دین اور دینداری
تحریر : محمد جواد حبیب
دین ایک وسیع اور جامع اصطلاح ہے۔ دین کا معنی ہے : نظامِ زندگی، سیرت، فرمانبرداری، برتاؤ، سلوک اور حساب و احتساب، ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ برتاؤ ہو یا مخلوق کا خالق کے ساتھ معاملہ، ان سب باتوں کو دین کہا جائے گا۔ جب ہم کسی چیز پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ میرا دین ہے۔ لہٰذا اس تعریف کے مطابق، اگر ہم اپنے دینی عقیدے کے مطابق عمل نہیں کرتے، یا اسکی تعلیمات کے خلاف کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم واقعی اس دین کو نہیں مانتے۔۔ قرآن کریم نے ایسے لوگوں کے بارے میں بتایا ہے۔( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ )”لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔” لیکن وہ (حقیقت میں) ایمان نہیں لاتے۔” قرآن مجیداس کو مسلمان نہیں مانتا جو اس کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا۔ پس سچا مسلمان وہ ہے جو ہر وقت اسلام کی تعلیمات پر عمل کرے۔ اگر ہم سچے مسلمان ہیں تو ہمیں اپنے گھر کے اندر اور باہر، کلاس روم میں، کھیل کے میدان میں، مسجد میں، سڑکوں پر اور جہاں کہیں بھی ہوں اسلام کے قوانین پر عمل کرنا چاہیے۔
دین اور مذہب میں فرق کیا ہے :
عام طور پر دین اور مذہب کو ایک دوسرے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے، جبکہ ان دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ دین کل ہے اور کسی بھی نظام کے اصول و ضوابط کا نام ہے۔ نیز دین، دنیا و آخرت کے تمام گوشوں کو محیط ہے اس کے برعکس مذہب جزو ہے جو شرعی عبادات و احکامات سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ معروف معنوں میں مذہب بندے اور خدا کے اس تعلق کا نام ہے جسے انسان کے دنیوی معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔
اسلام دین ہے مذہب نہیں کیوں کہ دین میں زیادہ وسعت اور جامعیت پائی جاتی ہے۔ قرآن حکیم نے کسی بھی جگہ اسلام کو مذہب نہیں بلکہ ہمیشہ دین ہی قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا: (ِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَام )بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔وہ نظامِ حیات جو کمال درجہ جامعیت کی شان کے ساتھ بیک وقت دنیا اور آخرت کو محیط نہ ہو اسے مذہب یا فلسفہ اور نظریہ تو قرار دیا جا سکتا ہے، دین نہیں کہا جا سکتا جبکہ دین اسلام کل ہے جس میں معیشت، معاشرت، سیاست سب شامل ہیں۔ یعنی دین اُسی نظام کو کہا جا سکتا ہے جو ہر اعتبار سے کامل و اکمل ہو اور انفرادی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو کو محیط ہو اور ہر شعبۂ حیات میں مؤثر اور قابلِ عمل رہنمائی مہیا کر سکتا ہو۔
دین پر ملحدین کے اعتراضات :
اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جودین و مذہب کو نہیں مانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کو کسی دین کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ اپنے اس مفروضے کی حمایت میں کچھ بے بنیاد دلائل اور اعتراضات پیش کرتےہیں۔ مثال کے طور پر، وہ کہتے ہیں؛
پلاا اعتراض :انسان اپنی عقل کی توانی کی بناپر یہ جانتا ہے کہ اس کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔ اس لیے اسے سکھانے کے لیے کسی دین یا نبیکی ضرورت نہیں۔
دوسرا اعتراض :اس دنیا میں بہت سے مذاہب ہیں جن میں مختلف تعلیمات اور متضاد تصورات موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام مذاہب یہ اعلان کرتے ہیں کہ ساری سچائیاں ان کے پاس ہیں جبکہ دوسرےمذاہب غلط ہیں۔ یہ کیسےصحیح ہو سکتا ہے؟
تیسرا اعتراض :دین اور مذہبی قوانین اور احکامات، انسانی توانائی اور اسکا وقت بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ پس دین ترقی کے لئے رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔اس لئے دین کا انکار کیا جانا چاہئے ۔
چوتھا اعتراض :. دین ہمیں زندگی سے لطف اندوز ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔
یہ وہ دلائل ہیں جو آج کل کے ملحدین ؛ انکار دین و مذہب کے لئے پیش کرتے ہیں ۔ یہ تمام دلائل بالکل بے بنیاد ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں پائئ جاتی ہیں ۔
آئیے ایک ایک کرکے ہر دلیل کے کا تجزیہ کرتے ہیں تاکہ پڑھنے والے کےلیے انکی حقیقت واضح ہوجائے۔
