1201336 34

خواتین نے واقعہ کربلا کو بے نظیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، مولانا رضی زیدی

دہلی //واقعہ کربلا میں خواتین کا بے نظیر کردار کے عنوان سے مولانا رضی زیدی پھندیڑوی دہلی نے کہا کہ اللہ نے عورت کو عزت و احترام کا وہ بلند مقام بخشا جو اس کی اصل اور فطرت کے عین مطابق ہے۔عورت وہ افضل و برتر وجود ہے جو خود اور پورے معاشرے کو سعادت اور نیک نامی کے ساتھ ساتھ عظمت و نیک بختی کی سعادت کے راستہ پر گامزن کرسکتی ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو براہ راست اپنی موجودگی سے بیوی کا شایانِ شان کردار ادا کرسکتی ہے اور بچوں کی صحیح تربیت کے ذریعے انسانیت کے مستقبل کے تعین میں سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عورت ہی ہے جس نے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مل کر چراغ انسانیت کو تا قیامت روشن کردیا ہے۔ تاریخ اسلام کا اہم ،منفرد اور بے مثل واقعہ جس نے انسانیت کو حقیقت اسلام سے روشناس کرایا اور تاریخ اسلام کو حیات ابدی کا جامہ پہنایاوہ نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کا قیام ہے۔ یہ قیام مردو زن دونوں کی فداکاریوں اور جانثاریوں پر مشتمل ہے جو انسانیت کیلئے نمونۂ عمل اور مشعل راہ ہیں۔

مزید کہا کہ واقعہ کربلا صبر، استقامت، شجاعت، پرہیزگاری، عقیدہ، اخلاق اور طرز زندگی کے ابواب پر مشتمل ہے۔ اس واقعہ میں خواتین اور مرد ، چھوٹے اور بڑے سب شامل ہیں اور ہر ایک کا اپنا ایک الگ کردار ہے ۔ در حقیقت کربلا میں کام آنے والے بہادر اپنی ماؤں کے لیے ایک انمول سرمایہ تھے۔

انکا کہنا تھا کہ کربلا کے واقعہ کو ابدی حیات بخشنے میں حضرت زینب، حضرت ام کلثوم، حضرت سکینہ ، اسیران اہل بیت اور کربلا کے دیگر شہدا ءکی بیویوں اور ماؤں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی تحریک کا پیغام لوگوں تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کا پیغام کربلا کی اسیر خواتین نے عوام تک پہنچایا ہے۔ جناب زینب کے بے نظیرکردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا کامل نظر آتی ہے۔حضرت زینبؑنے روز عاشورہ میں ہی نہیں بلکہ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد مختلف مقامات پر اپنا کردارادا کر کے یہ بات ثابت کیا ہے کہ کسی بھی تحریک کو مستحکم بنانے کیلئے خواتین کا کردار اہم ہوتا ہے۔ کربلا کے واقعہ کے بعد عورتوں میں وہ جرأت پیدا ہوگئی اور دنیا میں ہونے والی تمام تحریکوں میں خواتین کا اہم کردارنظر آیا ہے۔

مولانا رضی زیدی نے کہا کہ جس طرح حضرت عیسی ؑ کا نام حضرت مریم کے بغیر، حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑکی تاریخ حضرت ہاجرہ کے بغیر، رسول خدا ؐکی مشقتیں حضرت خدیجہ اور حضرت فاطمہ کے بغیر نا مکمل ہیں اسی طرح کربلا کا واقعہ بھی حضرت زینبؑ کے بغیر نا مکمل ہے۔ حضرت زینب کے علاوہ اور بھی خواتین کربلا کے میدان میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں ۔ ان میں حضرت ام کلثوم، حضرت رقیہ بنت الحسین، حضرت سکینہ بنت الحسین، حضرت فضہ، جناب رباب، جناب رملہ، جناب ام لیلیٰ، جناب ام وہب، جناب بحریہ بنتِ مسعود جناب خزرجیہ،جناب ہانیہ حضرت وہب کی منکوحہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔کربلا کی خواتین کے اعمالِ حسنہ اور جدوجہد حق پسند خواتین کے لیے مشعل ِ راہ ہے۔

