجہ ہے کہ آپ کے تمام بچے نماز روزے کے پابند‘ تعلیم میں سب سے آگے اور اخلاق و عادات میں قابل تعریف ہیں؟ ان صاحب کا جواب یہ ہوتا تھا کہ اس میں میری کوئی خاص جدوجہد نہیں ‘بس اتنا ضرور ہے کہ میں رزق ِحلال پر اکتفا کرتا ہوں اور بچوں کو جائز اور حلال آمدنی سے کھلاتا پلاتا‘ لباس پہناتا اور دوسری ضروریات پوری کرتا ہوں۔ سچ ہے کہ جیسے پانی پیاس کو مٹاتا اور کھانا بھوک کو ختم کرتا ہے —– پانی اور کھانے کی یہ تاثیر مسلم ّہے اور ہر شخص کے تجربے اور مشاہدے میں ہے —– اسی طرح رزق ِحلال کی تاثیر سے نیکیاں جنم لیں تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔
جو لوگ حصول ِرزق کی جدوجہدمیں احتیاط سے کام نہیں لیتے انہیں انجام کار برے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بات اتنی سچی ہے کہ جتنی آگ کی تپش یا برف کی ٹھنڈک۔ آج معاشرے میں جرائم کی کثرت اور گناہ کے کاموں کی جو بہتات نظر آتی ہے اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ مالی بدعنوانیاں(corruption)ہے ۔ ایسے لوگ خال خال نظر آتے ہیںجو معاشی جدوجہد میں دیانت‘ صداقت اور امانت کے حامل ہیں‘ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کو اطمینانِ قلب اور ذہنی آسودگی حاصل ہے۔ ان کا ضمیر مطمئن اور باطن پاکیزہ ہے۔ وہ tension کی بیماری سے ناآشنا ہیں۔ مگر اکثریت کا حال یہ ہے کہ انہیں بس روزی چاہیے اور فراواں چاہیے‘ اس سے انہیں کوئی غرض نہیں کہ وہ جائز ذریعے سے آ رہی ہے یا ناجائز ذریعے سے ۔ اس زمانے کی خبر رسول اللہﷺ نے بایں الفاظ دی ہے :
((یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یُبَالِی الْمَرْئُ مَا اَخَذَ مِنْہُ اَمِنَ الْحَلَالِ اَمْ مِنَ الْحَرَامِ))(۱)
’’ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ وہ حلال طریقے سے کما رہا ہے یا حرام طریقے سے۔ ‘‘
حرام کمائی کی نحوست اس سے زیادہ کیا ہو گی کہ حرام کمائی اگر نیکی کے کاموں میں لگائی یا اس میں سے زکوٰۃ ادا کی یا صدقہ دیا تو وہ قبول نہ ہو گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لَا یَکْسِبُ عَبْدٌ مَالَ حَرَامٍ فَیَتَصَدَّقُ مِنْہُ فَیُقْبَلُ مِنْہُ فَیُبَارَکُ لَـہٗ فِیْہِ‘ وَلَا یَتْرُکُہٗ خَلْفَ ظَھْرِہٖ اِلاَّ کَانَ زَادَہٗ اِلَی النَّارِ‘ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَمْحُو السَّیِّیَٔ بِالسَّیِّیِٔ وَلٰـکِنْ یَمْحُو السَّیِّیَٔ بِالْحَسَنِ‘ اِنَّ الْخَبِیْثَ لَا یَمْحُو الْخَبِیْثَ))
(۲) ’’ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ کسی ناجائز طریقے سے مال کمائے اور اس میں سے فی سبیل اللہ صدقہ کرے تو اس کا صدقہ قبول ہو‘ اور اس میں سے خرچ کرے تو اس میں برکت ہو۔ اور جو شخص حرام مال (مرنے کے بعد) پیچھے چھوڑ کے جائے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ ہی ہو گا۔ یقینا اللہ تعالیٰ بدی کو بدی سے نہیں مٹاتا بلکہ بدی کو نیکی سے مٹاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گندگی گندگی کو نہیں دھو سکتی۔‘‘
چونکہ حرام کمائی اللہ کی مقررکردہ حدود و قیود کو توڑتے ہوئے حاصل کی جاتی ہے‘ لہٰذا وہ ناپاک ہوتی ہے۔ گندی چیز تو اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلاَّ طَیِّبًا)) (۳)
’’بے شک اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاک چیز ہی کو قبول کرتا ہے۔‘‘
حرام روزی کمانے والے کی روزی سے صدقہ دیا جائے گا تو وہ عند اللہ قبول نہ ہو گا‘ البتہ ناجائز کاموں میں وہ خوب خرچ ہو گا۔ ایک فارسی محاورہ ہے :’’مال ِحرام بود بجائے حرام رفت‘‘کہ حرام سے کمایا ہوا مال تھا حرام جگہ خرچ ہو گیا۔ آج دیکھئے شادی بیاہ کی فضول رسموں پر کس فراخدلی کے ساتھ مال خرچ کیا جاتا ہے۔ موسیقی اور گانے بجانے کی محفلیں سجتی ہیں ‘بدکار عورتوں پر دولت نچھاور کی جاتی ہے۔ کیا رزق ِحلال میں یہ خاصیت ہے کہ وہ ایسی جگہوں پر خرچ ہو؟ یہ سراسر حرام کمائی ہے جو جوئے اور شراب پر خرچ ہوتی ہے۔ سال ِنو عیسوی کی رات ہو یا بسنت کا تہوار‘ ویلنٹائنز ڈے ہویامیراتھن دوڑ‘ کیا ان منحوس تقریبات کے انعقاد میں کسی متقی پرہیزگار اور حلال خور کا پیسہ خرچ ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں ۔ ان ناجائز کاموں میں ان شتر بے مہار ‘ آزاد منش ‘ رشوت خور اور جرائم پیشہ لوگوں کا مال خرچ ہوتا ہے جنہوں نے حقوق العباد تلف کر کے‘ ڈاکے ڈال کر‘ لوٹ مار کر کے یا کسی دوسرے ناجائز ذریعے سے روپیہ اکٹھا کیا ہوتا ہے اور وہ عاقبت کی فکر سے آزاد زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں ۔ایسے لوگ نسلی مسلمان ہیں اور انہیں اپنے اسلام کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے دین سے وفادار ہوں اور ان کا آخرت پر پختہ یقین ہو تو وہ ایسا کیوں کریں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
((لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَـبَتَ مِنَ السُّحْتِ وَکُلُّ لَحْمٍ نَـبَتَ مِنَ السُّحْتِ کَانَتِ النَّارُ اَوْلٰی بِہٖ))
(۴) ’’وہ گوشت جنت میں نہ جا سکے گاجس کی نشوونما حرام مال سے ہوئی ہو اور ہر گوشت (جسم) جو حرام مال سے پلا بڑھا ہے دوزخ اس کی زیادہ مستحق ہے ۔‘‘
اوّل تو حرام خور کو نیکی کی توفیق نہ ہو گی اوراگر وہ کوئی نیک کام کرے گابھی تو حرام کی نحوست سے وہ شرفِ قبولیت سے محروم رہے گا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں:
((مَنِ اشْتَرٰی ثَوْبًا بِعَشْرَۃِ دَرَاھِمَ وَفِیْہِ دِرْھَمٌ حَرَامٌ لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ لَـہٗ صَلٰوۃً مَا دَامَ عَلَیْہِ ))
(۵) ’’جس شخص نے دس درہم میں کوئی کپڑا خریدا اور اس میں ایک درہم حرام کا تھا تو جبتک وہ کپڑا اس کے جسم پر رہے گا اس کی کوئی نماز اللہ کے ہاں قبول نہ ہو گی۔‘‘
حرام مال سے بچنا اس قدر ضروری ہے کہ جس مال میں حرمت کا شک ہے اس کو بھی چھوڑنے کی تاکید کی گئی ہے‘ کیونکہ اگر شک درست ہو تو حرام مال کے برے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ الْحَلَالَ بَـیِّنٌ ‘ وَاِنَّ الْحَرَامَ بَـیِّنٌ ‘ وَبَیْنَھُمَا اُمُوْرٌ مُشْتَبِھَاتٌ لَا یَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ ‘ فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ ‘ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الْحَرَامِ‘ کَالرَّاعِی یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ اَنْ یَّرْتَعَ فِیْہِ ‘ اَلاَ وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی ‘ اَلاَ وَاِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہٗ ))
(۶)’’یقیناحلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے‘ اور ان کے درمیان مشتبہہ امور ہیں‘ جن کے بارے میں اکثر لوگ نہیں جانتے (کہ یہ حلال میں سے ہیں یا حرام میں سے؟) پس جو ان مشتبہات سے بچا رہا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور محفوظ رہا۔ اور جو شخص ان مشتبہات میں پڑ گیاوہ حرام میں پڑگیا۔ (اس کی مثال ایسے ہی ہے) جیسے ایک چرواہا (اپنے جانوروں کوکسی) چراگاہ کے قریب چراتا ہے‘ قریب ہے کہ وہ جانور اس میں گھس جائیں۔ سن لو! ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اُس کے حرام کردہ امور ہیں۔‘‘
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہﷺ کے تربیت یافتہ سچے جاں نثار تھے‘ اس لیے وہ رسول اللہﷺ کی تعلیمات کو دل و جان سے نہ صرف تسلیم کرتے تھے بلکہ ان پر عمل کرتے تھے۔ جب انہوں نے حرام کی مذمت رسو ل اللہﷺ کی زبان مبارک سے سن لی تو پھر اس کے خلاف کرنے کا توکوئی سوال نہ تھا۔ ہاں یہ خیال ہروقت غالب رہتا کہ کسی بھی انداز سے کوئی ناجائز چیز ان کے پیٹ میں نہ چلی جائے۔
ہم مسلمان رسول اللہﷺ کے امتی اور’’ مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی‘‘ کے ماننے والے ہیں۔ رسول اللہﷺکی زبان سے جب رزق حرام کی مذمت ہم تک پہنچ گئی اور اصحاب ِرسولؐ کا طرزِعمل بھی ہم نے جان لیا تو اب نافرمانی کی گنجائش تو ختم ہو گئی‘ اور صرف اپنا جائزہ لینا ہی باقی رہ گیا۔ اگر اپنے لین دین اور کاروبار میں کہیں حقوق العباد کی حق تلفی ‘شعوری یاغیر شعوری طور پر ہو رہی ہو تو اس کو چھوڑنا ہو گا۔
اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنی اولاد کو کسی ایسے پیشے میں نہیں ڈالنا جہاں سے حرام رزق آتا ہو۔ مثال کے طو رپر ایک پیشہ ایسا ہے جس میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کیا جاتا ہے اور اس کام کا معاوضہ لیا جاتا ہے ‘کیا اس طرح آنے والا روپیہ حلال ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح دوسرے تمام پیشے اور ان کی کمائی ہمارے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ صاف ستھرے کام میں بھی بددیانتی کی جاسکتی ہے ‘لہٰذا اپنی اولاد کو روزگار پر لگنے کے بعد اس بات کی تلقین ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ حرام خوری سے دور رہا جائے‘ تھوڑی روزی ملتی ہو تو اس پر اکتفا کیا جائے اور بری روزی کما کر اپنی عاقبت کو خراب کرنا کسی طورپر بھی مناسب نہیں۔ اگر والدین اپنی اولاد کو جان بوجھ کر ایسا پیشہ اختیار کرواتے ہیں جس میں حرام روزی یا رشوت سے پیسہ آتا ہے تو اس سے بڑی عاقبت نااندیشی بلکہ حماقت کوئی نہیں ‘کیونکہ اولاد حرام کمائے گی تو نہ صرف اولاد کی آخرت برباد ہو گی‘ بلکہ حرام کمانے کے کام پر لگانے کے جرم میں والدین بھی ماخوذ ہوں گے۔
حواشی(۱) صحیح البخاری‘ کتاب البیوع‘ باب من لم یبال من حیث کسب المال ۔
(۲) مسند احمد‘ کتاب مسند المکثرین من الصحابۃ‘ ح۳۴۹۰۔ راوی : عبداللّٰہ بن جابرص۔
(۳) صحیح مسلم‘ کتاب الزکاۃ‘ باب قبول الصدقۃ من الکسب لاطیب وتربیتھا۔
(۴) مسند احمد‘ کتاب باقی مسند المکثرین ‘ باب مسند جابر بن عبداللّٰہ ص۔ وسنن الدارمی‘ کتاب الرقاق‘ باب فی اکل السحت۔
(۵) رواہ احمد فی المسند‘ والبیھقی فی شعب الایمان۔
(۶) صحیح البخاری‘ کتاب البیوع‘ باب الحلال بین والحرام بین وبینھما مشتبہات۔ وصحیح مسلم‘ کتاب المساقاۃ‘ باب اخذ الحلال وترک الشبہات۔واللفظ لہ۔