۱. یہ سچ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو حیرت انگیز دماغ عطاکیا ہے جو اچھے اور برے کی پہچان کر سکتا ہے۔ امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا(إنَّ لِلّهِ عَلَی النّاسِ حُجَّتَینِ: حُجَّهً ظاهِرَهَ وَ حُجَّهً باطِنَهً، فَاَمَّا الظّاهِرَهُ فَالرُّسُلُ وَ الاَنبیاءُ وَ الاَئِمَّهُ، وَ اَمَّا الباطِنَهُ فَالعُقُولُ ) اے ہشام! پروردگار نے لوگوں پر دو حجتیں قائم کی ہیں۔ ایک حجت ظاہری اور دوسری حجت باطنی ، ظاہری حجت، رسل، انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں اور باطنی حجت خود لوگوں کے عقل ہیں۔
عقل اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اسی عقل کے ذریعے انسان کو باقی تمام مخلوقات پر فضلیت بخشی گئی ہے۔ یہی عقل ہے جو ہر بدی و نیکی کو تشخیص دیتی ہے۔ یہی عقل ہے جو بشر کو ایک خدائی انسان بناتی ہے۔ یہی عقل ہے جو انسان کو ہلاکت سے نجات دلاتی ہے۔
بیشک خداوند نے انسان کو عقل سے نوازا ۔جو اچھے اور برے کی پہچان کر سکتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اچھی اور بری چیزوں کے بارے میں الگ الگ فیصلے کرتے ہیں یعنی انکی نظر مختلف ہوتی ہے ۔مثال کے طور پر، بہت سے لوگ عریانیت، شراب نوشی، جوا اور اس طرح کے بہت سے دوسرے کاموں کو سراہتے ہیں جنہیں دوسرے لوگ گھناؤنے جرم سمجھتے ہیں۔
اس طرح انسانی عقل کائنات کی تمام حقیقتوں کو دریافت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ مذہب ہمیں وہ تمام چیزیں سکھاتا ہے جو انسان اپنی کوششوں سے دریافت نہیں کر سکتا۔
ہم سائنسی تحقیقات سے جان سکتے ہیں کہ چاند، مریخ اور دیگر تمام سیاروں پر کیا ہو رہا ہے۔ لیکن ہم کسی بھی جدید ٹیکنالوجی سے قبر اور برزخ کے حقائق اور آخرت میں پیش آنے والے واقعات کو کبھی نہیں جان سکتے۔ اس طرح کی تمام معلومات کے لیے ہمیں ایک ایسے نبی کی ضرورت ہے جس کا رب کائنات کے ساتھ براہ راست رابطہ ہو۔ وہ ہماری صحیح ہدایت کرسکتے ہیں ۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے اعلیٰ سائنس دان صرف اس لیے سنگین غلطیاں کر رہے ہیں کہ وہ انبیاء کرام کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔ ایک طرف سے آج سائنسی اور تکنیکی ترقی بنی نوع انسان کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ اگردین اور انبیاء کی تعلیمات پر عمل نہیں کیا تو اس وقت یہ ٹکنالوجی انسان کو نقصان پہونچا سکتی ہے ۔دین ہے جو ان وسائل پر انسان کو کنٹرول دیتا ہے ۔
۲. یہ سچ ہے کہ مختلف ادیان کے مختلف تعلیمات ،اصول و ضوابط ہیں اور ان میں سے ایک کے علاوہ کوئی بھی سچا نہیں ہے۔
سچے دین و مذہب کو ہرانسان تحقیق اور جستجو کے بعد حاصل کر سکتا ہے۔ مثلاً بازار میں ہم جانتے ہیں کہ خالص اور ناپاک، اصلی اور مصنوعی، اچھی اور ناقص چیزیں لوگ بیچتے ہیں۔ ہر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے پاس خالص، حقیقی اور اچھی چیزیں ہیں در حالیکہ یہ صحیح نہیں ہوتیں ہیں ۔
ہم عام طور پر ایسے تمام معاملات میں کیا کرتے ہیں؟ کیا ہم چیزیں خریدنا چھوڑ دیتے ہیں؟ کیونکہ بہت سے لوگ ناپاک یا ناقص چیزیں بیچ رہے ہیں اور ہر کوئی یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ بہترین اور اصلی چیزیں اسی کے پاس ہیں؟ بالکل نہیں. ہم اس دکان کو تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جو صحیح چیزیں بیچ رہی ہو۔اسی طرح اگر کسی کو دین کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے تو وہ تحقیق و مطالعہ کے بعد حقیقی دین کو انتخاب کرے گا۔
۳. تیسری دلیل بھی سراسر غلط ہے۔ ہم کھاناکھانے، سونے، آرام کرنے، کھیلنے اور لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے میں بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔ ان تمام قدرتی افعال میں وقت اور توانائی کی کافی زیادہ درکار ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں کبھی شکایت نہیں ہوتی کہ یہ کام (سونے، کھانا کھانے اور ملاقاتیں) ہمارا بہت وقت اور توانائی ضائع کر رہے ہیں اور ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔
درحقیقت، ہم سمجھتے ہیں کہ اعتدال پسند کھانا، سونا اور کھیلنا زیادہ کام کرنے کے لیے توانائی پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی کی عبادت کرنے سے ہمارے علمی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔جو شخص سچے دل سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت سمجھ کر کرتا ہے وہ کبھی بھی فضول فلمیں دیکھنے، موسیقی سننے، جوئے کے اڈوں میں جوا کھیلنے یا کسی اور بے کار چیز میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ لوگ ان کاموں میں اپنی بے پناہ توانائی اور وقت ضائع کرتے ہیں جن کی اسلام میں ممانعت ہے۔اس طرح دین حق کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہم نہ صرف اپنا قیمتی وقت اور توانائی بچاتے ہیں بلکہ اسے تعمیری کاموں میں بھی استعمال کرتے ہیں۔
۴. چوتھی دلیل بھی صحیح نہیں ہے۔ سچا دین ہماری زندگی کو خوشیوں سے بھر دیتا ہے۔ کئی دائمی بیماریاں جیسے ایڈز، کینسر اور دل کے مسائل انسانی زندگی کو اجیرن بنا رہے ہیں۔ کوئی بھی اس خوف کے ساتھ زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا کہ وہ ان میں سے کسی جان لیوا بیماری کا اگلا شکار ہو سکتا ہے۔ لیکن سچے دین کے ماننے والوں کو کوئی خوف نہیں ہوتا۔ وہ جانتے ہیں کہ دنیا کی زندگی عارضی ہے اور آخرکار انہیں اس دنیا کو چھوڑ کر دوسری مستقل دنیا میں جانا ہے۔اس سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ایک بامقصد اور خوشحال زندگی کے لیے دین کی ضرورت ہے۔ اور ایک جانب سے غلط دین ومذہب کے انتخاب سے انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی تباہ ہوسکتی ہے ۔اس ناطے صحیح دین کی معرفت انسان کے لئے اشد ضرورت ہے ۔
دینداری انسان کی فطرت میں موجود ہے تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان نے ہردور میں کسی دین کی پیروی کی ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دینداری انسان کی فطرت میں موجودہے ۔ مثال کے طور پر، سنگین کار حادثات کے بہت سے واقعات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بے ہوش شخص صحت یاب ہوتا ہے، تو وہ فوراً اپنے آس پاس کھڑے لوگوں سے بہت سے سوالات کرتا ہے۔ وہ پوچھتا ہے؛ میں کہاں ہوں ؟ میں یہاں کیسے آیا؟ مجھے کون لایا؟ مجھے کیا ہوا ہے؟کیا میں محفوظ ہوں؟ ۔ اس طرح کے تمام سوالات صاف ظاہر کرتے ہیں کہ انسان میں یہ جاننے کی فطری جبلت ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اسے آخر کہاں جانا ہے۔ سچے مذہب کے پاس ان سوالات کے صحیح جوابات ہیں۔ اگر کوئی ان سوالات کو نظر انداز کر رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بے حس ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمائی۔ (الناس نيام فإذا ماتوا انتبهوا)”لوگ سو رہے ہیں، مرنے کے بعد جاگیں گے۔”
سچا دین ان تمام سوالوں کا قانع کنندہ جواب پیش کرتا ہے :کائنات کو کس نے بنایا ہے؟جانداروں کی لاکھوں اقسام کس نے پیدا کی ہیں؟کس نے انسانوں کو تمام مخلوقات پر فضیلت دی؟اس نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟
دنیا کا کوئی بھی انسان یہ جان نہیںسکتا کہ کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کیسے وجود میں آئی۔ سائنس دان ہمیں کائنات اور جانداروں کی ابتدا کے بارے میں جو کچھ بتاتے ہیں وہ ان کا اندازہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ سائنس میں بہت سے مختلف نظریات ہیں جن کی مکمل وضاحتیں ہیں۔ مثال کے طور پر، بگ بینگ تھیوری،(Big-bangtheory,) سٹیڈی سٹیٹ تھیوری،( Steady state theory) اور تھیوری آف ایوولوشن(theory of evolution) کائنات کے وجود کے بارے میں مختلف کہانیاں پیش کرتے ہیں۔ آج تک کوئی سائنس دان یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ واقعی کائنات اور زندگی کی ابتدا کے بارے میں جانتا ہے۔
لیکن قرآن پاک ہمیں کائنات کی ابتدا کے بارے میں بہت واضح طور پر بتاتا ہے۔(خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ )
“اسی نے آسمانوں اور کائنات کو پیدا کیا، وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر تبدیل کرتا ہے، اس نے سورج اور چاند کو اپنے قوانین کے تابع کر رکھا ہے، ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا ہےکیا وہ عزیز و غفار نہیںہے ۔
یہ دین اسلام ہے جو ہماری زندگی کے مبدا ء اور مقصد کوبتاتا ہے اور مقصدتک جانے کے راستہ مہیا کرتاہے راستہ دیکھانے کے لئے معصوم نبیوں اور اماموں مشخص کرتا ہے تاکہ ہماری زندگی با مقصد ہو اور ہم سعادت مند ہوں۔