ہندوستان کے برجستہ عالم دین نے مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ عاشوراءکربلا کی سر زمین پر ہونے والے واقعہ کا نام نہیں ہے بلکہ ایک تحریک اور مقصد کانام ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی اس عظیم تحریک کاآغاز 28 رجب المرجب 60 ھ سے شروع ہو ا اور یہ تحریک عصر عاشورپر ختم نہیں ہوئی بلکہ ام المصائب حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور امام زین العابدین علیہ السلام کی سربراہی میں کوفہ اور شام کے فاسق، جابر اور ظالم حکمرانوں کے درباروں تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس انقلاب کی آوازمشرق و مغرب اور عرب و عجم میں بھی سنائی دی ۔

مولانا نے کہا کہ حضرت زینب (س) کے خطبوں سے کربلا کی تحریک کو قیامت تک اسی احساس کے ساتھ یاد رکھا جائے گا جیسے وہ صدیوں کی بات نہیں بلکہ کل ہی کا واقعہ ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد حضرت زینب (س) نے چند اہم ذمہ داریوں کو بہت اچھے طریقہ سے کامیابی کے ساتھ نبھایا۔ جن میں سب سے بڑی ذمہ داری امام زین العابدین علیہ السلام کی دیکھ بھال اور دشمن سے ان کی حفاظت، دوسری ذمہ داری شہداء کی خواتین اور بچوں کی حفاظت۔ تیسری ذمہ داری امام حسین علیہ السلام کی تحریک کو زندہ رکھنا اورکربلا کے پیغام کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچانا تھا۔

مزید کہا کہ جہالت اور خوف میں دم توڑتی انسانیت کو زندہ کرنے کا جومشن امام حسین علیہ السلام مدینہ سے لے کر نکلے تھے اس کو حضرت زینب کے کرداراور ان کی گفتار نے انجام تک پہنچایا۔ جناب زینب (س) کی سربراہی میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم نے کوفہ و شام کی گلی کوچوں میں اپنے خطبوں کے ذریعہ یزیدیت کے ظلم کا پردہ چاک کردیا۔

کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کو ان کی ماؤں، بیویوں اور بیٹیوں نے ہمت اور حوصلہ دیتے ہوئے کہا:تمہارے ہوتے ہوئے دشمن حضرت امام حسین علیہ السلام کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے ورنہ روز محشر دختر رسول “حضرت زہرا سلام اللہ علیہا”کو کیا منہ دکھائیں گے!۔

آخر میں کہا کہ میدان کربلا میں یزیدی ظلم کے خلاف نہ صرف یہ کہ خاندان رسالت نے قربانیاں پیش کیں بلکہ اس گھرانے کی کنیزوں اور انصارِحسینی کی خواتین نے بھی اپنے ایثار اور قربانیوں کے جوہر دکھائے۔جہاں حضرت زینب اور ام لیلیٰ نے اپنی قربانیاں پیش کیں تو وہیں جناب ام وہب، جناب بحریہ بنتِ مسعود اور جناب خزرجیہ نے بھی اپنی قربانیوں کا ہدیہ پیش کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عظیم خواتین نہ صرف اپنی نسلوں کی تربیت کرنے میں باکمال تھیں بلکہ میدان عمل میں بھی ان کی کوئی مثال نہ تھی۔ خواتین نے واقعہ کربلا کو بے نظیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کی مثال آج تک تاریخ بیان کرنے سے قاصر ہے۔ کربلا کی عورتوں کا کردار ہر زمانہ کی خواتین کیلئے مشعل راہ ہے۔پروردگار سے دعا ہے کہ پالنے والے! ہر زمانہ کی خواتین کو کربلا کی خواتین کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔”آمین والحمد للہ رب العالمین”۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں