Img 20231211 181541 74

راہ و طرز زندگی ، ادیان عالم کی نظر میں

بین الاقوامی سیمینار
راہ و طرز زندگی ، ادیان عالم کی نظر میں
( perspective of religions about the way of life and life style)

تحریر :محمد جواد حبیب

مورخہ ۹دسمبر ۲۰۲۳؁ءعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی(AMU )کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج آڈیٹوریم(JNMC)میں ایک بین الاقوامی سمینار اس عنوان کے تحت”راہ و طرز زندگی ، ادیان عالم کی نظرمیں “( perspective of religions about the way of life and life style) علی گڑھ انٹرفیتھ سنٹر (AIC) اور ہیومینٹیز ایڈوانس اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ (HASI) کے باہمی تعاون سے انعقاد کیا گیا جس میں سرزمین ہندوستان اور ایران کی مذہبی، علمی اور ادبی مایۂ ناز شخصیات کے ساتھ ساتھ مختلف یونیورسٹی کے اسکالرز، اساتذہ اور اسٹیوڈینز ، ثقافتی دانشوروں اور سماجی عہدہ داروں نے بھی شرکت کی ۔سمینار کے مقررین نے “راہ و طرز زندگی “کے عنوان پر اپنے زریں خیالات کا اظہار فرمایا ااور تاکید کی اس دورمیں طرز زندگی سے واقفیت گزاشتہ ادوار سے زیادہ اہم ہے اس لئے کہ انسان کی سعادت اور شقاوت، عزت اور ذلت، صحت و بیماری ، کامیابی اور ناکامی کا دارو مدار طرز زندگی پرمنحصر ہے۔ اور اس بین الاقوامی سمینار میں طرز زندگی پر لکھی گئی کئی اردو اور انگریزی کتابوں کا رسم اجرا اور اس میں پیش کئے گئے مقالات کا اردو اور انگریزی مجموعہ بھی شایع کیا گیا ۔سمینار میں یونیورسٹی کے اسکالرز ، اساتذہ کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹیوڈنیز نے بھی شرکت کی ۔

مقررین سمینار کا پیغام :-
مختلف ادیان و مذاہب کے رہنماو ں نے راہ و طرز زندگی کے بارے میں ادیان کے نقطہ ہائے نظر کے موضوع پر علی گڑھ انٹرفیتھ سنٹر(AIC) اور ہیومنیٹیز ایڈوانسڈ اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی (HASI)کے زیر اہتمام منعقدہ بین الاقوامی سیمینار میں انفرادی، خانگی اور سماجی زندگی میں قدروں کے تحفظ ، اخوت و ہم آہنگی، یکجہتی ، باہمی میل جول، اتحاد و اتقاق، الگ الگ مذاہب کے پیروکاروں میں افہام و تفہیم ، مکالمے اور ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیا ۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جے این ایم سی آڈیٹوریم میں سیمینار کے افتتاحی اجلاس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے ایرانی مفکر اور ایرانی پارلیمنٹ کے سابق چیئرمین ڈاکٹر حداد عادل نے کہاکہ مغربی افکار اور طرز زندگی نے مشرقی دنیا میں کنبہ کے تصور کو منفی طور سے متاثر کیا ہے جس سے انفرادی اور سماجی سطح پر قدروں کا زوال ہوا ہے ۔ اسلامی اور قدیم ہندوستانی افکار میں مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خدا کا تصور انسانی زندگی میں ہر سطح پر رہنمائی کرتا ہے ، اس سے انسان جواب دہ بنتا ہے اور وہ سماج کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل اور کائنات کے دیگر اشیاءکے ساتھ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ڈاکٹرحداد عادل نے لائف اسٹائل کو لٹریری اسٹائل سے تشبیہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ طرز زندگی کا اندازہ انسان کے کردار، گفتار ، تعامل اور کائنات کے مظاہر کے ساتھ اس کے برتاو ¿ سے ہوتا ہے اور جس طرح سے انسان کی لائف اسٹائل ہوتی ہے ویسے ہی معاشرے کی بھی لائف اسٹائل ہوتی ہے ، جس کی تشکیل و ترتیب میں مذہب کا اہم کردار ہے۔ انھوں نے شہزادہ دارا شکوہ کی تصنیف مجمع البحرین کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ مغلیہ دور میں انسان و کائنات کے سلسلہ میں قدیم ہندوستانی افکار و نظریات کو سمجھنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی یہ ایک عدیم المثال کوشش تھی۔
مہمان اعزازی ، بوہرہ مذہبی رہنما قصے بھائی صاحب جمال الدین نے اپنے خطاب میں کہاکہ محبت سے انسانوں میں تعاون کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، محبت و خیرخواہی کا دائرہ صرف دینی بھائیوں کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہونا چاہئے۔ انھوں نے انسانوں کے ساتھ ساتھ ماحولیات و قدرتی وسائل کے تئیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا۔
مہمان اعزازی ہندوستان میں نمائندہ محترم ولی فقیہ آقائی مہدی مہدوی پور نے کہاکہ اسلام زندگی کے سبھی پہلوو ں میں معاشرے کی رہنمائی فراہم کرتا ہے اور اعلیٰ اخلاقی کردار کا مظاہرہ کرنے پر خاص زور دیتا ہے۔ انھوں نے کہاکہ امام زین العابدین نے والدین، ہمسایہ اور حیوانات سمیت 110ایسے حقوق کی تاکید کی ہے جو ہمیں ادا کرنے چاہئیں۔ انھوں نے کہاکہ اسلامی تعلیمات میں انصاف کو مرکزیت حاصل ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ یہ سیمینار مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان اتحاد و یکجہتی اور افہام و تفہیم کو فروغ دے گا۔

افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اے ایم یو کے سابق وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ مختلف مذاہب کے رہنماو ں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا فال نیک ہے ، کیوںکہ انٹرفیتھ ڈائیلاگ آج کے وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پروفیسر منصور نے سیمینار کے انعقاد کے لئے پروفیسر علی محمد نقوی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ بات چیت اور ڈائیلاگ سے ہی تنازعات و خلفشار کا حل نکل سکتا ہے اور ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اس سے قبل علی گڑھ انٹرفیتھ سنٹرکے بانی ڈائرکٹرپروفیسر علی محمد نقوی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ طرز زندگی کے سلسلہ میں مختلف مذاہب کے رہنماو ¿ں کے خیالات حاضرین کے لئے مشعل راہ ہوں گے اور یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ انسانی معاشرہ میں مذہب کس طرح ہم آہنگی کو فروغ دے سکتا ہے۔
عیسائی رہنما فادر ڈاکٹر ایم ڈی تھامس نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ خدا میں یقین کا نام روحانیت ہے اور انسان کو اپنے مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں سے بھی گہرا تعلق رکھنا چاہئے ۔اس سے سماج میں امن و بھائی چارہ کو فروغ ملے گا۔
جین مذہبی رہنما شری وویک مُنی نے اپنے خطاب میں کہاکہ جیو اور دینے دو زندگی کا فلسفہ ہونا چاہئے ۔بات چیت اور سنواد کے ذریعہ ہی اختلافات کا حل نکل سکتا ہے ۔انھوں نے مہاویر جین کی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ رحم کا جذبہ اور پریم انسانوں کو جوڑتا ہے ، آج پوری دنیا کو اس کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں ایسا کوئی عمل نہیں کرنا چاہئے جس سے ہمارے اپنے مذہب کی بدنامی ہو۔

اسکان کے نائب صدر ڈاکٹر برجیندر نندن داس نے اپنے خطاب میں کہا کہ آتما کو صحت مند غذا دینا چاہئے ۔ انسان اپنے جسم کو صحت مند رکھنا چاہتا ہے جو کافی نہیں ، گیتا کی تعلیمات آتما کو تندرست رکھنے پر زور دیتی ہیں ۔ آج کے دور میں زیادہ تر لوگ آتما اور شریر کے فرق کو نہیں جانتے ، جس کی وجہ سے جہالت اور نادانی کا بول بالا ہے ۔انھوں نے سنسکرتی اور سنسکاروں کے تحفظ پر زور دیا۔

سیمینار کی دوسری نشست کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے کی۔ انھوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سیموئل پی ہٹنگٹن کے تہذیبوں کے تصادم کے نظریہ نے دنیا کو گمراہ کیا ۔ تہذیبوں کے درمیان ڈائیلاگ اور مذاکرہ کا تصور انسانیت کی ضرورت تھی اور آج بھی اس کی ضرورت و افادیت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔انھوں نے موجودہ وقت میں روس ، یوکرین جنگ اور فلسطین و اسرائیل کے ٹکراو ¿ اور ظلم و بربریت کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کی کوششوں کو عوام تک پہنچانا چاہئے تاکہ لوگ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ٹکراو ¿ اور جنگ سے پرہیز کیا جائے۔ انھوں نے اس سلسلہ میں مذہبی رہنماو ¿ں کی گفت و شنید اور افہام و تفہیم کو اہم قرار دیا ۔
قومی کمیشن برائے درج فہرست اقوام کے سابق چیئرمین لاما چوسفیل زوٹپا نے اپنے خطاب میں کہاکہ سبھی دھرموں کے لوگوں میں شانتی اور بھائی چارہ ہونا چاہئے۔ انھوں نے بدھ مت کی بنیادی تعلیمات کا ذکرکیا اور ایک دوسرے کی مدد پر زور دیا۔

کویت سے آئے حاجی مصطفی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ مشرقی اقدار معاشرے کے لئے قیمتی ہیں اور مغربی اثرات اور نام نہاد ترقی کے نام پر اپنے معاشرے کو بگڑنے سے بچانا ہوگا۔

سیمینار کے بعد کی نشست میں الزہرا یونیورسٹی، ایران کی ڈاکٹر طیبہ مہروزادہ سمیت دیگر کئی اسکالرز نے خطاب کیا ۔
اس سمینار کے بعد مختلف یونیورسٹیز کے اساتذہ اور اسکالرز نے اپنی تحقیقی مقالات پیش کئے جس کا سلسلہ اگلے دن بھی جاری رہا تقریبا ۳۰ سے زاید اسکالرز نے ” راہ وطرز زندگی” عنوان بہترین علمی اور ادبی تحقیق پیش کئے اور اس موضوع کی اہمیت اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے، علی گڑھ انٹرفیتھ سنٹر(AIC) اور ہیومنیٹیز ایڈوانسڈ اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی (HASI) عنقریب ان سارے مقالات کا مجموعہ منظر عام پر لاے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں