اسلامی تصوف کا تعارف
قسط نمبر 14
توصیف احمد وانی ڈائریکٹر سید حسن منطقی اکیڈمی اونتی پورہ کشمیر انڈیا
(خدمت خلق اور صوفیہ )
اس وقت دنیا میں Give and Take لو اور دو کا اصول عوام الناس کی فطرت کا لازمی حصہ بن چکا ہے کوئی شخص کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اسے بدلے میں کیا ملے گا, جب تک یہ امید نہ ہو, اس وقت تک کوئی قدم نیکی کی طرف نہیں اٹھتا اور نہ کسی اور کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے.
خود غرضی اور نفس پرستی کے اس جذبے کے برعکس صوفیاء کرام عوام الناس میں یہ روح پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر انسانیت کو فائدہ پہنچایا جائے۔ صوفیاء کے ہاں خلق خدا کی بے لوث خدمت سے بڑھ کر کوئی نیکی کا عمل نہیں۔
(حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں)
لوگوں کو فائدہ پہنچا کر ان کا دل خوش کرو یہ حج اکبری ہے، ہزاروں کعبہ سے ایک دل بہتر ہے۔
طریقت خدمت خلق کے علاوہ اور کسی چیز کا نام نہیں۔
سلطان اولیاء حضرت نظام دین اولیاء رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں،
قیامت کے بازار میں کوئی اسباب اس قدر قیمتی نہ ہوگا جس قدر دلوں کو راحت پہنچانا۔
اصل بات یہ ہے کہ صوفیاء خلق خدا کو خدا کا کنبہ سمجھتے ہیں ۔اس لیے خلق خدا کی خدمت کو خدا کی رضا اور خلق خدا کی روح گردانی کو خدا کی ناراضگی کے برابر سمجھتے ہیں۔۔
مطلب یہ ہے کہ صوفیاۓ کرام مومنین کے ساتھ بھلائی کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ انہیں خدمت کے بدلے میں کیا ملے گا ،وہ تو صرف خدا کی رضا کی خاطر خدا کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلق خدا کی خدمت پر ابھارنے کے لیے مختلف طریقوں سے ترکیب دی ہے، ایک موقع پر فرمایا،،
بیواوں اور یتیموں کی مدد کرنے والا (خدا کے ہاں) ایسا ہے جیسے مجاہد فی سبیل اللہ اور (راوی کہتے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اس کو وہ اجر ملے گا جو ساری رات جا کر عبادت کرتا ہو اور جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہو ۔۔
ایک اور موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمت خلق کی اہمیت کے بارے میں فرمایا ،،ایک دوسرے کے ساتھ رحم ،محبت، اور نرمی کرنے کے لحاظ سے تم دیکھو گے کہ مومن ایک جسم کی طرح ہے، جسم کا کوئی عضو جب تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
ایک اور روایت میں فرمایا،،
اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، کوئی بندہ اس وقت تک کامل مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
صوفیاء کے ہاں بہت سی روحانی، تربیتی، اور اخلاقی امور ہے جو تزکیہ نفس کرتے ہیں اور ان کے قلوب و اذہان میں اعلی اخلاق کو راسخ کرتے ہیں ،ان امور میں سے درج ذیل نکات کا انتخاب کیا گیا، اللہ تعالی کی محبت، رسول اللہ کی اطاعت، تزکیہ نفس، برداشت، رواداری، خدمت خلق۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ صوفیاء کرام کا تحمل اور رواداری کو اپنانا یا اس کی تعلیم دینا سراسر قران و سنت سے ماخوذ ہے۔
(خلاصہ بحث)
1۔۔ تصوف عشق اور محبت خداوندی کا درس دیتا ہے، نیز اتباع رسول کی ترغیب دیتا ہے۔
2۔۔ تصوف خلق خدا کی محبت اور اس کی خدمت کی تلقین کرتا ہے اور مخلوق کی کمی کوتاہیوں کو درگزر کرنے اور ان سے حسن خلق رکھنے کا سبق دیتا ہے اور صوفیاء کی نظر میں خلق ازاری سے بڑا کوئی گناہ نہیں۔۔
3۔۔ تصوف دوست اور دشمن اپنے پراۓ کے فرق کے بغیر سب کے ساتھ رواداری اور برداشت کا درس دیتا ہے۔
(جاری————-)